سفیر صدیقی
کون کہتا ہے کہ دنیا میں فقط یاس ہے یار
میں نہیں مانتا یہ بات، یہ بکواس ہے یار
…
ساتھ مل بیٹھیں اگر ہم تو غضب ہو جائے
عشق تم رکھتے ہو، اور درد مرے پاس ہے یار
…
ہجر تو آئے دنوں جھیلتا رہتا ہوں میں
مسئلہ ہجر نہیں، ہجر کا احساس ہے یار
…
پھوٹ پڑتا ہے مری آنکھوں سے قطرہ قطرہ
میری تقدیر میں جو چشمۂ افلاس ہے یار
…
آج کی رات بہت کام ہے آنکھوں کو مری
آج کچھ ٹوٹے ہوئے خوابوں کا اجلاس ہے یار
…
کیا خموشی کو نہیں آتا ہے اظہار کا فن
کیا فقط لفظ ہی جذبات کا عکّاس ہے یار!
…
کیا ضرورت ہے کسی اور سہارے کی سفیر!
جب ترے پاس قلم و صفحۂ قرطاس ہے یار
تبصرے بند ہیں۔