کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!

عبدالعزیز

 ایسے وقت میں جبکہ مسلمانوں کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی پورے ہندستان میں اور خاص طور سے جہاں جہاں ان کی ریاستی حکومتیں ہیں زمین تنگ کر رہی ہیں اور مسلمانوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے ایک مولانا اس سر زمین سے اٹھ کر جہاں دن کی روشنی میں دونوں جماعتوں نے پانچ سو سالہ مسجد یعنی اللہ کے گھر کو مسمار کردیا اور اسی زمین کے کاس گنج کے مسلمانوں کو آج بغیر کسی قصور کے سیکڑوں کی تعداد میں سلاخوں پیچھے کر دیا ہے اور پورا کاس گنج کو فتنہ و فسادکا گھر بنا دیا ہے فرما رہے ہیں کہ بابری مسجد مسمار کرنے والوں کو دے دیا جائے۔ مولانا کو اس وقت مولانا لکھنا بھی دشوار معلوم ہورہا ہے کیونکہ مولانا امت کے سواد اعظم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور جو کام کفر و شرک کو کرنا چاہئے مولانا بسم اللہ اور اللہ اکبر پڑھ کر انجام دے رہے ہیں۔

بابری مسجد کے بارے میں امت کے سب سے بڑے مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لاء بورڈ سے یہ قرار داد منظور کی گئی ہے کہ ’’ایک بار جہاں مسجد بن جاتی ہے عرش سے فرش تک مسجد رہتی ہے‘‘۔ دوسری قرار داد یہ بھی پاس کی گئی ہے کہ ’’سپریم کورٹ سے جو فیصلہ ہوگا وہ امت مسلمہ جبراً ہی سہی قبول کرے گی‘‘۔ اس وقت سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے، فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس سے پہلے شری شری روی شنکر اور کئی شنکر اچاریہ نے بھگوا پارٹی کے اشارے پر عدالت سے باہر اپنے ٹرم اور کنڈیشن پر تصفیہ پر زور دیا اور ہر بار بورڈ نے عدالت سے باہر فیصلہ کو نامنظور کیا۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے بھی خواہش ظاہر کی تھی لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ باہر فیصلہ نہیں ہوسکا، جب ہی عدالت سے رجوع کیا گیاتو آپ کیوں رجوع کرنے والوں کو باہر کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ بالآخر اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا کھرے نے آخر اس حقیقت کو مان لیا کہ اب فیصلہ سپریم کورٹ میں ہی ہوگا۔

 مولانا سلمان صاحب بھولے بھالے نہیں ہیں۔ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شری شری روی شنکر آر ایس ایس کے آدمی ہیں وہ کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرناٹک میں باقاعدہ بی جے پی بر سر اقتدار آئے اس کیلئے در پردہ کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت نے ان کو دہلی میں جمنا کے کنارے سرکاری محکمہ ماحولیات کی مخالفت کے باوجود سہ روزہ تقریبات منانے کی اجازت دے دی تھی اور مودی جی خود اس میں جلوہ افروز ہوئے تھے۔

  ایک واقعہ جو میں اچھی طرح سے لکھ سکتا ہوں اورکہہ سکتا ہوں۔ کلکتہ میں شری شری جی کے چیلے اور پیروکار ہیں۔ ایک خاتون جو مغربی بنگال میں ان کا کام انجام دیتی ہے اس نے ٹیلیفون پر مجھ سے کہاکہ روی شنکر جی ایسے کئی عالموں کو بنگلور کی ایک تقریب میں دعوت دینا چاہتے ہیں جو قرآن مجید میں تحریف اور ترمیم کے قائل ہیں ان کے نام کی ضرورت ہے۔ میں نے ا س خاتون سے کہاکہ ایسے میں کسی مولانا یا عالم کو نہیں جانتا ہوں اور شاید ایسے لوگ آپ کو مسلمانوں میں سے نہیں ملیں گے، مگر مولانا سلمان ندوی کا بیان سوشل میڈیا میں دیکھ کر اور سن کر اب یہ کہنا مشکل ہے جو میں نے اس خاتون سے کہا تھا، گویا مسلمانوں میں ایسے اب بہت سے لوگ ہیں جو ہر کام کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں مختار عباس نقوی کی دو تصویریں وائر ل کی گئی ہیں۔ ایک تصویر میں وہ شہر مکہ میں احرام باندھے نظر آرہے ہیں جبکہ دوسری تصویر میں ایک بت خانہ میں بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ آزادیِ ہند سے پہلے ایک بڑے لیڈر نے ایک بیان دیا تھا جو گاندھی کے رسالہ ’’ہریجن‘‘میں چھپا تھا کہ ’’میں نے جیل میں گیتا بھی پڑھا اور قرآن بھی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔

علامہ اقبالؒ نے اس بیان کو پڑھ کر ایک نظم برجستہ کہی تھی:

یہ آیۂ نو جیل سے نازل ہوئی مجھ پر

گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا

کیا خوب ہوئی آشتی شیخ و برہمن

اس جنگ میں آخر نہ یہ ہارا اور نہ وہ جیتا 

مندر سے تو بیزار تھا پہلے ہی سے ’’بدری‘‘

مسجد سے نکلتا نہیں ضدی ہے ’’مسیتا‘‘

 مسلمانوں کو بدری اور مسیتا سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دونوں حق و صداقت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ مولانا معاف فرمائیں۔ یہ کام تو فلمی سلمان بھی کہنے اور کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جو کام سلمان ندوی نے اپنے ذمہ روی شنکر جی کے کہنے سے لے لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کو صبر و ہمت عطا کرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔