کون کہتا ہے کہ دنیا میں فقط یاس ہے یار

سفیر صدیقی

کون کہتا ہے کہ دنیا میں فقط یاس ہے یار

میں نہیں مانتا یہ بات، یہ بکواس ہے یار

ساتھ مل بیٹھیں اگر ہم تو غضب ہو جائے

عشق تم رکھتے ہو، اور درد مرے پاس ہے یار

ہجر تو آئے دنوں جھیلتا رہتا ہوں میں

مسئلہ ہجر نہیں، ہجر کا احساس ہے یار

پھوٹ پڑتا ہے مری آنکھوں سے قطرہ قطرہ

میری تقدیر میں جو چشمۂ افلاس ہے یار

آج کی رات بہت کام ہے آنکھوں کو مری

آج کچھ ٹوٹے ہوئے خوابوں کا اجلاس ہے یار

کیا خموشی کو نہیں آتا ہے اظہار کا فن

کیا فقط لفظ ہی جذبات کا عکّاس ہے یار!

کیا ضرورت ہے کسی اور سہارے کی سفیر!

جب ترے پاس قلم و صفحۂ قرطاس ہے یار

تبصرے بند ہیں۔