گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

کامران غنی صباؔ

(ایک سچا واقعہ)

دھوتی اور کرتا میں ملبوس ادھیڑ عمر شخص دونوں ہاتھ جوڑے اس طرح کھڑا تھا گویا سامنے اس کا کوئی بارعب مالک کھڑا ہو۔ حالانکہ سامنے کھڑا شخص نہ کوئی آفیسر تھا اور نا ہی کوئی سیاسی رہنما۔ وہ کوئی غنڈہ یا دبنگ بھی نہیں تھا کہ جس کا خوف سامنے والے کو ہاتھ جوڑنے پر مجبور کردے۔۔۔ وہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھا اور میں اس شخص سے خوب اچھی طرح واقف تھا اس لیے میرا تجسس بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ آخر ان دونوں میں کون سا رشتہ ہے۔

تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد دھوتی کرتا میں ملبوس شخص عقیدت سے آداب سلام کر کے اپنی راہ چل دیا۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ بغیر کسی تاخیر کے میں نے اپنا تجسس ظاہر کر دیا۔۔۔۔’’کون تھا یہ شخص، اور آپ سے اس کی اتنی عقیدت کی وجہ۔۔۔۔؟‘‘

’’یہ ہمارے علاقے کا ڈاکیہ ہے جو پچھلے مہینے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوا ہے۔‘‘

میرا تجسس ابھی برقرار تھا۔

’’ڈاکیہ کو آپ سے اتنی عقیدت کیسے ہو گئی۔۔۔۔؟ ‘‘

’’۔۔۔۔۔ یہ بہت زمانے سے ہمارے یہاں ڈاک پہنچا تا آ رہا تھا۔ میں کبھی کبھی اسے اپنے یہاں بیٹھا لیتا۔گرمیوں کے زمانے میں پانی یا شربت پلا دیتا یا کبھی کھانا کھلا دیتا۔ڈاک پیون کو بھلا کون پوچھتا ہے۔ شاید اسی لیے میرے چھوٹے سے عمل اور معمولی سے اخلاق سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ جب بھی ملتا ہے اسی عقیدت سے ملتا ہے۔

ٔ٭٭٭

          یہ واقعہ کچھ روز قبل کا ہے۔ میں حاجی پور میں تھا۔ ایک پروگرام میں شرکت کرنی تھی۔ مجھے پہنچنے میں تاخیر نہ ہو اس لیے جناب انوار الحسن وسطوی (جنرل سکریٹری کاروان ادب حاجی پور) نے مجھے ناشتے پر اپنے یہاں مدعو کر لیا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم لوگ ضلع اردو زبان سیل (حاجی پور)کے دفتر جا رہے تھے جہاں پروگرام ہونا تھا۔۔۔۔۔ اوپر کی کہانی اسی درمیان کی ہے۔ ریٹائرڈ ٹیچر کوئی اور نہیں انوار الحسن وسطوی صاحب ہی تھے۔

٭٭٭

انوار الحسن وسطوی صاحب کوئی ولی اللہ نہیں ہیں۔ انہیں ہم داعی بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ کسی مدرسے کے فارغ عالم دین بھی نہیں ہیں لیکن اُن کی شخصیت میں کچھ ایسا جادو ضرور ہے جو ہر ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تقریباً دو برس قبل انوار صاحب سے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ ہر ہفتے حاجی پور سے ہوتے ہوئے پٹنہ جاتے ہیں، کبھی میرے غریب خانے کے لیے بھی وقت نکال لیجیے۔ میں نے اُن سے وعدہ کر لیا کہ ’’کسی جمعرات‘‘ کو حاضر ہو جاؤں گا۔ میری نااہلی کہیے کہ کئی جمعرات آ کر چلا گیا اور میں اپنا وعدہ وفا نہ کر سکا تو ایک روز انوار صاحب خود ہی میرے گاؤں (جہاں میری ملازمت ہے) چلے آئے۔ یقین جانیے کہ مجھے خوشی سے زیادہ شرمندگی ہوئی۔ انوار صاحب اپنے ساتھ خط لائے تھے جو میرے نام سے تھا اور تین مہینہ پہلے کا لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ میرے انتظار میں تین مہینے سے اس خط کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہ خط چونکہ بہت ہی ذاتی نوعیت کا ہے اس لیے کسی کے ذریعہ یا ڈاک سے بھیجنا انہیں مناسب نہیں لگا۔

انوار الحسن وسطوی صاحب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ خودستائی سے بہت دور بھاگتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے وابستہ واقعات بھی ویسے ہی سناتے ہیں جن میں کچھ سبق ہو۔ ان کی ذات میں ’’مَیں‘‘ کا عنصر نہ کے برابر ہے۔ کل ڈاک پیون کی عقیدت دیکھ کر میں بہت متحیر ہوا۔ غیر مسلموں کے اندر مسلمانوں کے تئیں ایسی عقیدت اب تاریخ کے اوراق میں مدفون ہے۔ بات نکلی تو انوارالحسن وسطوی صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا۔ کئی برس قبل انہوں نے کسی ہندو کشواہا کی دکان سے 200 گرام چائے پتی خریدی۔ دکاندار نے غلطی سے 200 کی جگہ 250 گرام چائے پتی دے دی۔ گھر آنے کے بعد چائے پتی جب ڈبے میں رکھی گئی تو محسوس ہوا کہ کچھ زیادہ ہے۔ کچھ روز بعد جب وہ دوبارا اسی دکان پر گئے تو دکاندار سے پچھلی غلطی کا ذکر کرتے ہوئے اس سے 50 گرام چائے پتی کا پیسہ کاٹ لینے کو کہا۔ اتنا سنتے ہی دکاندار دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ’’آپ تو بھگوان ہیں‘‘۔۔۔۔۔ آپ جیسے لوگ اب ہماری پرتھوی پر نہیں کے برابر ہیں۔

یقینا انوار صاحب جیسے لوگ اب ہماری زمین پر بہت کم ہیں۔ ہم تحریر و تقریر سے زمانے میں انقلاب لانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ذرا غور سے سوچیے کہ کیا ہم اپنے افعال و کردار سے اپنے گرد و اطراف کے لوگوں بالخصوص غیر مسلموں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماںنے ہم کو دے مارا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔