کل عجب ایک سانحہ گزرا

احمد کمال حشمی

کل عجب ایک سانحہ گزرا

میری آنکھوں سے خواب سا گزرا

دل میں گرد و غبار اڑنے لگے

تیری یادوں کا قافلہ گزرا

منزلوں کا پتہ بتائے بغیر

میرے آگے سے راستا گزرا

پتھروں کی بہار آئی ھے

شہر سے پھر وہ سرپھرا گزرا

آندھیوں کی ہنسی اڑاتے ہوئے

ایک جلتا ہوا دیا گزرا

زندگی کی غزل ادھوری رہی

جب ردیف آئی،  قافیہ گزرا

عقل سے دل نے مشورہ نہ کیا

ایک سے ایک مسئلہ گزرا

میں ذرا سب سے مختلف تھا کماؔل

مجھ کو سمجھا گیا، گیا گزرا

تبصرے بند ہیں۔