ماہِ رمضان: ماہِ عبادت

آبیناز جان علی

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فر   ق کرنے والا ہے۔ ‘‘ (۱۸۵:۲)

رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے۔ اس متبرک مہینہ میں قرآن کی خوب تلاوت ہوتی ہے۔  ماہِ رمضان خدا کی رحمت کی صاف نشانی ہے اور اسی رحمت کا ثبوت قرآن ہے جس میں حکمت و دانائی کا نور ہے جو انسان کو راہِ راست اور اچھائی کی طرف لے جاتا ہے اور انسانی روح کو برائی اور مکروفریب سے بچاتا ہے۔ قرآن زندگی، روح اورانسانی فلاح و بہبودی کے لئے خوشی، نیک اجر اور انعام کا ضامن ہے۔ اس میں آسمانی سیکھ سے فیض اٹھا کر زندگی گذارنے کا فائدہ اور دائمی حکمت ہے۔

رسولؐ نے فرمایا ’ قرآن پڑھو کیونکہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے کا سفارشی بن کر آئے گا۔ ‘ (صحیح مسلم )

اپنے آخری سال میں رسول ؐنے رمضان کے مہینے میں دوبار قرآن کی تلاوت مکمل کی۔ مسلمانوں کو کم سے کم ایک بار رمضان کے مہینے میں پورے قرآن کو پڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔ کئی لوگ رمضان کی راتوں میں تراویح کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں یا تہجد کی نماز کے دوران خلوت میں رات کی تاریکی میں اپنے خدا کو یاد کرتے ہیں۔

قرآن کو آہستگی سے پڑھنے سے اس کے معانی قلب و ذہن پر ثبت ہوتے ہیں اور بندے کو تدبر کا موقع نصیب ہوتا ہے۔ یہ رسولؐ کا بھی طریقہ تھا۔ قرآن کی آیتوں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ آیات پر غور کرنے سے بندہ ربِ دو جہاں کے اور نزدیک ہوجاتا ہے اور اس کے اندر تقویٰ کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ قرآن ہماری موجودہ صورتِ حال کے مطابق راستہ دکھاتا ہے۔ اس کی معرفت خدا اپنے عابد سے بات کرتا ہے اور اس کو پاک و صاف کرتا ہے اور اسے صراط المستقیم دکھتاہے۔ اس کے عقل و شعور کو جلا ملتا ہے اور اس کی زندگی سنور جاتی ہے۔

قرآن بہترین طرزِ عمل سیکھنے کا اہم آلہ ہے۔ آیات سے احکام اور حکمتوں کے استخراج کرتے ہوئے اور اللہ کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے قرآن کے قوانین کو اپنی زندگی میں اپنانا ہے۔ اس لئے مفہوم سمجھ کر پڑھنا عین مناسب ہے۔ جو مسلمان عربی زبان روانی سے نہیں پڑھ پاتے کسی ٹیپ ریکاڈر یا سی ڈی یا یوٹیوب ویڈیو کی مدد سے قرآن کی تلاوت سماعت کرسکتے ہیں۔  رمضان ہرروز قرآن کی تلاوت شروع کرنے اور آیات کے ترجمے اور تفسیرو تاویل پڑھنے کا سنہراموقع ہے۔ اس مہینے میں ہر حرف کے لئے ثواب ملتا ہے۔

رسولؐ نے فرمایا: ’ جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اور اجرو ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ ‘  (صحیح بخاری)

اس مہینے میں مسلمان تراویح کی نمازیں ادا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ دوسری راتوں کے مقابلے تراویح کی نمازیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔  یہ افطار کے بعد کھانے کے صحیح ہاضمہ میں مدد کرتا ہے۔ تراویح جسمانی اور روحانی تربیت کا آماجگاہ ہے۔ اس نماز کی ادئیگی کے روحانی اجر بھی ہیں۔  اگرچہ یہ نمازیں فرض میں شامل نہیں اس کی بڑی فضیلیتں ہیں۔

عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ نے ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی تو آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی تراویح ادا کی پھر، آپ نے آئندہ رات بھی نماز پڑھی تو لوگ پہلے سے بھی زیادہ ہوگئے، پھر تیسری یاچوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوگئے تو رسولؐ باہر نہ آئے، پھر جب صبح ہوگئی تو آپؐ نے فرمایا: ’گذشتہ رات میں تمہاری طرف اس لئے نہیں آیا کہ مجھے خدشہ ہوا کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ (صحیح بخاری)

روایت ہے کہ’ رسولؐ فطرتاً سب سے سخی اور دریادل تھے اور آپؐ رمضان کے مہینے میں زیادہ سخی ہوا کرتے تھے۔ ‘

خدا نے ہم سب کو بہت نوازا ہے اس لئے رمضان کے مہینے میں مسلمان کو دل کھول کر صدقہ اور زکات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘  جب بھی خدا کا بندہ خیرات دیتا ہے، اللہ اس کے جسمانی، روحانی اور ذہنی حالات کو بہتر بناتا ہے اور اس کا رزق بڑھاتا ہے۔ صدقہ صرف پیسوں کا نہیں ہوتا۔ ایک نیک کام جو اللہ کے لئے کیا جائے ، جیسے دوسروں کی مدد کرنا اور خدا کے علاوہ کسی انسان سے کسی طرح کی نیکی کی توقع نہ رکھی جائے۔ ایک مسکراہٹ کو بھی اسلام میں صدقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مسلمان رمضان کے مہینے میں ہی زکات ادا کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اس مہینے میں زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔ دولت پانی کی طرح ہوتا ہے، جب اس کے بہائو کو روکا جاتا ہے تو وہ باسی ہوجاتا ہے اور جب وہ بہتا ہے، تو وہ تازہ اور میٹھا ہوجاتا ہے۔ رسولؐ نے فرمایا:  ’یہ زکات دینے کا مہینہ ہے جس میں مومنوں کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کوئی ایک روزے دار کو کھانا کھلائے یا ایک روزے دار کو ایک عدد کھجور یا ایک گھونٹ پانی دے جس سے روزہ دار افطاری کرے، اس شخص کے لئے گناہوں سے معافی اور جہنم کی آگ سے نجات ہے اور وہ روزے دار کی طرح ہی اجر کا حق رکھتاہے۔ (ترمذی)

چونکہ روزے داروں کو کھلانے کا ثواب بڑا ہے، کئی جگہوں پر غروبِ آفتاب کے وقت مسجدوں میں افطاری کرائی جاتی ہے اور اس کے لئے لوگ انفرادی طور پر کھانا تقسیم کرنے کے لئے لاتے ہیں۔  اس طرح سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان مسلمانوں میں بھائی چارگی اور امن و اتحاد کا مضبوط رشتہ بنتا ہے۔

رسولؐ نے فرمایا: ’ جب ایک انسان فوت ہوجاتا ہے اس کے اعمال اس سے منقطع ہوجاتے ہیں ، مگرتین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ، دوسری نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہیں اور تیسری علم جو اس کے بعد بھی دوسروں کو فائدہ پہنچاتا رہے‘۔

رسولؐ نے روزے داروں پر زکات فرض کیا ہے تاکہ کسی طرح کے ناشائستہ کام یا غلط اعمال سے وہ پاک و صاف ہوں۔  اس سے روح کی پاکیزگی ہوتی ہے۔ ‘  یہ بخل کا علاج ہے اور اس سے سماجی ڈھانچہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ دولتمندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے محلے کے غریب اور مفلوک الحال افراد سے رابطہ قائم کریں اور اپنے سے کم خوش نصیب لوگوں کا خیال کریں۔ زکات غریبوں کوراحت پہنچاتا ہے اور انہیں بھیک مانگنے کی بے عزتی سے محفوظ رکھتا ہے۔

دعا مسلمانوں کا اوزار ہے

رسولؐ ِ اقدس نے ارشاد فرمایا: ’ تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی اور جن کے لئے جنت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ،  ایک روزے دار جب وہ افطار کے وقت دعا کرے، دوسرنیک اورعادل بادشاہ اور ایک مظلوم کی دعا بادلوں کو چیرتی ہوئی خدا کے دربار تک رسائی پاتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے میری عزت اور میرے جلال کی قسم کہ میں اس شخص کی ضرور مدد کروں گا، اگر چہ وقت لگ جائے۔ ‘ (ترمذی)

روزے دار کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی۔ غروبِ آفتاب سے پہلے کا وقت دن کے سب سے عظیم ترین اوقات میں سے ہے۔ چنا نچہ یہ اپنی تمام آرزوئیں اور خواہشات نیز ضروریات خدا کے سامنے رکھنے کا وقت ہے۔ اس وقت دن بھر بھوکا رہنے سے منہ سے جو بدبو آتی ہے وہ اللہ کے نزدیک مشک اور عنبر سے زیادہ قیمتی ہے۔ روزے دار نے سارا دن بھوک اور پیاس کو برداشت کیا اور یہ اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے۔ یہ وقت گناہوں کی بخشش و مغفرت اور حاجت کو پیش کرنے کا وقت ہے۔ تاہم اس وقت لوگ کھانے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اس وقت کی اہمیت کو بالائے طاق رکھ جاتے ہیں۔  رسولؐ نے فرمایاجو آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ پس یا تو دنیا کے اندر اس کا اثر ظاہر کردیتا ہے یا آخرت کے لئے اس کا اجر محفوظ کردیتا ہے یا دعا کے بہ قدر اس کے گناہ دور کردیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے یا جلدی نہ مچائے۔ (ترمذی)

اس لئے دعا بہت اہم ہے اور اس کا نظرانداز کرنا یقیناایک بڑا نقصان ہے۔ اگر خدا کو محسوس ہوکہ وہ جو ہمیں عطا کر رہاہے ہمارے حق میں ہے تو ہمیں وہ چیز عطا کرتا ہے، ورنہ اللہ وہ دعا قبال نہیں کرتا جس میں نقصان ہو۔ دعا کچھ شرائط کے تحت قبول ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف مسترد بھی ہوسکتی ہے۔ جب انسان حرام کی کمائی کھاتا ہے، دعا قبول نہیں ہوتی، ایک انسان جب دن بھر روزہ رکھے اور حرام کھانے سے افطار کرے اس بیمار آدمی کی طرح ہے جو علاج کے طور پر دوائی ضرور لیتا ہے لیکن ساتھ ساتھ زہر بھی لے رہا ہے جو اسے برباد کر دیتا ہے۔

رسولؐ نے فرمایا ’ ’اس انسان کی خاک مٹی میں مل جائے جس کے سامنے میرا نام لیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے، جس کو رمضان کا مہینہ نصیب ہوا اور اس مہینے کے آخر تک اس کو مغفرت نصیب نہیں ہوئی اور جس کے بوڑھے والدین زندہ ہوں ، دونوں یا ان میں سے ایک اور ان کی خدمت کرتے ہوئے وہ جنت میں داخل نہ ہو۔ ‘‘ (ترمذی)

اس لئے نبی اقدس ؐ کا یہ فرمانا ہے کہ جو رمضان جیسے رحمتوں ، برکتوں اور فضیلتوں کے مہینے میں اپنے روز و شب گناہوں اور اپنے فرائض کو نظرانداز کرنے میں گذارے، اسے معافی نہیں ملتی۔ اگر انسان رمضان میں خدا کی خوشنودی حاصل نہ کرے تو وہ کب کرپائے گا؟  رمضان میں اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے فرائض کی نگہبانی کرے جیسے روزہ رکھنا، تراویح کی نمازیں ادا کرنا، اور اپنے اور گذشتہ گناہوں کے لئے توبہ کرے۔ جو اللہ کی پوری عقیدت، صداقت اور خلوص سے عبادت کرتے ہیں اور گناہِ کبیرہ سے پرہیز کرتے ہیں ان کے سال بھر کے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ ان کے روزے کے باعث سمندر کی تہہ میں مچھلی بھی ان کے حق میں معافی طلب کرے گی۔

رسولؐ نے رمضان کے پہلے دس دنوں کو رحمت کا عشرہ طے کیا ہے جہاں اللہ مومنوں پر رحم و کرم  برساتا ہے۔ جو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ان نعموتوں کے لئے جو خدا نے انہیں عطا فرمائیں ، خدا کی طرف سے ان کی برکتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

’اگر تم شکر کرو گے میں تمہیں بڑھائوں گا لیکن اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا شدید ہے۔ ‘ (۱۴: ۷)

رمضان کے دوسرے عشرے میں پہلے حصّے کی بدولت ان کو معافی انعام میں ملتا ہے۔ آخرہ عشرے میں رمضان جہنم کی آگ سے حفاظت پہنچاتا ہے۔

رمضان میں ان تین چیزوں پرتوجہ مرکوز کرنی ہے:

۱) کلمہ طیبہ پڑھنا۔ یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔  اگر ساتوں آسمان،زمین اور تمام اہلِ دنیا کو ایک ترازو کے ایک طرف رکھا جائے اور اس کلمہ کو ترازو پرکے دوسری طرف رکھا جائے تو یہ کلمہ زیادہ بھاری پڑے گا۔

۲) استغفراللہ کرنا اور اللہ رب العزت سے معافی طلب کرنا۔ جو بھی استغفار کرتا ہے اللہ اس کے لئے تمام مشکلات اور دکھ و آلام سے نجات دلاتا ہے۔

۳) جنت میں داخل ہونے کی دعا اور نارِ جہنم سے حفاظت مانگنی ہے۔

رسولؐ کا فرمانا ہے کہ آپ رمضان کے آخری دنوں میں اعتکاف کرتے۔ عائیشہ ؓنے آپ سے اعتکاف کی اجازت مانگی اور آپ نے ان کو اجازت دی۔ (بخاری)

رمضان کے متبرک مہینے میں اعتکاف کرنا یعنی خود کو مسجد میں ہی محدود رکھنا، رسول ؐ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ رسول ؐ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے۔ ایک سال آپ نے اعتکاف نہیں رکھا۔ جب اگلاسال آیا آپ بیس راتوں کے لئے اعتکاف میں رہے۔ (ابی دائود)

رمضان خود احتسابی اور نفوس کے تذکیہ کا مہینہ ہے تاکہ ظلمات، شر اور ناپاکی سے نکل کرہماری روح جلیل القدر نیکیوں سے معمور ہوسکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری عبادتوں اور نیکی کی طرف آنے کی ہماری کوششوں کو قبول فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔