کہاں چراغ رکھا جائے، مسئلہ ہے یہی !  

عالم نقوی

آج دنیا کی ساڑھے سات ارب سے زائد انسانی آبادی جن نظریات کی بنیاد پر زندگی گزار رہی ہے، انہیں بآسانی چار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  ہندو ازم فی الوقت دنیا کا بظاہر  سب سے قدیم  فلسفہ زندگی ہے۔ وہ آواگمن کا قائل ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی آخری یوم حساب نہیں ہے۔ ہم اچھے اعمال کریں گے تو اگلے جنم میں بہتر زندگی پائیں گے، برے اعمال انجام دیں گے تو اگلے  جنم میں جانور بھی ہو سکتے ہیں۔

دوسرا قدیم نظریہ حیات بودھ دھرم ہے جو کہتا ہے کہ  خواہشات ہی انسان کی تمام برائیوں اور مصیبتوں کی جڑ ہیں۔ لہٰذا خواہش ہی کو دل سے نکال دو۔ نہ کوئی اچھی بری خواہش دل میں ہوگی نہ اس کے پورے ہونے کی خوشی اور نہ اس کے  پورے  نہ ہونے کا  کوئی غم ہوگا۔

تیسرا نظریہ، مغرب کا قارونی نظریہ حیات ہے کہ ہر انسان آزاد ہے کہ جتنا چاہے کمائے اور جیسے چاہے کمائے اور جس طرح چاہے  اور جس مد میں چاہےخرچ کرے، اُسے مکمل اختیار ہے۔ چونکہ یہی نظریہ  عصر ِحاضر  کاغالب فلسفہ حیات ہے اس لیے دنیا کے تمام موجودہ  مسائل کی جڑ’ بے لگام آزادی‘  کا یہی نظریہ ہے۔

چوتھا نظریہ حیات اسلام  پیش کرتا ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ موت اور زندگی کو    خالق نے اسی لیے بنایا ہے کہ وہ دیکھے کہ کون اچھے اعمال انجام دیتا ہے۔ اور امتحان کی یہ زندگی مختصر اور فانی ہے۔ اس کے بعد ایک دار الجزاء ہے اور وہاں کی زندگی، خواہ جنت کی ہو یا جہنم کی، غیر فانی یعنی ہمیشہ رہنے والی ہے۔

مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت و آخرت اور موت کے بعد کی حیات دائمی کے تصور کو بھلائے بیٹھے ہیں اور اسی دنیا کو سب کچھ سمجھنے والوں کی تاسی اورپیروی میں  گرفتار ہیں۔ غالب قوموں کی اسلام  سے دشمنی کا ایک بڑا سبب کہ وہ بے قید و بے لگام آزادی پر قدغن لگاتا ہے۔ انہیں کمانے، خرچ کرنے اور باہمی تعلقات و معاملات میں اعتدال و انصاف، انفاق و ایثار کا حکم دیتا ہے، فانی دنیا کے پیچھے آنکھیں بند کر کے  بھاگنے اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے  سے روکتا ہے،ظاہر داری اور دکھاوے (شو آف) سے منع کرتا ہے اور نیّت کی صحت اور اخلاص پر زور دیتا ہے جبکہ دنیا ظاہری تام جھام ہی پر نظر رکھتی ہے۔ سمیع و  بصیر و علیم و خبیر اللہ سبحانہ تعالیٰ چونکہ ہمارے دلوں کے حال  سے بھی واقف ہے اس لیے ہمارا ظاہر خواہ ہی کتنا اچھا کیوں نہ ہو، اگر نیت درست نہیں اور عمل میں اخلاص نہیں تو اس ’اچھے ظاہر ‘ کا کوئی اجر ہمیں نہیں ملنے والا۔ ظاہر ہے کہ دنیا کو یہ پابندیاں پسند نہیں۔ بقول قیصر الجعفری مرحوم :

  شعور راہ نمائی کا سر بسر فقدان

زوال ملت و امت کا مرحلہ ہے یہی

 غرور جبہ و دستار،زعم خود بینی

دلوں کو بانٹ رہا ہے وہ فاصلہ ہے یہی

 تمام لوگ ہیں ظلمت پسند و نابینا

کہاں چراغ رکھا جائے مسئلہ ہے یہی

         اسلام صالح اور حلال طریقے سے دولت کمانے سے نہیں روکتا، نہ  وہ  ’اظہار نعمت ‘ سے  روکتا ہے  بلکہ وہ تو ’تحدیث نعمت ‘ کا حکم دیتا ہے لیکن، وہ جس کو جتنا دیتا ہے اس سے اتنا ہی انفاق بھی چاہتا ہے۔ وہ تجوری اور لاکر میں Dumpکرنے کے لیے نہیں دیتا !

                یہ سنگین معاشی مسائل، یہ قرض کا بحران، یہ بھکمری، یہ غریبوں اور کسانوں کی خود کشی، امیری اور غریبی کے درمیان مسلسل بڑھتی اور گہری ہوتی ہوئی کھائی، خلیج، اسی لیے ہے کہ ’انفاق ‘ کے ’قل العفو ‘ والے قرآنی معیار پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ عرب بادشاہوں، برونئی کے سلطان، وارن بوفے، بل گیٹس، مکیش امبانی اور گوتم اڈانی جیسے صرف  ایک سو لوگ اگر قرآنی اصول و معیار کے مطابق انفاق شروع  کردیں اور ’کنز و اسراف ‘ سے پوری طرح باز آجائیں،  تو پوری دنیا سے بھوک، غربت، افلاس، جہالت اور بیماری کا خاتمہ ہو جائے۔

               لیکن دنیا کے ان دس، بیس، پچاس، سو  دو سو یا تین سو اُمراء کی آمدنی اور خرچ دونوں انصاف، اعتدال، انفاق اور ایثار سے خالی اور بے تحاشہ  و بے لگام ’کنز و اسراف ‘سے پٹے پڑے ہیں۔ نتیجے میں دنیا کی سات اَرَب چَوَّن کروڑ آبادی میں سے سات سو کروڑ پسماندہ و درماندہ انسانوں کے مسائل، گھٹنے کے بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

                اسلام کو غلبہ اس لیے نہیں مل رہا ہے کہ اس کے پیروکار اسلام پر عمل کر کے دنیا کے سامنے پریکٹکل نمونے پیش نہیں کر رہے ہیں۔ قولی تبلیغ اور زبانی جمع  خرچ  اس وقت ضایع ہو جاتا ہے جب ہمارا عمل اس کے مطابق نہیں ہوتا۔

             جو لوگ، جو قومیں اور جو ملک آج غلبہ و اقتدار اور قوت و اختیار کے مالک ہیں وہ ان لوگوں سے بہت سے معاملات میں بہتر ہیں جو اسلام کے زبانی دعویدار ہیں۔ آج دنیا میں مسلم اکثریت کے پچاس ملک ہیں جن میں سے پینتالیس با ضابطہ خود کو’ اسلامی ملک‘ کہتے ہیں لیکن آپ کسی ’اسلامی ملک ‘ کی شہریت حاصل نہیں کر سکتے ! جبکہ امریکہ، کناڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سنگا پور جیسے ملکوں میں حصول شہریت کے قوانین اتنے سخت نہیں جتنے عرب ممالک میں ہیں !

مغرب نے ہم کو نام نہاد ’قومی ریاستوں Nation Statesمیں  بانٹ دیا تو ہم بھی قرآن کے ’امت واحدہ ‘ اور مسلم امہ کے ’جسد واحد ‘ ہونے کےاصول  کو بھول گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فلسطین کے فلسطینی عرب، افغانستان کے ہزارؔہ، یمن کے حوؔثی، میانمار کے روہنگؔیا، چینی ترکستان  کے ایغوؔر، تھائی لینڈ کے مالؔے، ،فلپائن کے مورؔو، بنگلہ دیش کے بہارؔی اور سری لنکا کے  سنہالی مسلمان، اپنے دشمنوں  اور غیر عادل مقامی حکمرانوں کے بد ترین ظلم اور نا انصافیوں کی زد پر نہ  ہوتے اور ان کے تمام مسائل اب تک حل ہو چکے ہوتے اور دنیا میں ’پناہ گزینوں ‘ کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ سری لنکا، میانمار، یمن، سیریا  اور فلسطین  میں مسلمانوں کے ناقابل تصور آلام اور بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر دجالوں کاقبضہ اس کا ثبوت ہے کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم صاحبان اقتدار و اختیار کی اکثریت قرآنی مؤمن تو درکنار قرآنی مسلم بھی نہیں ہے۔ ظالموں کے دوست، مظلوموں کے دشمن، اور خود مسلمانوں پر قابیلی، قارونی، صہیونی، دجالی، فرعونی، نمرودی اور یزیدی مظالم روا رکھنے والے مسلمان تو نہیں ہو سکتے۔ اسلام دشمنوں کے ہاتھوں پر غلبہ اسلام بھلا کیونکر ممکن ہے ؟

  بے شک دین فطرت  کا غلبہ اور انصاف کا قیام ہوگا لیکن ’’اسلام راستین‘‘ کے پیروکاروں کے ذریعے  ہوگا۔

مُسرفین  و مُترفین و ظالمین و منافقین کے دوستوں اور حامیوں کا حشر مظلومین و مؤمنین کے ساتھ تو نہیں ہونے والا!

سوال یہ ہے کہ ہم کدھر ہیں ؟  ہاں آئیے، اس ماہ مبارک رمضان میں ہم سب غور کریں کہ ہم کدھر ہیں ؟

  قیصر الجعفری مرحوم  نے غلط تھوڑی کہا تھا کہ:

ہوائیں چیختی رہتی ہیں اور ہم چپ ہیں

لگے گا کون کنارے، جو حوصلہ ہے یہی

نہ اتحاد، نہ حسن عمل، نہ دیدہ وری

ہماری پستی کردار کا صلہ ہے یہی

   زمانہ روند کے رکھ دے گا ایک دن سب کو

اگر زمانہ پرستی کا سلسلہ ہے یہی

سمندروں کو اٹھا  کر زمیں پہ پھیلا دیں

جو سن سکو تو فرشتوں کا فیصلہ ہے یہی

تبصرے بند ہیں۔