سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں!

عالم نقوی

خدا غریق رحمت کرے، میر صاحب کا شعر ہے :

کیا چیتنے کا فائدہ جو شَیب میں چیتا

 سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں

 میر صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’ایسی سمجھ اور فہم کا کیا فائدہ جو بڑھاپے میں حاصل ہوئی،سونے کا سماں آیا (یعنی  جب عمر کی نقدی ختم ہوئی اور مرنے کا وقت آیا) تو میں بیدار ہوا !‘‘برطانوی دانشور مصنف ’چارلس گائی ایٹن‘ عرف حسن عبد ا لحکیم نے (پ:یکم جنوری 1921۔ وفات :26 فروری 2010 بعمر 89 سال) اپنی مشہور کتاب ’اسلام اور انسان کا نصیب (1994)‘میں لکھا ہے کہ ’’ہم بہت سے پریشان خوابوں میں مگن سو رہے ہیں ، لیکن۔ ۔ انسان کی قسمت کا فیصلہ اس کے انتخاب پر ہوتا ہے کہ وہ بیداری یا خواب میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے (نام نہاد دُنیَوی یا قومی) دھارے میں بہتا (رہتا) ہے یا اس کی مخالف سمت میں پیرتا ہے ؟ہم اور آپ اختیار اور انتخاب کے لیے تخلیق کیے ہوئے بندے یہاں کھڑے ہیں اور جب تک پردہ نہیں اُٹھتا، ہم نہیں جان پائیں گے کہ ہمارے ’انتخاب ‘ پر کیا کچھ منحصر ہے !( میر سامان وجود۔ ص۔ 144)

ہم۔ ۔ اور ’ہم‘ سے مراد یہاں  صرف ہم مسلمان یا صرف ہم  سبھی ہندستانی نہیں بلکہ دنیا کے  ہم تمام بندگانِ خدا  ہیں ۔ ۔ تو۔ ۔ ہم آج جن پیچیدہ اور سنگین مسائل سے دوچار ہیں ، اُن کا سبب، ایک طرف تو، بقولِ اقبال ’عذاب ِ دانش حاضر ‘ ہے تو دوسری طرف وہ ’غالب نظام ِ حاضر ‘  جو صرف چند فی صد بالا دست طاقت ور قارونوں ، فرعونوں  کے مفادات کا نگراں اور محافظ ہے، جسے انسانوں کی غالب اکثریت، عوام ا لناس کے فلاح و بہبود سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ بھارت سمیت دنیا بھر  میں آ ج  جو نسلی، مذہبی اور لسانی تعصب اور عدم رواداری  کی افرا تفری اور ظلم و تشدد کی فراوانی اور انصاف کی فقدانی  ہے  اس کے پس پشت بھی ان ہی  دونوں ’عذاب دانش اور نظام حاضر‘ کے عناصر  ِ تکوینی و ترکیبی  کار فرما ہیں !

گائی ایٹن جنہوں نے حسن عبد ا لحکیم کی حیثیت سے وفات پائی اپنی مذکورہ بالا کتاب (اسلام اینڈ دا ڈسٹنی آف مَین ) میں ، جس کا نہایت سلیس شُستہ اور بامحاورہ  اردو  ترجمہ ’’میر سامان ِوَجود۔ جہاں سرائے ہستی میں انسانی اختیار اور ذمہ داری ‘‘ کے نام سے محمد سہیل عمر اور نعمانہ عمر نے مل کے کیا ہے اور اقبال اکادمی پاکستان نے جسے 2007 میں زیور طبع سے آراستہ کیا ہے، لکھا ہے کہ ’’ہمیں جو کچھ کہنا ہے وہ معیاری انسان کے اُس تصور کے حوالے سے ہے جو اُس کے بارے میں ہمیشہ، ہر زمانے اور ہر ثقافت میں قائم رہا۔ ۔ سوا موجودہ مغربی تہذیب کے۔ اور وہ تصور تھا ’خلیفۃ ا للہ کا‘‘ (اِنِّی جا عل فی ا لا رض خلیفۃ )مترجمین نے بالکل درست لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب اپنے آپ کو جاننے اور اپنے مرتبہ وجود کو سمجھنے کی دعوت ہے (یہ) روایتی تصور انسان کو بیان کرتی ہے اور اس رزمیے پر مفصل روشنی ڈالتی ہے جو آج کی دنیا میں دین و دانش کی بنیاد پرزندگی کرنے والے افراد کو درپیش ہے اسلام  کے تصورِ انسان (خلیفۃ ا للہ فی لا رض ) کو، خود شناسی اور جہاں شناسی کے حوالے سے، آج کی دنیا میں کیسےمسائل اور خطرات کا سامنا ہے، یہی اس کتاب کا بنیادی موضوع ہے۔ ۔ جو قاری کو یاد دلاتی ہے کہ حالات کیسے ہی(دل خراش  اور خطرناک ) کیوں نہ ہوں ، کچھ بنیادی حقائق ایسے ہیں جنہیں بہر صورت نظر میں رکھنا لازم ہے کہ ہمارے فیصلوں اور اختیار کردہ راستوں کی ذمہ داری ہماری ہی طرف لَوٹتی ہے، دنیا کا دُھندَلکا چھَٹنے اور آخرت کا اُجالا پھیلنے کے بعد جواب دِہی کے لیے ہمیں فرداً  فرداً حاضر ہونا ہی ہوگا۔ دانش مند وہی ہیں جو اپنی فَردِ عمل   کا حساب ’فَردَا ‘ کے لیے اُٹھا نہ رکھیں ! دِن ڈَھل چکا ہے مگر اَبھی مہلت عمل باقی ہے ‘‘(میر سامان وجود۔ باب اول سے قبل کے ابتدائی صفحات)

’’اول تو ہم یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ ہماری جدید دنیا کا ڈھانچہ اس قدر دُنیوی ہے کہ اُس میں دین کی گنجائش موجود ہی نہیں ۔  موجودہ تصور انسان میں انسان کو ایک ایسا چالاک جانور سمجھا گیا ہے جو زمین کی دولت سمیٹنے کے لیے پیدا ہوا ہے خواہ اُس سے ذاتی لذَّت اندوزی مقصود ہو یا معاشرے کی خدمت۔ حتّیٰ کہ اِس کارِ عَبَث میں اُس کے شرارہ حیات کی چمک ختم ہو جاتی ہے اور وہ قبر کی تاریکی میں گم ہو جاتا ہے (یا مٹی میں مل جاتا ہے )۔ روایتی تصور کے مطابق انسان کا مقصد یہ ہے کہ ایک علامت بن کے رہے۔ ’النُّور ‘کی ایک علامت۔  نہ کہ ایک بے ثبات اور ناپائدار وَجود کی طرح۔ سورج کی شعاع کے راستے میں چند لمحوں کے لیے آنے والے خاکی ذرات میں سے ایک۔ اس طرح انسان کے منصب کی رفعت ایک طرف تو آسمان کو چھونے لگتی ہے اور دوسری طرف اُس کی وسعت، بعید ترین اُفق تک پھیل جاتی ہے۔ مگر انسان چونکہ ایک ادھوری مخلوق ہے۔ اسے کمال کی تلاش رہتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ تکمیل نبی کریم  ﷺ  کے اُسوہ حسنہ پر عمل کے بغیر ممکن ہی نہیں اور انہیں یہ بھی یاد رہتا ہے کہ بہ حیثیت مردو زن ہم سب کو ایک دن یقیناً مرنا ہے اور معاشرے، تہذیبیں اور دنیائیں بھی ہماری ہی طرح فانی ہیں ۔ کل من علیھا فان۔ و یبقیٰ وجہ ربک ذو ا لجلال وا لا کرام (سورہ رحمن آیت 27)

دوسرے مذاہب میں اس کے متبادلات موجود ہیں کسی بھی جگہ انسان کی صرف شخصی صلا حیتوں کو کافی نہیں سمجھا گیا ہے۔ ہر روایت میں اس ادھوری مخلوق کو، جس کے سامنے اگر کوئی قابل تقلید نمونہ نہ ہو۔ یعنی اپنے آقا سے محروم آدمی۔ تو اسے ایک آوارہ کتا سمجھا گیا ہے۔ ۔ ناول، ڈرامے (شاعری، ادب )اور فلم کی شکل میں ہم اپنے آپ کو جو آئینے دکھاتے رہتے ہیں اُس میں انسان کا یہی کردار جھلکتا ہے۔ ۔ ایک آوارہ کتے کا کردار۔ ۔ اور یہ کردار ایک دور اُفتادہ، روشنی سے محروم ویرانے میں ادا کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ہمارا موجودہ ماحول، اُس دُنیا سے، جس میں پچھلے زمانوں کے لوگ بستے تھے اتنا دور ہو چکا ہے کہ اس فاصلے کو ناپنے کے لیے ہمارے پاس کوئی پیمانہ تک نہیں رہا۔ ۔ جو نابینا ہو وہ تو پھر بھی دوسروں کی بتائی ہوئی دنیا پر یقین رکھتا ہے خواہ اس کا تخیل کر سکے یا نہ کر سکے مگر، یہ دل کے اندھے، یہ تو نظر کے وجود ہی سے منکر ہیں ! نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے  جو ہماری معلوم دنیا اور اس کے سِوا، اُس کے ماورا، عالَم یا عالَمین میں نسبت کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے قسم ہے اپنے  رب کی کہ یہ دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے، تم میں سے کوئی سمندر  میں اپنی ایک انگلی ڈبو کر نکالے اور اس پر جو پانی لگا ہو اس کا مقابلہ سمندر سے کیا جائے ‘‘۔ ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ورثے کو یاد کریں ، قدیم دانش پر توجہ دیں اور اوپر کی طرف اور اپنے اندر کی طرف دیکھیں ۔ جوابات ہمیشہ سامنے ہوتے ہیں ۔ ۔ (حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ من عرف نفسہ عرف ربہ۔ ۔ )جوابات تو ہمیشہ سامنے ہوتے ہیں ۔

زمانے کی دَست بُرد سے محفوظ، یاد ِ خدا کے پُرکھوں پرانے وسیلے میں ، ہم سے بالا تر، یہاں اور اس وقت ہماری ذات کی عمیق تہہ کے اندر موجود ہیں ۔ ہمیں صرف  صحیح سمت میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔  ہم اپنے اعمال و افعال کی ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتے جیسا کہ ہم اپنے ہاتھ پاؤں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ قرآن کہتا ہے اس روز زبانیں بند رہیں گی اور تمہارے ہاتھ پاؤں تمہارے خلاف گواہی دیں گے ’’ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے۔ اور ان کے پاؤں گواہی  دیں گے جو کچھ یہ لوگ (دنیا میں ) کیا کرتے تھے (سورہ یٰسین آیت 65) آج انسانی دنیا انحطاط پذیر ہے اور یہ انحطاط ناگزیر ہے۔ ہم لمحہ حاضر میں ہیں ۔ یہاں اس وقت اپنے آپ میں مجبور ہیں ۔ لیکن ہمیں اس کا اجر بھی ملے گا، ایسا اجر جو پہلے وقتوں کے کم زوال یافتہ انسان کو نہیں مل سکتا۔  ہادی بر حق ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم اس زمانے میں ہو کہ جہاں تم دینی احکامات میں سے دسویں حصے کی بھی خلاف ورزی کروگے تو تم پر عذاب ہوگا اور آگے ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب اُمت کا کوئی شخص اِن اَحکامات کا دَسواں حصہ بھی بجا لائے گا تو اُس کی بخشش ہو جائے گی ‘‘

’’جدید انسان کمزور ہے اور اس کا ماحول اسے کوئی روحانی سہارا مہیا کرنے کے بجائے اُلٹا اُسے بھٹکانے کا کام کرتا ہے وہ دینی اور مذہبی بُغض کے ماحول میں رہ رہا ہے۔ اس لیے داوَرِ حقیقی کا عدل اُس پر کرم کرتا ہے اور اسے ان بنیادوں پر نہیں پرکھتا جن پر ہمارے آبا و اجداد کو پرکھا جاتا تھا۔ لیکن، اس کرم ِ خاص کے باوجود ایک گناہ یا جرم ہمارا ایسا ہے جو ناقابل معافی ہے۔ اور وہ ہے اس کی رحمت کو قبول کرنے سے انکار !( اللہ سبحانہ تعالیٰ سے اس کے رحم و فضل و کرم کو نہ مانگنا ہی اس کا انکار ہے !) ہم ایک ڈوبتے ہوئے آدمی کی طرح ہیں جسے ایک  (نادیدہ )ہاتھ بچا نے کی کوشش کر رہا ہے اگر اس ہاتھ کو پہچاننے ہی سے انکار کردیں تو پھر ہمارے لیے کوئی امید باقی نہیں رہتی۔  جدید زندگی کی پیچیدگی محض سطحی ہے۔ مصنوعی ضرورتیں ، جعلی فرائض، ادنیٰ مقاصد، گھٹیا امنگیں اور انسانی سفر کے حقیقی زاد ِ راہ کے بدلے چمکدار مگر بے تسکین متبادل !اور خطرہ یہ ہے کہ جس قدر یہ دنیا بے صلہ ہوتی ہے اتنا ہی ہماری تسکین کی جستجو بھی بڑھتی ہے اور ہم عجلت اور ہنگامے میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔ مطلق ، کامل اکمل اور مکمل کے لیے ہماری فطرت میں جو تشنگی ہے اسے جزوی اور غیر ضروری اشیا کے حصول پر پوری قوت سے مرکوز کر دیا گیا ہے۔  اعداد میں بہتات کی تلاش (مال دنیا میں اضافے کی خواہش ) اور ڈھکوسلوں میں حقیقت کی جستجو  اسی انتشار کو جنم دیتی ہے جس میں آج ہم مبتلا ہیں ۔ اور اس کا آخری نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ! جدید آدمی کو اس قید سے نکلنے، اپنے مرکز (حقیقی ) سے رجوع کرنے اور آزادی سے اپنے ’’منصب ِخلافت ‘‘ کی ذمہ داری اُٹھانے کے لیے ’’دین ِفطرت ‘‘ کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

’’اسلام کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے اللہ اس کی طرف دس قدم آتا ہے۔  اس پہلے قدم کو اٹھانے کے لیے ایک معصوم بچے کی سی بے ساختگی اور ایک بالغ انسان کی سی فیصلے کی پختگی درکار ہے۔  ایک کے بعد دوسرا قدم اُٹھے گا تو ہم چلیں گے اور جب چلیں گے تبھی اپنی منزل تک پہنچیں گے ! ایک بودھ مصنف لکھتا ہے کہ ’’ جس طرح آگ کی فطرت میں جلنا ہے اُسی طرح انسان کی فطرت میں بیدار رہنا ہے ‘‘!(ایضاً  ص 1یک تا 144)

 مگر کیا ہم واقعی بیدار ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔