کوئی توہے جو میرے نخل تمنا پر ثمر آنے نہیں دیتا!

رمیض احمد تقی    

  ملک میں تیزی سے بڑھ رہے مذہبی عدمِ برداشت اور عدمِ رواداری کے طوفان نے صوبہ صوبہ، ضلع ضلع، قصبہ قصبہ اور قریہ قریہ کو ہلاکررکھ دیاہے۔کہیں مسلمانوں کی برہنہ لاشیں بکھری پڑی ہیں ،توکہیں دلتوں کے خون سے یہ ملک لالہ زار ہورہا ہے،کہیں سے بنتِ حواکی سسکیوں کی آوازآتی ہے، تو کہیں مائیں اپنی چھاتی پیٹتی ہوئی نظرآرہی ہیں ،تو کہیں بچوں کے بلبلانے کی آواز ہے؛مگرافسوس کہ پوراملک خاموش تماشائی بنا ہواہے !مسلمانوں کی بے غیرتی وبے حسی کا یہ عالم ہے،کہ گویا ان کی گردنوں پر پھر سے تاتاری تلواریں لٹک رہی  ہوں ۔گلے میں دوگزکا بھگوائی رومال لپیٹے ،نحیف و لاغرشخص بھی ہمارے پاس آتا ہے،ہماری بہنوں کو بے آبروکردیتاہے۔ماؤں کی عصمت وآبروکولوٹ لیتا ہے۔بچوں کے گلے میں رسیاں ڈال کر درختوں سے لٹکا دیتا ہے۔نوجوانوں کو ننگا کرکے ان کی شرمگاہوں کے ساتھ کھیلواڑ کرتاہے اورپھرانہیں ماردیتا ہے اور بوڑھوں کومارمارکرادھمواکردیتا ہے،تا کہ وہ اپنی کمزوری ولاچارگی کے آنسوروتے رہ جائیں اور پورے ملک میں کوئی بھی ان کا آنسو پوچھنے والا نہ ہو!

تقریباً ایک سال سے پورا کشمیر لہولہان ہے،بچوں کی آنکھیں پھوڑدی جاتی ہیں ،نوجوانوں کو فوجی گاڑی کے پیچھے گھسیٹا جاتا ہے اور عورتوں کی عزت وآبروپر حملے بولے جاتے ہیں ،مگرہماراضمیرہمیں نہیں جھنجھوڑتا اورEverything is fare in Love & Warکا انسانیت سوز نعرہ لگاکر ان ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کے زخم پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ارے!ان پیلٹ گن برداروں نے تو صرف کشمیریوں کی آنکھیں پھوڑی تھیں ،مگر صد افسوس کہ ہم نے تواپنی بصارت ہی کھودی!گاؤں کا گاؤں تباہ وبرباد ہوگیا ،بھگوائیوں نے گئو کشی کے نام پرپورے ملک میں نہ جانے کہاں کہاں کتنے بے قصورلوگوں کا خون بہایا۔اَینٹی رومیوکا نعرہ لگاکرنہ جانے کتنے پارکوں اور زیارت گاہوں پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈالا۔انہیں دیکھ دیکھ کبھی کبھی تو یہ شبہ ہوتاہے کہ کیاہمارے سینے میں دل بھی ہے؟جب اخبار کھول کر پڑھنے بیٹھیں ،یاپھردوستون کے رسائل پڑھنے کے لیے فیس بوک،واٹس ایپ یا ٹویٹر پر اپنا اکاؤنٹ لاگ ان کریں ،تووہاں بھی بھگوائیوں کے کالے کرتوتوں کی تصویریں آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں ۔

گذشتہ دنوں کی بات ہے کہ سہارن پورضلع میں دلتوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کا قتلِ عام کیا گیا،ان کے گھروں کو جلاکرراکھ کردیااور عورتوں کی عزت لوٹی گئی اور اس حادثہ کے صرف ایک دن بعدہی امیٹھی میں دلت ماں بیٹے کو اینٹ سے مار مارکر ماردیااوراسی دن بلند شہر کے قریب سے گذرتی ہوئی ایک گاڑی میں چارمسلم لڑکیوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایاگیا اور مزاحمت کرنے پر خاندان کے سربراہ کا گولی مار پر قتل کردیاگیا۔

  یہ حقیقت ہے کہ جب سے بی جے پی یوپی میں یوگی رتھ پر سوار ہوئی ہے ،بھگوائیوں نے انسانیت سے اپنا ناطہ ختم کرلیا ہے اورطرفہ کی بات یہ ہے کہ ملک میں ہر طرف سناٹا چھایاہوا ہے، گویاکبھی کچھ ہوا ہی نہیں ؛حکمرانوں کے محل مسلسل روشن ہیں ، ہوٹلیں ویسی ہی آباد ہیں ،مودی جی کے دورے بھی ختم نہیں ہورہے ہیں ۔صدرجمہوری بھی خاموشی کی چادرتان کرخراٹے لے رہے ہیں اور میڈیا والے تو گویا اپنا اپنا کیمرہ آف کرکے ٹور پر نکل گئے ہوں ۔درحقیقت ہم اتنے زیادہ بے حس اور بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ ملک میں چاہے سمندر شرارے ہی کیوں نہ ابلے،آسمان آگ ہی کیوں نہ برسائے اور پہاڑ پھٹ ہی کیوں نہ پڑے ،مگر ہمارے دل کی دھڑکنیں کبھی تیز نہیں ہوں گی،ہماری جبینوں پرکبھی شلوٹیں نہیں پڑیں گی۔ہائے رے ہماری غیرت! افسوس تم پر۔

  یہ بھگوائی درحقیقت برہمنواد کی پیداکردہ ناجائزہ اولاد ہیں اور مودی ،یوگی اس طلسماتی دنیا کے ناخدا اور ٹٹو ہیں ۔ان کی عیاری ومکاری پوری دنیا پر واضح ہوچکی ہے،مگرافسوس کہ اکیسویں صدی کی اس تعلیمی ترقی کے دور میں بھی ہم ان کی عیاری ومکاری سے بالکل ناآشنا ہیں ؛1945میں جب امریکہ نے ہیروشیماناگاساکی پرپرمانو بم گرایا تھا، تو اس کی رد میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم Neville Chamberlain نے ایک تاریخ جملہ کہا تھا کہ’ اگر امریکہ کو جاپان کو تباہ وبرباد ہی کرنا تھا، تو پرمانو بم کی کیاضرورت تھی،ہندوستان سے دوبرہمن لاکر وہاں بسادیتے ان کا مقصد حل ہوجاتا‘۔آج ہمارا ملک جن حالات سے دوچار ہے وہ درحقیقت برہمنوں کی سلگائی گئی آگ کا شاخسانہ ہے ۔

ان کا دو سب سے بڑا ہتھیار ہے جن کو استعمال کر کے اس نے آج تک ہندوستانیوں کو بے وقوف بنایا ہے؛’سراپ اور بردان‘:اگر کچھ برا ہوا،تو یہ فلاں بھگوان کا سراپ ہے اوراگر اچھا ہوا تو یہ فلاں دیوی کابردان ہے اور یہ ہماری ستم ظریفی ہی کہیے کہ دلت اور آدی واسیوں کا  99 طبقہ آج بھی اسی بدعقیدگی کی بھول بھولیوں میں سرگرداں ہیں ۔ اگر پورے ملک کی آبادی میں ان برہمنوں کی شراکت کا اندازہ لگائیں ، تو شاید آنٹے میں نمک کے برابر ،یعنی صرف پانچ فیصدہے ،جبکہ مسلم ، او بی سی،تخسوچت ذات اور جنجاتی ملاکر تقریباً نوے فیصد کی شراکت ہے،مگر اس کے باوجود بھی ہم انہیں کے رحم وکرم پرجی رہے ہیں ۔ یہ ہماری حماقت ہی ہے کہ ہم کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیشہ سے مقہورومظلوم رہے ہیں۔

 حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ دلت اور آدی واسی ہی اس ملک کے اصل باشندے ہیں اور برہمن تو بعد میں آکر یہاں آباد ہوئے تھے ،جیسا کہ سانپ چوہے کے بلوں کی تلاش میں رہتا ہے اور پھر ان کے بچوں کو مار کر ان کے بل پر قبضہ کرلیتا ہے، برہمنوں نے بھی اس ملک کے اصل باشندوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیاہے۔ان کو مارِ آستین ہی کہیے ،جو ڈستا تو ہے ،مگر پتہ نہیں چلتا کہ کس نے ڈسااور یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ دلت اور آدی واسی جن کی ملک کی آبادی میں نصف سے زیادہ کی شراکت ہے ،وہ ایکسویں صدی کے اس گلوب لائزیشن کے دور میں بھی برہمنوں کے خودساختہ بھگوان کے پرکوپ سے اس قدر خائف کیوں ہیں ؟اسی احساسِ کمتریں نے تو ان کے اندر سے اپنے انسان ہونے کا احساس بھی چھین لیاہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں نے اخوت وبھائی چارگی اور عدل ومساوات کا پرچم بلند کیا ،تو انہیں اس کی رودشنی میں اپنے انسان ہونے کی جھلک نظر آئی اور انہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی دنیا وآخرت کو سنوارنا چاہا ،توان برہمنوں نے ان کا یہاں تک پیچھا کیایہی وجہ ہے کہ آج یہ دونوں قومیں ہندوستانی جمہوریت کی سب سے مقہور مظلوم قوم بن چکی ہیں ؛ ان کا جب دل چاہا مسلمانوں کا دروازہ کھٹکھٹادیا اور جب چاہا دلتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے صرف تماشہ دیکھتے رہے !ادھر ہماری بستیاں ویران ہوگئیں ،بچے یتیم ہوگئے اور عورتیں بے آبرو کردی گئیں ،مگر دلتوں کی طرح ہم نے بھی ان کے اس خودساختہ بھگوان کی جانچ پڑتال کی کوشش نہیں کی، جس کے پرکوپ کے خوف سے ملک کا ہندوآدی واسی اور دلت طبقہ ڈرا اور سہمہ ہوا ہے،لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی اگربرہمن ان کے سرپر ہاتھ رکھ دیں ،تو وہ آنکھ بند کرکے ان کے پیچھے ہولیں گے ۔اس انجام سے پرے کہ وہ اپنا مستقبل روشن کرنے جارہے ہیں ، یا پھر کوئی ان کے احساسات وجذبات کے ساتھ کھیلواڑ کرنا چاہتا ہے ۔یاوہ کون ہے جو ان کی زندگی کو اندھیاروں کی طرف دھکیل رہا ہے۔وہ کون ہے جو ان سے ان کے انسان ہونے کا حق چھینتا ہے اوروہ کون ہے جو ان کے نخلِ تمناپر برقِ بے اماں بن کر ٹوٹتا ہے اور پل بھر میں ان کی بستیوں کو ویرانہ چھوڑدیتا ہے!

 یہ چند لوگوں کے دھرنے ،جنتر منتر پر جے بھیم کے نعروں سے کیا کچھ بات بن سکتی ہے ؟نہیں ،بلکہ پورے ملک میں اتحادواتفاق کی فضاقائم کرنی ہوگی ،دلتوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کر یوگی اور مودی مکت بھارت نہیں ،بلکہ بھگوامکت بھارت کا خواب دل میں سجانا ہوگا، برہمنی چال کو سمجھناہوگااورپھر اس کے خلاف ایک متحدہ لائحۂ عمل تیار کرناہوگا۔تبھی جاکر ہمارایہ ترنگا افق پر لہرائے گا اور بھگوائی جھنڈا سرنگوہوگا۔ملک میں عدل ومساوات کا بول بالا ہوگا اور ہر ایک کو اس کا حق ملے گا ورنہ ذلت ورسوائی کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور پھر سہارنپور اور امیٹھی ہی نہیں پورا ملک اس سے بھی بدترین تصویر پیش کرے گا اور تاریخ نویس ہماری کمزوری و مجبوری نہیں ، بلکہ ہماری بزدلی کی داستان لکھے گا!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔