کل عجب ایک سانحہ گزرا
احمد کمال حشمی
کل عجب ایک سانحہ گزرا
میری آنکھوں سے خواب سا گزرا
…
دل میں گرد و غبار اڑنے لگے
تیری یادوں کا قافلہ گزرا
…
منزلوں کا پتہ بتائے بغیر
میرے آگے سے راستا گزرا
…
پتھروں کی بہار آئی ھے
شہر سے پھر وہ سرپھرا گزرا
…
آندھیوں کی ہنسی اڑاتے ہوئے
ایک جلتا ہوا دیا گزرا
…
زندگی کی غزل ادھوری رہی
جب ردیف آئی، قافیہ گزرا
…
عقل سے دل نے مشورہ نہ کیا
ایک سے ایک مسئلہ گزرا
…
میں ذرا سب سے مختلف تھا کماؔل
مجھ کو سمجھا گیا، گیا گزرا
تبصرے بند ہیں۔