کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی!

نایاب حسن

وادیِ کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے بعد بی جے پی وپی ڈی پی کے درمیان قائم ہونے والا سیاسی اتحاد محض تین سال کے اندر بالآخردم توڑگیا، جب یہ اتحاد قائم ہوا تھا، تبھی ایسے اندیشے ظاہر کیے جارہے تھے کہ اس کی عمر بہت مختصر ہوگی اور دونوں پارٹیوں کے طریقۂ کار و طرزِ فکر میں بعد المشرقین ہونے کے باوجودمسلسل تین سال تک اتحاد کا برقراررہ جانا بھی بڑی بات ہے، البتہ اتحاد کے دوپہلووں پر غور کیا جانا ضروری ہے کہ یہ جب قائم ہوا تھا، تب اس کی وجہ کیا تھی اور جب یہ ختم ہوگیاہے، تواس کی وجہ کیاہے؟

خبریں ہیں کہ پہلے بی جے پی صدر امیت شاہ نے جموں وکشمیر حکومت میں بی جے پی کے وزراولیڈران کے ساتھ میٹنگ کی، ان سے تبادلۂ خیال کیااوراس کے بعد پی ڈی پی سے اتحاد توڑنے کا فیصلہ لیاگیاہے، دہلی میں پارٹی کے نائب صدروجنرل سکریٹری رام مادھواپنی پریس کانفرنس میں یہ کہتے نظر آئے کہ ہم نے پی ڈی پی کے ساتھ مل کر اس لیے حکومت بنائی تھی کہ عوامی مینڈیٹ ضائع نہ ہوجائے اور ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ مل کر وادی میں امن و امان کی بحالی کے لیے کوششیں کریں گے، مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا، اسی ہز ارکروڑروپے کا بجٹ وادی کی ترقیات کے لیے جاری کیاگیا، وزیر داخلہ اور دیگر سینئر وزراو لیڈران نے ریاست کے متعدد دورے کیے، صوبے میں قیامِ امن کے لیے مذاکرات کی بھی کوششیں کی گئیں، مگر صوبے کی حکومت نے اس سلسلے میں اُس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، جو اس سے مطلوب تھا، رام مادھوکے مطابق یہ فیصلہ حالیہ دنوں میں بگڑتے ہوئے حالات، سیزفائرکی مخالفت اور معروف صحافی شجاعت بخاری وفوجی جوان اورنگزیب کے دن دہاڑے قتل جیسے واقعات کی وجہ سے بھی کیاگیا ہے، ان کاکہنایہ بھی تھا کہ پی ڈی پی جموں اور لداخ کے علاقوں کے ساتھ ناانصافی کررہی تھی اور ان علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیاگیا۔

ویسے تجزیہ کاروں کامانناہے کہ اس اتحادکے ٹوٹنے کے آثارتوپہلے سے ہی نظر آرہے تھے اور اس کی پیش رفت خود پی ڈی پی نے کردی تھی، The Economic Timesنے مارچ میں رونما ہونے والے ایک واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیانcontact person کا رول اداکرنے والے ریاست کے وزیر خزانہ حسیب درابونے ایک موقعے پر کشمیر کے مسئلے کوایک ’’سوشل ایشو‘‘قراردے دیاتھا، جس کی وجہ سے انھیں اپنی منسٹری گنوانی پڑی تھی، پی ڈی پی نے اپنے اس اقدام سے ہی واضح کردیاتھاکہ بی جے پی اور پی ڈی پی میں جو نظریاتی بعدہے، وہ ختم نہیں ہونے والا اور ساتھ مل کر حکومت بنانامحض ایک سیاسی ضرورت یا’’سیاسی مفادپرستی‘‘ہے۔

اسی طرح کٹھوااجتماعی عصمت دری کے بعد بھی وادی میں بی جے پی بیک فٹ پر آگئی تھی؛کیوں کہ ایک طرف زانیوں کی حمایت کرنے والے اسی کے نظریے کے لوگ تھے، جبکہ دوسری طرف اسے بطورحکمراں پارٹی کے اپنے آپ کو مظلوموں کے ساتھ بھی کھڑاکرنا تھا، نائب وزیر اعلیٰ (جو بی جے پی سے تھے)اپنی اس پوزیشن کو اچھی طرح نبھانہ سکے اور بالآخرانھیں عہدے سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ محبوبہ مفتی نے بھی اب تک بڑاسمپل ری ایکشن دیاہے، اس سے بھی ایسا لگتاہے کہ انھیں اس اتحاد کے ٹوٹنے سے کوئی ’’شاک‘‘نہیں لگاہے، جیسا کہ میڈیالوگوں کو باورکرانا چاہ رہاہے، ان کاکہناہے کہ ہم نے ریاست کے بھلے کے لیے ہی بی جے پی کے ساتھ مل کرحکومت بنائی تھی، البتہ رشتہ ٹوٹنے کی کوئی وجہ انھوں نے نہیں بتائی، ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیاہے کہ وہ کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کانہیں سوچ رہی ہیں۔

دوسری طرف کانگریس اور نیشنل کانفرنس بغلیں بجارہی ہیں، عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد نے واضح طورپر کسی سے بھی اتحاد کے امکان کو مسترد کیاہے اور ساتھ ہی پی ڈی پی و بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے تین سال کے دوران ریاست کو بے پناہ اقتصادی و سماجی نقصان پہنچانے کے بعد اسے ایک سخت صورتِ حال میں مبتلاکردیاہے، دیگر سیاسی رہنمابھی بڑی پھرتی سے اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ ویسے حقیقت میں اسے دونوں پارٹیوں (خاص کر بی جے پی) کی ابن الوقتی کہنا چاہیے کہ تختِ حکومت پر قابض ہونے کے لیے نظریاتی بعدکے باوجود اتحاد قائم کرلیا، پھرجیسے تیسے گھسٹتی رہیں، اس دوران نہ تو وادی کے حالات میں کوئی بہتری آئی، نہ وہاں کی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ نیاکیاگیا؛بلکہ حالات بد سے بدتر ہی ہوتے رہے۔

اب جب اگلا عام الیکشن ہونے میں سال بھر سے بھی کم وقت رہ گیاہے، توملک کے عوام کواُلوبنانے کے لیے بی جے پی کی طرف سے بڑی سیاسی چال چلنے کی کوشش کی گئی ہے، چوں کہ اس ملک کا غالب حصہ کشمیر کو آرایس ایس کے چشمے سے دیکھتاہے، جو بی جے پی کاسرپرست ہے، جس کی نگاہ میں ہر کشمیری آتنک وادی ہے اور اس میں نہ کسی فرد کی تفریق ہے، نہ جماعت کی؛لہذا موٹابھائی نے ملک بھر کے بھکتوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دیکھو!ہم آتنک وادیوں کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس کے لیے حکومت بھی قربان کرسکتے ہیں، رام مادھویا بی جے پی اس اتحاد کو ختم کرنے کی وجہ جوبھی بیان کریں، اصل وجہ یہی ہے۔

گھاٹے میں یقیناً پی ڈی پی رہی، کہ اسے موقع پرستی اور نظریات سے پیچھے ہٹنے کاالز ام بھی سہنا پڑا اور اب بی جے پی نے اسے ایسے موڑپر لاکرپٹخنی دی ہے کہ اس کے لیے نہ جاے ماندن، نہ پاے رفتن کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اب گیند گونراین این ووہراکے پالے میں ہے، ان کی مدتِ کارکی اگلی امرناتھ یاتراتک توسیع پہلے ہی کی جاچکی ہے، دیکھناہے کہ گورنرراج نافذہونے کے بعد کب تک قائم رہتاہے، عمرعبداللہ نے توگورنرسے اپیل کردی ہے کہ چوں کہ عوام کو حکومت کے انتخاب کاحق حاصل ہے؛لہذاگورنرراج کولمبا کھینچنے کی بجاے فوراً انتخابات کرادیے جائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔