دَور تراویح کا نہیں، قرآن عظیم کا ہوتا ہے

حفیظ نعمانی

ہمارا بچپن اور نوجوانی سنبھل میں گذرے یا بریلی میں کلام پاک حفظ کرنے کی ابتدا تو بریلی میں ہوئی پھر تین پاروں کے بعد دادا صاحب نے سنبھل بلوا لیا۔ اس عرصہ میں سنبھل ہو یا بریلی ہر رمضان شریف میں کسی بھی مسجد میں پانچ پارے تین پارے یا دو پاروں کو تراویح میں نہیں پڑھا جاتا تھا۔ عام طور پر 25  رمضان کے آس پاس ختم ہوتا تھا اور اس کے بعد ہر محلہ کی مسجد میں ایک جشن کی طرح شبینہ ہوا کرتا تھا یعنی ایک رات میں پورا قرآن اور وہ پانچ پانچ یا کم زیادہ کے گروپ ہوتے تھے اور آج اس محلہ میں کل دوسرے میں اور اسی طرح ہر محلہ میں جشن ہوتا تھا۔

ہر مسجد میں علماء کو بلایا جاتا تھا اور ختم قرآن کی تقریب میں آخری عشرہ کی برکتیں، نعمتیں اور فضیلتیں بیان کی جاتی تھیں اور مساجد کو آباد رکھنے اور نمازیوں کی کثرت کے لئے جاہل مسلمانوں نے شبینہ شروع کردیا تھا۔ اور وہ جس طرح پڑھا جاتا تھا علماء اس کی مخالفت کرتے تھے لیکن عام مسلمانوں نے آخری عشرہ میں مسجد کو اور زیادہ بارونق بنائے رکھنے کے لئے یہ راستہ نکالا تھا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جو حافظ اپنے حصہ کا کلام پاک امام کی حیثیت سے پڑھ رہے ہوتے تھے وہ اور دس پانچ اور منتظم تو کھڑے رہتے تھے باقی سب برآمدہ اور صحن میں بیٹھے رہتے تھے اور جیسے ہی امام رکوع میں جاتے تھے سب کے سب جو جہاں ہوا وہیں رکوع کرلیا کرتا تھا۔ اور ایک راز کی بات یہ تھی کہ جو حافظ پڑھ رہا ہوتا تھا وہ پہلی رکعت میں تو اتنا پڑھ دیتا تھا کہ دوسری رکعت میں تھوڑاسا پڑھ کر مقتدی کو کھڑے ہونے کی تھکن سے بچالے۔ اور نتیجہ یہ ہوگیا تھا کہ آخر عشرہ میں عبادت کے بجائے میلہ ہوجاتا تھا۔

لکھنؤ آنے کے بعد بھی کافی دنوں کے بعد یہ خبریں آئیں کہ فلاں مسجد میں پانچ پارے روز ہوں گے اور چھٹی شب میں قرآن ختم ہوجائے گا۔ سنبھل اور بریلی کے زمانہ میں غلام ملک کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے جو اُن کے گھر کی خواتین سے بازار بھر جائیں۔ اور گھر کے مرد شہر کی ہر مشہور چیز کے کھانے کے لئے اس بازار سے دوسرے بازار اور اس محلہ سے دوسرے محلے کے چکر لگاتے ہوئے کسی مشہور دُکان میں ہی سحری کھاکر گھر آتے ہوں۔ گذشتہ سال ہمارے گھر کے سامنے محمدی مسجد میں جو حافظ تراویح پڑھا رہے تھے انہوں نے 25  ویں شب کو قرآن عظیم ختم کیا دوسرے دن امام صاحب نے اترکیف سے رواج کے مطابق تراویح پڑھا دیں تیسرے دن اس مسجد میں وہ امام صاحب تھے جو وہیں رہتے ہیں ان کے بوڑھے والد تھے، ہم تھے ہمارے دو بیٹے اور تین پوتے تھے۔ یعنی اگر ہم باپ بیٹے اور امام صاحب باپ بیٹے نہ ہوتے تو مسجد میں ایک مسلمان بھی نہیں تھا۔ جبکہ ختم قرآن کے بعد مولانا یحییٰ نجمی ندوی نے آخری عشرے اور رمضان المبارک کی آخری راتوں کی فضیلت میں جو پروردگار کی طرف سے انعام ملنے کی تفصیل بتائی تھی اسے سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کل مسجد میں شاید داخل ہونے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔

ایک بگاڑ اخبارات نے بھی پیدا کردیا ہے رمضان المبارک کو بھی الیکشن کی طرح پہلا دَور، دوسرا دَور تیسرا دَور میں تقسیم کردیا ہے۔ رمضان کی شب میں ہر مسجد میں تراویح ہوتی ہیں تراویح کو ہمارے علماء نے سنت بتایا ہے اور ان ہی راتوں میں پورا قرآن یہ الگ چیز ہے جہاں حافظ نہیں ہوتے وہاں بھی 20  رکعت تراویح ہوتی ہیں اور ان میں قرآن ہی پڑھا جاتا ہے۔ ہمارے اخبارات نے پورے کلام پاک کو اصل کردیا اور تراویح کو اس کا ماتحت کردیا اور جس مسجد میں جب پورا قرآن ہوگیا اسے ایک دَور کردیا۔ یہ مسجدوں کو ویران کرنے کی سازش ہے کہ چھ راتیں تو نماز پڑھنے والے سڑک پر بھی کھڑے ملتے ہیں اور اس مسجد میں ساتویں شب میں آواز دے کر معلوم کرنا پڑتا ہے کہ کوئی ہے یا نہیں؟ آج گھر گھر ٹی وی ہے اگر کوئی دیکھنا چاہے تو روز دیکھ لے کہ خانۂ کعبہ میں جو تراویح ہوتی ہیں اور مسجد نبویؐ میں جو 20  تراویح ہوتی ہیں وہ ایک قرآن رمضان کی 29  ویں شب کو ختم کرتے ہیں۔ اگر چاند ہوگیا تو فرصت اور چاند نہیں ہوا تو پھر کلام پاک جس سورہ کو جی چاہا پڑھادی۔

آج ہی ایک اخبار کی خبر ہے کہ بارہ بنکی میں تراویح کا دوسرا دَور مکمل جن لڑکوں نے یہ خبر بنائی ہے اسی خبر میں ’’بازاروں میں رونق عید کی خریداری زوروں پر‘‘ کی ضمنی سرخی لگائی ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ تراویح کا تو ہر دن ایک دَور ہوتا ہے۔ یہ شیطان نے سکھا دیا ہے کہ ایک رمضان میں ایک قرآن سن لو پھر بازار میں خریداری کرو جبکہ قرآن شریف ترتیب کے ساتھ پورا یا آدھا پڑھا جائے یا کچھ بھی پڑھا جائے۔ کون مسلمان ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ نمازیں وہ فرض ہوں سنت ہو وِتر ہوں ہر عبادت میں جو پڑھا جاتا ہے اسے قرآن شریف کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا؟

جن لوگوں نے پانچ پارے روز پڑھے یا تین پارے روز پڑھے یا دو پارے پڑھے ان کا مقصد صرف ایک قرآن سننا ہے جبکہ پورے رمضان کی تراویح ہر مسلمان کو پڑھنا چاہئیں اور جس طرح کم وقت میں یہ قرآن پڑھا جاتا ہے اس کا پڑھنا بھی گناہ ہے اور سننا بھی گناہ ہے جو متولی اپنی مسجدوں میں جلدی ختم کراتے ہیں وہ ثواب نہیں کماتے گناہ کماتے ہیں۔ ہر مسجد میں تراویح کا صرف ایک دَور ہوتا ہے جو رمضان کا چاند ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور شوال کے چاند کے بعد ختم ہوجاتا ہے اس کے درمیان شبینہ یعنی ایک رات میں پورا قرآن یا قسطوں میں یہ تراویح کا نہیں پڑھنے والوں کا دَور ہے اللہ انہیں نیک ہدایت دے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔