روزہ: اصلاح وتربیت کا اہم ذریعہ

مولانا غیو راحمد قاسمی

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہمدردری اور خیر خواہی، یتیم وبیوائوں کی خبر گیری کی بڑی اہمیت ہے کوئی بھی اچھی بات ایسی نہیں جس کی قرآن کریم نے دعوت نہ دی ہو اور نہ کوئی ایسا نیک کام ہے جس کے کرنے کی مذہب اسلام نے ترغیب نہ دی ہو، اس لئے کہ یہ مذہب انسانیت کا مذہب ہے  جو محبت واخوت، جود وصفا اور محتاج وبے بسوں کی خبر گیری کی تعلیم دیتا ہے روزہ ایک ایسی عظیم عبادت ہے جسے  صرف امت محمدیہ ؐ پرہی فرض نہیں کیاگیا۔ بلکہ اس امت سے پہلے تمام امم سابقہ کو  بھی اس کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے  اپنے بندوں پر رمضان المبارک کے روزے اس لیے فرض کیے ہیں کہ انہیں تقویٰ کی نعمت ودولت حاصل ہو۔ تقویٰ یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنے رب کا بندہ اور اس کا فرماں بردار بن کررہے۔روزے کی حقیقت سامنے رکھنے سے یہ بات ہماری محدود عقل بھی سمجھ لیتی  ہے کہ تقویٰ کے حصول کے لیے یہ عبادت مؤثرترین تدبیر ہے۔رمضان المبارک اسلامی سال کانواں مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے۔اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتازہے۔ رمضان المبارک وہی مہینہ  ہیکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں  اللہ تعالی  جنت  کے دروازے کھول  دیتا ہے  او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ  اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ  نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے  بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام  عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے  روضے رکھنا اسلام کیبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ؐ نے ماہ رمضان اور اس میں کی  جانے والی عبادات ( روزہ، قیام ، تلاوت قرآن، صدقہ خیرات، اعتکاف، عبادت  لیلۃ القدر وغیرہ )کی  بڑی فضیلت بیان کی ہے۔روزہ کی دوسرے فرائض سے یک گونہ فضیلت کا ندازہ اللہ تعالٰی کیاس فرمان ہوتا ہے’’ الصوم لی وانا اجزء بہ‘‘ یعنی روزہ خالص میرے لیے  ہیاور میں خود ہی اس بدلہ دوں گا۔روزہ کے احکام ومسائل سے آ گاہی  ہر روزہ دار کے لیے  ضروری ہے۔ لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام ومسائل سیلا علم ہوتے ہیں، بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات وخرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کرلینے تک پہنچ جاتے ہیں۔

حضرت سلمانؓ فارسی سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کے آخری دن میں ہمارے سامنے خطبہ پڑھا اور فرمایا لوگو! ایک بڑا مبارک مہینہ تمہارے سرپر آگیا ہے، اس مہینہ میں ایک خاص رات (کی عبادت) ہزار راتوں (کی عبادت) سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے (اندر) روزہ(رکھنا) فرض کیاہے اور اس کی راتوں میں قیام کرنا (تراویح پڑھا) ثواب کا کام بتلایا ہے، جو شخص اس مہینہ میں کوئی نیکی اللہ کی قرب حاصل کرنے کے لئے کرے گا، وہ اس شخص کے برابر ہے جو رمضان کے سوا (دوسرے مہینوں ) میں فرض ادا کرے اور جو شخص اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا وہ اس کے برابر ہے جو رمضان کے سوا (دوسرے مہینوں ) میں ستر فرض ادا کرے، اور یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ ہم دردی کا ہے، اس مہینہ میں مومن کے رزق میں ترقی دی جاتی ہے، جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے او رافطار کرانے والے کو بھی روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، او راس کے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی (یعنی روزہ دار کو بھی پورا ثواب ملے گا اور افطار کرانے والے کو بھی پورا ملے گا)۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرادے، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ثواب تو اللہ اس کو بھی عطا فرمادیتے ہیں جو ایک چھوارہ یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ سے کسی کا روزہ افطار کرادے (پیٹ بھرنے پر یہ ثواب موقوف نہیں اور ظاہر ہے کہ اتنی وسعت وفرصت تو ہر شخص کو ہے کہ وہ روزہ دار کو ایک گھونٹ پانی پلادے) اس مہینہ کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے او رآخری حصہ جہنم سے نجات ہے، جو شخص اپنے غلام (وخادم) سے اس مہینہ میں کام ہلکا کردے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیں گے اور جہنم سے آزاد کرادیں گے، پس تم رمضان میں چار کام زیادہ کیا کرو، دوکاموں سے تو تم اپنے پروردگار کو خوش کروگے (وہ یہ ہیں ) لا الہ الا اللہ کی دل سے گواہی دینا(اور زبان سے اس کی کثرت کرنا) اور (دوسرا) اپنے پروردگار سے مغفرت چاہنا، اور جن دوباتوں سے خود تم کو چارہ نہیں وہ یہ کہ اللہ سے جنت مانگو اور دوزخ سے پناہ مانگو، (اور سنو!) جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے گا اللہ اس کو میری حوض سے ایسا سیراب فرمائیں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہ لگے گی۔ (الترغیب بحوالہ ابن خزیمہ وبیہقی)

یہ جامع حدیث جہاں رمضان کے فضائل وخصائص اور اس کے اندر رحمتوں برکتوں کی خصوصیت وعظمت بیان کرتی ہے، وہیں روزہ دار مومنین کو باہم دیگر رواداری، ہمدردی اور نیک خواہشات کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ خلاصۂ حدیث یہ ہے کہ رمضان میں نفل عبادات کا ثواب فرائض کے برابر ہوجاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر بڑھ جاتا ہے، او ریہ جو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ مہینہ صبر کا ہے‘‘ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مہینہ مجسم صبر ہی صبر ہے، جیسا کہ ابھی اس سے پہلے بیان میں صبر کے معنی تفصیل سے گذر چکے کہ حبس النفس اور سخت مجاہدہ کا نام صبر ہے، ماہ رمضان میں اس کی تمام اہمیات وخصوصیات کے ساتھ روزہ رکھنا خود بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ روزہ دار اپنے آپ کو تمام نفسانی خواہشات سے روکتا ہے نہ کھاسکتا ہے نہ کچھ پی سکتا ہے اور پھر رات کو بھی تراویح میں نیند کی خواہش کو روکتا ہے کیونکہ اس میں معمول سے زیادہ جاگنا پڑتا ہے، اکثر دیکھاگیا ہے کہ بعض تراویح پڑھتے پڑھتے غلبۂ نیند کی وجہ سے گرجاتے ہیں مگر ان کے اس مجاہدہ میں ذرافرق نہیں آتا، کیا بعید ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہی ادا پسند آجائے اور اسے بخشش کا پروانہ دیدے۔

رہا آپؐ کا یہ ارشاد کہ ’’یہ مہینہ ہمدردی کا ہے‘‘ وجہ ظاہر ہے کہ اس مہینہ میں ہر روزہ دار مسلمان جانتا ہے کہ روزہ میں جو حالت میری ہے وہی دوسرے مسلمان کی بھی ہے اس کا قدرتی اور فطری تقاضا ظاہر ہے باہم ہمدردی کے سوا کیا ہوسکتا ہے، اکثر دیکھاگیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں ہر مسلمان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اپنے گھر میں جو چیز بہتر سے بہتر پکی ہو وہ مسجد میں روزہ داروں اور قریبی عزیز ورشتہ داروں کو بھی بھیجے، باقی آپؐ کا یہ ارشاد کہ ’’اس مبارک ماہ میں مومن کے رزق میں ترقی ہوتی ہے‘‘ تو اس کا بھی مشاہدہ ہے، عموماً اس ماہ میں قدرتی طور پر ذرائع آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے، یا پھر موجودہ آمدنی میں ہی اس قدر برکت ہوتی ہے کہ بڑے سکون واطمینان اور نہایت بے فکری سے مہینہ گذر جاتا ہے کہ ذراتنگی محسوس نہیں ہوتی، حدیث میں یہ بھی فہمائش کردی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک میں نوکروں، ملازموں اور اپنے ماتحت کام کرنے والوں کا پرکام لینے میں نرم رویہ اختیار کیا جائے اور یہ بھی کہ ذکر واذکار او راستغفار کی کثرت ہو، جنت کی دعا اور دوزخ سے پناہ کثرت سے مانگی جائے، خصوصاً افطار کے وقت، اس وقت خصوصیت سے دعا قبول ہوتی ہے:

حدیث شریف کے یہ الفاظ کہ ’’اوّلہ رحمۃ، اوسطہ مغفرۃً واٰخرہِ عتق من النار‘‘ اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اورآخری حصہ جہنم سے نجات ہے۔ اس طرح رمضان کے تین عشرے اور تین دہائیاں ہیں۔ یوں تو اللہ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے عام معافی اور دوزخ سے نجات کا اعلانِ عام ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومصلحت سے اس کو مرحلے وارتین عشروں میں تقسیم کردیا، اللہ اپنے بندے کی چنچل نفسیات سے خوب واقف ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ایک دم رہائی پاکر اور آزاد ہوکر اِترانے لگے اور پھر جرم پر جری ہوجائے، اس لئے یہ جہنم سے رہائی کی تدریجی اور مرحلہ وار درجہ بندی ہے، یہ تقسیم ایک خطاوار اور گنہگار بندہ کے حسب حال اور اس کے مزاج کے مناسب ہے۔

رمضان شریف کا پہلا عشرہ بارگاہ لہٰی میں بندئہ مجرم کی گویا پہلی حاضری ہے، جیسے کوئی مجرم شخص، شہنشاہِ عالی کے سامنے بھوک پیاس سے بے چین ہوکر اپنی خستہ حالت دکھا کر اعترافِ جرم کرکے معافی کا طلب گار ہو، کہ شاہا! میرے حال پر رحم وکرم کی نظر کی جائے او رمجھے معافی مل جائے، اس موقع پر اگرشاہ کی طرف سے صرف اتنا بھی کہہ دیاجائے کہ اچھا ہم تمہارے حال پر غور کریں گے تو ایک مجرم کی تسلی کے لئے یہ کافی ہے، اس سے اس کو معافی کی امید بندھ گئی۔ رمضان کے پہلے عشرے کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے، اس عشرہ میں بندہ کی یہ پہلی حاضری ہے جس میں اس کے حال پر اللہ تعالیٰ نظرِ رحم فرماتے ہیں اس لئے رمضان کے پہلے عشرہ کو رحمت سے تعبیر کردیاگیا۔ پھر رمضانِ کے دوسرے عشرہ میں گویا شہنشاہ کے سامنے مجرم کی دوسری حاضری ہوئی اس موقع پر شہنشاہ کی طرف سے مزید نرمی برتی گئی اور اسے کہہ دیاگیا کہ خیر فی الحال تو ہم تمہیں معاف کئے دیتے ہیں مگر آئندہ احتیاط رکھنا۔ اس نرم گفتگو سے گو مجرم کو معافی کا یقین تو ہوگیا مگر ابھی معافی کا حکم صادر نہیں ہوا ابھی وہ انتظار میں ہے۔ اسی طرح یہ رمضان کا دوسراعشرہ ہے، اس میں اللہ نے اپنے بندے کی حالتِ زار کو دیکھ کر اسے معاف تو کردیا مگر اعلان کرنا باقی ہے اس کو مغفرت کا نام دے دیاگیا۔ آخری تیسرے عشرہ میں گویا مجرم کی بادشاہ کے سامنے تیسری حاضری ہوئی جس میں اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ اچھا جائو ہم تمہیں معاف کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ رمضان کے اس تیسرے عشرہ میں معافی کا عام اعلان فرماتے ہیں اس کو عِتقّ من النار کے لقب سے تعبیر کردیا، واللہ اعلم وعلمہ اکمل اوتم۔

(تین عشروں میں اس تقسیم کی حقیقی منشا کیاہے؟ اللہ اور اس کا رسول ہی جانتا ہے، ہم نے یہ طریقۂ تمثیل بغرض تفہیم اختیار کیا ہے۔ محمد جمیل احمد الوری، نوحی)

روزہ اور اس کے آداب

حضراتِ مشائخ نے روزہ کے چھ آداب بیان فرمائے ہیں، روزہ دار کو ان کا اہتمام بہت ضروری ہے۔

۱۔ اوّل نگاہ کی حفاظت:

کہیں بے جانظر نہ پڑے حتیٰ کہ اپنی بیوی کو بھی شہوت کی نظر سے نہ دیکھے، غیر محرم کا تو ذکر ہی کیا۔ لہو ولعب سے اپنی نگاہ کی حفاظت رکھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نگاہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف کی وجہ سے اس سے بچ جائے حق تعالیٰ اس کو ایسا نور عطا فرماتے ہیں جس کی حلاوت ولذت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، حضراتِ صوفیہ کے یہاں ہر ایسی چیز کو دیکھنا جو اس کو اللہ تعالیٰ سے ہٹاکر دوسری طرف لگادے وہ بے جانظر ہے۔

۲۔دوم، زبان کی حفاظت:

جھوٹ، غیبت، لایعنی بکواس، فضول گفتگو، بدگوئی، بدکلامی، تمسخر، فحش بات، جھگڑا وغیرہ ان سب چیزوں سے زبان کو محفوظ رکھے، زبان کی حفاظت کی ترکیب یہ ہے کہ زبان کو تلاوت یا ذکر میں مشغول رکھے یا تنہائی میں آرام کرے، ہم لوگ اس سے بہت غافل ہیں۔ عوام کاتوذکر ہی کیا خواص بھی غیبت جھوٹ وغیرہ میں مبتلا ہیں۔

۳۔سوم، کان کی حفاظت:

جس بات کا کہنا درست نہیں اس کا سننا بھی گناہ ہے، حدیث میں ہے، غیبت کا کرنے والا اور سننے والا دونوں برابر ہیں، اسی طرح گانے بجانے وغیرہ سننا، غیر محرم عورتوں کی آواز پر کان لگانا یہ سب گناہ ہیں۔ ان سے روزۃ دار خصوصاً اپنے کانوں کو محفوظ رکھے۔

۴۔ چہارم، باقی اعضائے بدن کی حفاظت:

ہاتھوں سے ناجائز چیزوں کو نہ چھوئے، پیروں سے ناجائز چیزوں کی طرف نہ چلے اور سارے اعضاء کو خلاف شرع وسنت سے بچائے۔ منہ اور پیٹ کو سحری وافطاری میں مشتبہ او رحرام لقمہ سے بچائے، جو روزہ کا افطار حرام مال سے کرتا ہے وہ ایسا ہے جیسا کہ کسی مرض کے لئے دوا کے ساتھ تھوڑی سی اس میں سنکھیا بھی ملالے نتیجہ ظاہر ہے کہ دوا نفع کے لئے ہے مگر سنکھیا اس کو ہلاک بھی کردے گی۔

۵۔پانچواں ادب اکلِ حلال میں بھی اعتدال ملحوظ رہے:

یعنی حلال مال بھی اتنا زیادہ نہ کھائے کہ خوب شکم سیر ہوجائے۔ کیونکہ اس سے روزہ کی غرض ہی فوت ہوجائے گی۔ روزہ سے مقصود قوت شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوت نورانیہ وملکیہ کو بڑھانا ہے، گیارہ مہینے تو خوب کھایا اگر ایک مہینہ کچھ کمی ہوجائے تو کیا جان نکل جاتی ہے، ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افطار میں دن بھر کی تلافی میں اور سحری میں آئندہ کی فکر میں اتنا زیادہ کھالیتے ہیں کہ اتنا رمضان کے علاوہ میں بھی نہیں کھاپاتے، حاصل یہ ہے کہ افراط وتفریط سے بچے اور اعتدال کی راہ اختیار کرے۔

۶۔چھٹا ادب یہ ہے کہ ’’کرتے رہو ڈرتے رہو‘‘

روزہ دار کے لئے یہ ادب بھی بہت اہم ہے کہ روزہ کے بعد ڈرتا رہے کہ یہ میرا روزہ اللہ پاک کی بارگاہ میں قابلِ قبول ہے بھی یا نہیں اور یہ روزہ ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر عبادت کے ختم پر اس بات کا خوف کرے کہ مالک کو میری یہ کوشش اور میری یہ عبادت پسند آئی یا نہیں، نہ معلوم اس میں کوئی ایسی لغزش ہوگئی ہو جس کی طرف توجہ بھی نہیں ہوئی ہو، اور اس کی وجہ سے یہ عبادت میرے منہ پر نہ ماردی جائے۔

عبادات میں بدنیتی کے برے نتائج

حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن جب حساب وکتاب شروع ہوگا تو اوّل جن لوگوں کو حساب کے لئے پیش کیا جائے گا ان میں سے ایک شہید ہوگا، جس کو بلاکر وہ انعامات جتائے جائیں گے جو اس کو دنیا میں دیئے گئے تھے وہ ان سب نعمتوں کا اعتراف کرے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ تونے ان نعمتوں پر کیا عمل کیا او ران کا کیا حق ادا کیا وہ عرض کرے گا الہٰی آپ کے لئے میں نے قتال کیا یہاں تک کہ میں شہید ہوگیا، خدا کی طرف سے ارشاد ہوگا یہ جھوٹ ہے تونے تو اس لئے قتال کیاتھا کہ لوگ تجھ کو بہادر کہیں، سویہ تجھ کو (دنیا میں ) کہاجاچکا، اس کے بعد حکم ہوگا اور اس کو اوندھے منہ کھینچ کر جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔

ایسے ہی عالم کو بلایاجائے گا، اس کو اسی طرح انعامات جتلاکر پوچھاجائے گا کہ ان انعامات کے بدلے میں تیری کیا کارگذاری ہے؟ وہ عرض کرے گا، خدایا! میں نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو پڑھایا آپ کے لئے قرآن پاک پڑھا، ارشاد ہوگا یہ سب جھوٹ ہے، تو نے ہماری رضا کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ اس لئے کیا تھا کہ لوگ تجھ کو عالم کہیں، قاری کہیں، سو وہ دنیا میں کہاجاچکا، اس کے لئے بھی وہی حکم ہوگا اور اس کو بھی منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔ اسی طرح ایک مال دار کو بلاکر انعامات شمار کرائے جائیں گے اور اس کے اقرار کرنے کے بعد پوچھا جائے گا کہ تونے ہماری ان نعمتوں میں کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا الہٰی! کوئی مصرف خیر ایسا نہیں چھوڑا جہاں میں نے مال خرچ نہ کیا ہو اور یہ سب آپ کی رضا وخوشنودی کے لئے کیاتھا، ارشاد ہوگا یہ سب جھوٹ ہے، تونے تو اس لئے یہ سب کچھ کیاتھا کہ لوگ تجھے سخی (یارئیس) کہیں سو (دنیا میں ) کہاجاچکا، اس کے لئے بھی وہی حکم ہوگا اور اس کو کھینچ کر اوندھے منہ جہنم رسید کردیاجائے گا، اللہ کی پناہ یہ ثمرات ونتائج بدنیتی کے ہوں گے۔

اس لئے وزہ دار کو اپنی نیت کی حفاظت بھی کرنی چاہئے، اور روزہ کے تمام آداب کا اہتمام رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرتے بھی رہنا چاہئے اور اللہ سے قبولیت او راس کی خوشنودی کی دعا بھی کرتے رہنا چاہئے اس سے روزہ اور دیگر عبادات کی قبولیت بھی انشاء اللہ ہوگی اور اپنے اندر تواضع بھی پیدا ہوگی جو اصل عبادت ہے۔ (از بیان رمضان)

ماہ رمضان المبارک جہاں  صبر وغمخواری، محنت ومشقت اور عبادت وریاضت کا مہینہ ہے وہیں اپنی جسمانی، نورانی ار روحانی کیفیات کو منور ومحلی اور محترم ومعزم کرنے کا بھی مہینہ ہے۔ جس شخص نے اس ماہ مبارک کا کما حقہ احترام کرلیا، سمجھ لیجئے وہ بندہ اللہ رب العز کی رضا وخوشنودی حاصل کرلیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ آج مسلمان مجبوری، بے بسی، لاچاری اور بے کسی کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں، ذلیل وخوار اور رسوا ہورہے ہیں، اس کے باوجود اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ اور تیار نہیں ہیں۔ اس مبارک مہینہ میں ہم اپنی عبادت سے اللہ رب العزت کو راضی کسکتے ہیں اور اگر وہ راضی ہوگیا تو ہماری مجبوری وبے بسی او رلاچاری ومحتاجی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس مبارک مہینے کا اب تک عام مسلمانوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ مبارک مہینہ عبادت کا ہے خوب عبادت کریں۔ صبر وشکر کریں، اللہ رب العزت کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں۔ اپنے نفس پر قابو رکھیں اللہ رب العزت راضی اور بے انتہا خوش ہوجائیں گے اور بگڑے ہوئے حالات بدل جائیں گے۔ روزہ رکھ کر ایسے حالات نہ پیدا کریں کہ جیسے کسی پر احسان عظیم کررہے ہوں۔ غصہ پر مکمل طور سے قابو رکھیں۔ غریب، مسکین اور محتاج کا اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں۔ ان کی مدد ونصرت کریں۔ پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے مال کی زکوٰۃ نکالیں اور اسے اصل مستحقین اور حقدار تک پہنچائیں۔ یہ مبارک ومقدس مہینہ مسلمانوں کو مذہب اسلام کی اجتماعیت کا پیغام دیتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ مسلمان اب بھی غافل او رلاپرواہ ہے۔ روزہ رکھ کر عبادت کرنے کے بجائے سورہا ہے، بازاروں اور چوک چوراہوں میں گپ شپ اور فضول باتوں میں مستغرق ہے۔ بچے کھیل کود اور موبائل نیز انٹرنیٹ کی پرفریب دنیا میں مصروف ومنہمک ہیں، عورتیں خریداری میں مست ومگن ہیں۔ گویا کہ رمضان المبارک کی اہمیت وعظمت کم اور عید الفطر کی تیاریاں اور دیگر مصروفیات زیادہ ہیں۔ ہم ہر سال کی طرح اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ مبارک مہینہ نفس پر قابو رکھنے کا ہے۔ ہم سب آج سے عہد کریں کہ اس مبارک مہینہ کی قدر کریں گے، نمازوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں گے قرآن کی تلاوت ذکر واذکار اور زیادہ سے زیادہ صدقات وخیرات کریں گے۔ کیونکہ بروز قیامت یہی سب اعمال خیر کام میں آنے والا ہے۔ اس مہینہ میں اعمال صالح کے ذریعہ اپنے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کریں۔ گناہوں سے بچیں اور روزے کی حالت میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔ رمضان کے آخیر ایام میں جس میں زیادہ عبادت کرنا باعث فضیلت ہے ان میں ابتدائی ایام کے مقابلے میں عبادتوں کا معیار گھٹ جاتا ہے۔تراویح میں ختم قرآن کے بعد پہلے جیسا جوق شوق باقی نہیں رہتا۔ ہمیں ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ پورے مہینے ہمارے اندر شوق عبادت پڑتا رہے اور ہر ایسے عمل سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے نیکی برباد اور گناہ لازم آتا ہو اللہ تعالیٰ پوری امت کو رمضان کی برکات سے مالا مال فرمائے اور ہر منکر اور معافیت سے محفوظ فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔