کچھ نظر انداز تو کچھ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے!

محمد آصف اقبال

گزشتہ دنوں یہ خبر میڈیا کی سرخیوں میں رہی کہ راجیہ سبھا میں الوداعی تقریر کے دوران نائب صدر حامد انصاری نے بالواسطہ طور پر مزکز کو ہدف بناتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں اقلیتوں کا تحفظ ضروری ہے۔ اور اس سے ایک دن قبل بھی راجیہ سبھا ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے اس مسئلہ کو اٹھایا تھا۔ ان کے بیان سے ملک میں طوفان برپا ہوگیا۔ بی جے پی حلقوں نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے سیاست زدہ کہا اور دعویٰ کیا کہ مسٹر انصاری کسی پارٹی میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ برخلاف اس کے نو منتخب نائب صدر وینکیا نائیڈو نے کہا کہ ایسے بیانات کا مقصد صرف پبلسٹی حاصل کرنا ہے، ہندوستان میں اقلیتیں بالکل محفوظ ہیں۔ حامد انصاری نے یہ تبصرہ ایسے وقت میں کیا ہے جب کہ عدم برداشت اور مبینہ گئو رکشکوں کے ذریعہ قتل کے واقعات بڑے پیمانہ پر سامنے آئے ہیں۔

انٹرویو میں انصاری نے بھیڑ کی طرف سے لوگوں کو پیٹ پیٹ کر مارڈالنے کے واقعات، گھر واپسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھارتی اقدار کا بے حد کمزور ہو جانا، عام طور پر قانون نافذ کراپانے میں مختلف سطحوں پر افسران کی اہلیت کا کلچر متاثر ہونا اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات کسی شہری کی ہندوستانیت پر سوال اٹھایا جانا ہے۔ انصاری کی جانب سے اٹھائے گئے بیانات پرعوام کی جانب سے کچھ ملے جلے تاثرات سامنے آئے۔ کچھ لوگوں نے اس بیان کو وقت کی ضرورت کہا تو کچھ نے یہ بھی کہا کہ جاتے جاتے مسلمان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟آخر وقت ہی میں انصاری صاحب کو یہ مسائل کیوں نظرآئے؟

لیکن واقعہ یہ ہے کہ حامد انصاری نے اس سے قبل بھی عام شہریوں اور اقلیتوں کے مسائل پر بات کی ہے اورمیڈیا میں بحث کا موضوع بنایا ہے۔ خاص کر مسلم مجلس مشاورت کی پچاس سالہ تقریب بتاریخ31؍اگست2015 میں بھی اس طرح کے مسائل پر انہوں نے اپنی توجہ مرکوز کی تھی۔ اس کے باوجود یہ الگ بات ہے کہ ملت کے افراد اور دیگر ناواقف لوگ ان واقعات کو نظرانداز کریں۔ معاملہ یہ ہے کہ مسائل کے فوری حل کی ضرورت ہے نا کہ انہیں شعوری یا لاشعوری طور پردبانے، نظر انداز کرنے، اہمیت نہ دینے اور توجہ ہٹانے کی کوششیں کی جائیں۔ الوداعی تقریب کے موقع پر وزیر اعظم کی جانب سے کہے جانے والے الفاظ بھی اہم ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایوان کے چیئر مین کے طور پر مسٹر انصاری نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کی کوشش کی یہاں تک کہ اگر اس دوران کچھ موقعوں پر انہیں کچھ پریشانی محسوس ہوئی ہوگی، لیکن اب انہیں اس سے نجات مل جائے گی۔ وہیں آر ایس ایس کے سینئر عہدیدار اندریش کمار نے کہا کہ انصاری کو جو ملک محفوظ لگ رہا ہو، وہاں چلے جانا چاہیے۔

 ہفتہ کی اہم خبروں میں یہ خبر بھی اہم ہے جس میں پہلے شیعہ وقف بورڈ کی جانب سے بابری مسجدکے معاملے میں سپریم کورٹ میں داخل حلف نامہ کی گونج رہی تو وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر اور ممتاز شیعہ رہنما مولانا کلب صادق کے بیان نے مزید سنسنی پھیلادی کہ اگر بابری مسجد پر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہ ہو تو اسے دل سے قبول کرنا چاہیے اور اگر فیصلہ حق میں ہوتوبھی اس زمین کو خوشی خوشی ہندوئوں کو دے دینا چاہیے۔ کلب صادق کے اس بیان پر مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن کا کہنا ہے کہ مولانا نے سب کا دل جیت لیا انہوں نے کہا کہ بھگوان رام نہ ہندوئوں کے ہیں اور نہ مسلمانوں کے، بلکہ وہ ہندوستان کی روح ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر کلب صادق کے بیان نے معاملہ کو نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بعض ذرائع پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2019سے قبل اس پر فیصلہ آجائے گا۔

 وہیں سبرامنیم سوامی کو یقین ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا اور عام انتخابات سے پہلے رام مندر کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ تیسری طرف شیعہ وقت بورڈ کے حالیہ موقف پر ممبر پارلمنٹ اسد الدین اویسی نے رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ مسجد کا انتظام شیعہ، سنی، بریلوی، صوفی، دیوبندی، سلفی، بوہری کمیونٹی کی طرف سے کیا جاسکتا ہے لیکن وہ اس کے مالک نہیں ہیں۔ مسجد کا مالک اللہ ہے، مولانا نہیں۔ نیز مسجد ہمیشہ مسجد رہے گی اور سپریم کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے لہذا وہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہی اس کا فیصلہ بھی کرے گا۔

 ہفتہ کی دو اہم خبریں اور بھی ہیں جنہیں نظرا نداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ پہلی خبر مدارس میں ‘جن من گن ‘، قومی ترانہ گانے اور ویڈیوگرافی کا ہے۔ اس تعلق سے اترپردیش میں یوگی حکومت کی جانب سے ایک فرمان جاری کیا گیا اور کہا گیا کہ جو مدارس اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے ان پر نیشنل سیکورٹی ایکٹ(این آئی اے) کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ فرمان میں کہا گیا ہے کہ مدارس 15؍اگست کے دن قومی ترانہ گانے کا اہتمام کریں اور ثقافتی پروگراموں کی ویڈیو گرافی کرائیں، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ان مدارس کے خلاف سخت کارروائی ہوسکتی ہے۔ وہیں یوم آزادی پر قومی ترانہ گانے اور ویڈیو گرافی کے بعد یوگی حکومت نے دوسرا فرمان جاری کیا کہ ریاست کے تمام مدارس کو رجسٹریشن کرانا لازمی ہوگا۔ مدارس پر نظر رکھنے کے لیے علیحدہ ویب سائٹ پورٹل شروع کیا جائے گا۔ سرکاری گرانٹ پانے والے 560اور تسلیم شدہ 10ہزار سے زیادہ مدارس کو اپنی تمام معلومات دینا ضروری ہوگا۔ یوپی مدرسہ کونسل کا کہنا ہے کہ اس پورٹل کی مدد سے مدرسوں کی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور مدارس کا بندوست شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ وہیں دوسری خبر سیاسی بساط پر اتھل پتھل، افراتفری اور سماجی انجیئرنگ سے تعلق رکھتی ہے۔ گزشتہ دنوں بہار کے مہاگٹھ بندھن میں شگاف پڑا اور بکھرگیا۔ نیز نفرت کے فروغ کے خلاف اور اقلیتوں و مظلوم طبقات کے حقوق کے نعروں کے درمیان بننے والی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پھر وہی جنتا دل یونائٹیڈ کے نتیش کمار جو مودی سے ایک زمانے میں حددرجہ ناراض تھے اچانک خوش ہوگئے اور ہاتھ ملالیے۔

لیکن اِسی دوران جے ڈی یو کے چند اہم ترین ممبر ان پارلیمنٹ کی ناراضگی کا سامنے آنا اور پھر معمولی وقفہ کے ساتھ جمہوریت کے تحفظ کی بقاء اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو قائم رکھنے کے لئے دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا ایک بار پھر ایک ساتھ ‘ساجھا وراثت بچائو سمیلن’کے عنوان سے اکھٹا ہوناکچھ کم اہم نہیں ہے۔ اس موقع پر دل کی بھراس نکالتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران میں سے راہل گاندھی نے کہا :آر ایس ایس ملک کا آئین بدلنا چاہتی ہے۔ شرد یادونے کہا :ملک میں آستھا، مذہب، فرقہ اور لوجہاد کے نام پر تشدد کو ہوادی جا رہی ہے اوررنگارنگ ثقافتی وراثت خطرے میں ہے۔ غلام نبی آزادنے کہا :سوال ہندوستان کا نہیں، مشترکہ وراثت کو بچانے کا ہے، ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے، سیکولر ہندوسب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ فاروق عبداللہ نے کہا :ہندوستان کو بیرونی نہیں داخلی خطرے کا سامنا ہے۔ اور ڈی راجہ نے کہا کہ جمہوریت اور سیکولرازم ملک کی پہچان ہے اورسنگھ پریوار ملک کو ہندوراشٹر بنانا چاہتا ہے۔

اسی کے ساتھ ساستھ چند اہم خبروں میں بہار و مغربی بنگال اور اترپردیش کے علاقوں سمیت 9؍ریاستوں میں سیلاب کا قہر اور متاثرین کی بدترین صورتحال ہے، یوگی حکومت میں گورکھپور، اترپردیش میں کم سن بچوں کی اموات ہیں، تو وہیں مغربی بنگال کے بلدیاتی انتخابات میں ٹی ایم سی یعنی ممتا بنرجی کی آندھی کی طرح کامیابی اور اپوزیشن پارٹیوں کی کراری شکست ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان آبادی، رقبہ اور مسائل، ہرلحاظ سے بہت بڑا ملک ہے لہذا عوام کا مزاج بھی کچھ اسی طرح کا بن گیا ہے۔ یعنی ہر دن ایک نئے مسئلہ کے ساتھ دن کا آغاز ہوتا ہے اورشام ہوتے ہوتے دیگر مسائل لوگوں کے افکارو خیالات اور ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ مسائل جنہیں نظر کیا جانا ہی بہتر ہے تو کچھ ایسے بھی مسائل ہیں جن پرسنجیدگی سے غورو فکر اور حل کے لیے اجتماعی سطح پر لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔

موجودہ حالات میں مدارس کا مسئلہ اور ملک میں جاری ظلم و زیادتیاں اور خوف کا ماحول خصوصی توجہ کا طلب گار ہے وہیں ہر بات پر ملک چھوڑنے جیسے دھمکی بھرے جملے بھی ملک و سماج کو پراگندہ کرنے کا ذریعہ بنتے جا رہے ہیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔