کون ہے ساہوکار؟

مدثراحمد

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اکثر خدمت خلق کے تعلق سے لکھتے ہیں جب کہ حقوق اللہ کے تعلق سے بھی لکھنا چاہئے۔ جہاں تک حقوق اللہ کا سوال ہے وہ اللہ اور بند ے کے درمیان کا معاملہ ہے جبکہ حقوق العباد اللہ کے بندوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ آج مسلمانوں کے پاس حقوق اللہ کے تعلق سے تفصیلا ت کو لے کر جتنی کتابیں تصنیف شدہ ہیں اتنی کتابیں حقوق العباد کے تعلق سے نہیں ہیں۔ اس لئے ہماری کوشش ہے کہ حقوق العباد کے تعلق سے لکھتے ر ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے پاس ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر آئی، اس خاتون نے اپنا معاملہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ انکے بیٹے کے دونوں گردے ناکارہ ہوچکے ہیں اور اسکا علاج جاری ہے، ڈاکٹروں نے تجویز دی تھی کہ اگر کوئی میرے بیٹے کو گردہ دیتا ہے تو اسکی زندگی بچ سکتی ہے اور وہ اپنی زندگی اپنے مطابق گزار سکتاہے اس لئے میں نے خود اپنا ہی گردہ اپنے لخت جگر کو دینے کا فیصلہ کیاہے۔ مگر میری مالی استطاعت اتنی نہیں کہ میں آپریشن کرواکر میرا گردہ میرے بیٹے کو دے دوں اسی بات کو لے کر میں نے شہر کے کئی ساہوکاروں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہمیں کہیں سے بھی مدد نہیں ملی۔

عورت کی بات سننے کے بعد ہم نے اس معاملے کو اپنے اخبار کے ذریعے سے عام کیا جس پر کچھ خدمت خلق کرنے والی تنظیموں نے اپنی استطاعت کے مطابق اس عورت کو مدد کے لئے ہاتھ بڑھا ئے۔ قابل تعریف ہیں یہ تنظیمیں جنہوں نے ہمارے پیغام پر فوری رد عمل کرتے ہوئے اس عورت کی مدد کی۔ لیکن ہمارے آپ کے درمیان موجود وہ ساہوکار جن کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ہائی فائی ہے۔ جن کے بچے کو اگر معمولی بخار آجائے تو شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں۔ جو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے والے تعلیمی ادارے سے زیادہ سب سے زیادہ فیس لینے والے تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کا داخلہ کرواتے ہیں۔ اپنے بچوں کی شادیوں میں جھوٹی شانوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو گاؤں کے ساہوکر کہلوانا چاہتے ہیں اور جب کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت کو لے کر انکی دہلیز پر پہنچ جائے تو اس کے لئے اپنے دروازے بند کرلیتے ہیں۔ گھروں پر رہتے ہوئے بھی نہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ کیا یہ لوگ ساہوکا ر ہیں ؟

جس گھر کے سامنے چار چار قیمتی کاریں کھڑی ہوں۔ لوگوں کو دکھانے کے لئے رمضان کے مہینے میں قطار بنا کرلوگوں کوصدقہ خیرات کرتے ہوں، اپنی جھوٹی شان بڑھا نے کے لئے سالانہ اجتماعی شادیاں کرواتے ہوں کیا یہ لوگ ساہوکار ہیں۔ انفرادی طورپر پوچھنے والوں کو دھتکار کر بھیج دیتے ہیں یا پھر کوئی گھر تک نہ آئے اس کے لئے دہلیز پر ہی بڑے بڑے کتے پال باندھ دیتے ہیں کیا یہ ساہوکار ہیں ؟۔ ہرسال گلی کوچوں کے آوارہ لڑکوں کو بلاکر لاکھوں روپئے کے کرکٹ ٹورنمنٹ کا انعقاد کریں کیا یہ لوگ ساہوکا رہیں ؟۔ جو لوگ اپنے پاس استطاعت رکھنے کے باوجود غریب کو کچھ بھی نہ کہنے کی بات کہہ کر دھتکار دیتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ فرشتوں کو آمین کہنے میں تاخیر نہیں ہوتی اور غریب و مظلوم کی بددعا بیکار نہیں جاتی۔ اگرغریب نے دل سے بد دعا دے دی تو آن کی آن میں انکے پاس جو کچھ ہوگا وہ سارا مال اللہ اپنی قدرت سے واپس لے لیگا۔ عمر ہ پر عمرہ کریں، حج پر حج کرتے ہوئے الحاج کہلوائیں اور غریب اپنی بے بسی و پریشانیوں کی وجہ سے بے موت مارا جائے کیا ایسے الحاج ساہوکار ہیں ؟۔ ہم نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہم نے اپنا سارا مال رمضان میں خرچ کردیا کیا بھلائی کرنے کے لئے صرف رمضان ہی ہے ؟ کیا رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں حقوق العباد کرنا ممنوع ہے ؟ ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ آخر ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے ؟۔ کیا غریبوں کی مدد کرنا، مسکینوں کو کھانا کھلانا، یتیموں کا سہارا بننا، مقروض کا قرض ادا کرنا، بے گھر کو گھر دلانا، بیمار کی عیادت کرنا اور اسکے علاج کے لئے مدد کرنا اسلام میں نہیں ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے صرف پانچ فرائض مسلمانوں پر فرض کردئیے ہیں ؟ کیا اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کرنے کا حکم نہیں دیا ہے ؟ ان سب باتوں پر ہم مسلمان کیوں غور نہیں کرتے ؟۔ کیوں عمل نہیں کرتے ؟

 یقیناًاللہ جو مال دیتا ہے وہ بندے کا حق ہے لیکن اس حق کو بندوں میں بانٹنا بھی بندے کا حق ہے مگر افسوس صدافسوس مسلمانوں نے اسلام کو محدود بنا لیاہے۔ ہم نے داڑھی و مسواک کی سنت کو تو عام کرلیا لیکن مریض کی عیادت کرنا اور مریض کا علاج کرانے کی سنت کو فراموش کردیا۔ ہم نے ٹوپی رکھنے اور جھبہ پہننے کی سنت کو اپنا لیا لیکن یتیموں و مسکینوں کو انکے حق سے باز رکھا۔ ہم نے نماز پڑھنے اور روزے رکھنے کے فرائض پر عمل کرلیا لیکن جس قرآن نے ہمیں یہ حکم دیا ہے اسی قرآن کے مطابق حقوق العبا د پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایک طرف عام لوگ ان باتوں کو نظر انداز کررہے ہیں تو دوسری جانب ہمارے اہل علم حضرات بھی مسلمانوں کو اس سلسلے میں آگاہ کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ ہر مہینے کی مناسبت سے ہماری مسجدوں میں خطبے دئیے جاتے ہیں۔

 رمضان میں رمضان کی برکتوں کے تعلق سے، ذی الحجہ میں حج کے تعلق سے، مولود میں عیدمیلاد النبی ﷺ کے تعلق سے ہمارے یہاں جم کرخطبہ دیا جاتا ہے لیکن حقوق العباد کے ذریعے سے بندوں کے حقوق اور بندوں کی مدد کے بارے میں غور نہیں کیا جاتااور نہ ہی اس تعلق سے عام لوگوں میں بیداری لائی جاتی ہے۔ ہمارے درمیان جو بیت المال ہے و ہ صرف رمضان کے صدقہ و فطروں سے بھراجاتاہے اور ذی الحجہ میں چرم قربانی کے ذریعے سے۔ باقی 10؍ مہینوں میں بیت المال میں انکمنگ کچھ بھی نہیں صرف آؤٹ گوئنگ کا معاملہ پیش آتاہے۔ اگر ہمارے بیت المال مضبوط ہوجائیں تو یقیناًضرورتمند مسلمانوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ یوں ہی قوم ترستی تڑپتی مرجائیگی۔

2 تبصرے
  1. Shakeel Ahmed Khan کہتے ہیں

    Truth.

  2. Shakeel Ahmed Khan کہتے ہیں

    True

تبصرے بند ہیں۔