کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلادے

حفیظ نعمانی

یہ خبر ہم نے نہ کسی اخبار میں پڑھی تھی نہ ٹی وی کے کسی چینل پر سنی لیکن شکیل شمسی صاحب نے اپنے کالم ’موضوعِ گفتگو‘ میں اسے نقل کیا ہے تو اس میں شک کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے کہ ایٹہ کے گائوں نظام پور کے رہنے والے ایک دلت لڑکے نے اپنی بارات میں گھوڑے پر بیٹھ کر جانے کی پولیس سے اجازت چاہی تو اس نے کسی بھی مدد سے انکار کردیا پھر وہ ہائی کورٹ میں فریاد لے کر گیا اور اس نے مدد مانگی تو ہائی کورٹ کے جج صاحب نے امن و امان کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے ماتحت عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا اور ملک کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان کی اتنی معمولی سی خواہش پوری نہ ہوسکی کہ وہ گھوڑے پر بیٹھ کر سسرال جائے۔ لعنت ہو ان سب پر جو اس نوجوان کی خوشی کے آڑے آئے اور لعنت ہے اس سماج پر جو اپنے ہی بیٹے جیسے نوجوان کی اتنی معمولی حسرت بھی پوری نہ ہونے دے۔

گجرات میں پردیپ راٹھور کی خبر تو ہر ذریعہ سے سنی اور پڑھی کہ اس نے ایک گھوڑا خرید لیا تھا اور اسے دھمکی ملنے لگی تھی کہ تم گھوڑے پر نہیں بیٹھوگے اور اس کے باپ نے کہا بھی تھا لیکن اس نوجوان پردیپ کی جو امت شاہ کے بیٹے کی عمر کا تھا سمجھ میں کیوں آتا کہ وہ اس ذلیل سماج کی دھمکیوں سے ڈر کر گھوڑا بیچ دیتا۔ اور وزیراعظم کے ان چہیتوں نے جنہیں انہوں نے رات دن پسینہ بہاکر اور جگہ جگہ جھوٹ بول کر حکو مت دلائی تھی انہوں نے آخرکار ایک نوجوان کی جان لے لی۔

کاش وزیراعظم ایسے ہوتے کہ جب تک اس خون ناحق کا انتقام نہ دلادیتے انہیں نیند نہ آتی لیکن وہ تو اس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کے نوٹ بندی کے فیصلہ کے نتیجہ میں جن بیچاروں نے بینک کی لائن میں کھڑے کھڑے جان دے دی ان کے غم میں بھی ان کی آنکھ میں آنسو نہ آیا جبکہ وہ ان سب کے قاتل ہیں اور سب کی طرف سے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ چلنا چاہئے تھا۔

بات صرف گھوڑے کی ہونا چاہئے کہ یہ پابندی کس نے لگائی ہے کہ دلت ذات کے لڑکے گھوڑے پر بیٹھ کر سسرال نہیں جاسکتے؟ گھوڑا ایک جانور ہے اور بعض بیل اتنے خوبصورت اور قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں گھوڑا شرما جائے۔ اور گھوڑا ہمارے بچپن میں وہ سواری تھی جو زمیندار گھرانوں میں اتنے رہتے تھے جتنے آج کاروباری گھرانوں میں کاریں رہتی ہیں۔ اس وقت موٹر سائیکل صرف فوج کے لئے ہی تھی۔ ہمارے دادا نانا تایا ماموں سب کے اپنے اپنے کام تھے اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑے ہی گھوڑے بندھے ہیں اور یہ بھی دیکھا کہ ایک بھی نہیں ہے۔ یعنی سب کام سے گئے ہیں۔

اپنی پوری زندگی میں یہ نہیں سنا کہ گھوڑے کی سواری بھی کسی کے لئے منع ہے۔ ہم تو اس خاندان کی یادگار ہیں جن کے دادا نانا اپنے ملازموں کے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی اس انداز سے کرتے تھے جیسے اپنے بچوں کی۔ یہ فرق تو ضرور تھا زیور کپڑے اور دولھن کا سامان اتنا اور ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے تو ملازموں کے دامادوں کو عزت اور پیار دیتا ہوا دیکھا۔ آخر یہ ٹھاکر یا برہمن کیا ہیں جنہیں رات اپنے پروگرام پرائم ٹائم میں رویش کمار دکھا رہے تھے کہ گائوں کے 10  فیصدی دلتوں کو حکم دے دیا گیا ہے کہ بارات میں بھیڑ نہ ہو اور ہمارے مکانات سے 80  میٹر دور سے بارات گذر جائے۔ اور روش کمار نے لڑکے اور لڑکی کو بھی دکھایا جو صورت سے بڑے گھر کے تعلیم یافتہ بچے لگ رہے تھے۔

ایک بات ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر فیضان مصطفی صاحب بار بار بتا چکے ہیں کہ ملک میں 565  گائوں ایسے ہیں جہاں کے دلتوں کو نیا کپڑا پہننا کسی سواری پر بیٹھنا دھوم دھام سے شادی کرنا اور تہوار منانے کی اجازت نہیں ہے۔

جب یہ بات ہر دلت کے لئے ہے تو پھر جب بابو جگ جیون رام وزیر تھے یا کانگریس کے صدر تھے یا دوسرے دلت وزیر یا گورنر ہوئے۔ یا مایاوتی وزیراعلیٰ بنیں تو اونچی ذات والوں نے کیوں ان کے پائوں چھوئے؟ یہ بات تو 2007 ء میں سب نے دیکھی تھی کہ جب مایاوتی نے اپنے بل پر اُترپردیش کی حکومت بنائی تو وہ خود حلف لینے کے بعد ڈائس پر ایک کنارے پر اس طرح بیٹھیں کہ ان کا ایک پائوں جس میں چپل نہیں تھی دوسری ٹانگ کے گھٹنے پر رکھا تھا اور جو کوئی حلف لینے جاتا تھا وہ ان کے پائوں کو چھوکر حلف لینے جاتا تھا۔ اور یہ بھی سب نے دیکھا ہے کہ مایاوتی کی سالگرہ پر کیک کا ایک ٹکڑا لال جی ٹنڈن نے مایاوتی کے منھ میں رکھا۔

ان سب باتوں کے بعد گھوڑے پر بیٹھنے کی سزا موت یا گھوڑے پر دولھا بن کر جانے کی اجازت دیتے وقت ہائی کورٹ کے جج کا قلم بھی کانپ جائے کیسے سمجھ میں آسکتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محترم جج سے کہا جاتا کہ وہ استعفیٰ دے کر کسی مندر میں جاکر بیٹھ جائیں۔ حیرت ہے کہ پولیس والے نیتائوں سے ڈریں اور نیتا ووٹ کی وجہ سے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا دیں لیکن ہائی کورٹ کے جج کو تو ایس ایس پی کو حکم دینا چاہئے تھا کہ پولیس کی حفاظت میں بارات نکلوائے اور جو رُکاوٹ کھڑی کرے اسے جیل کا راستہ دکھائے۔

اسی الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس حیدر عباس رضا بھی رہے ہیں۔ بیگم حضرت محل پارک میں ایک زمانہ میں جشن لکھنؤ  اور دسہرہ کا پورا پروگرام ہوا کرتا تھا پارک میں ہی بڑے جلسے بھی ہوتے تھے۔ جج صاحب نے حکم دیا کہ اب پارک میں کچھ نہیں ہوگا وہ صرف پارک رہے گا اور پارک بنانے کا جو مقصد ہے وہ پورا کیا جائے گا۔ جب ان سے کہا گیا کہ ہندو دھرم کا معاملہ ہے راون برسوں سے یہیں جلایا جاتا ہے سب ہندو ناراض ہوجائیں گے۔ لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا اور کہا کہ رام لیلا کسی بڑے میدان میں لگائی جائے گی۔ اور آج ان کی ہی بدولت وہ پارک شہر کا سب سے پسندیدہ پارک ہے جہاں ہر کونہ سے لوگ آتے ہیں۔ کاش یہ درخواست ان کے سامنے آئی ہوتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔