کہاں ہیں خیر کی طرف بلانے والے؟

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

رب کائنات کو جو عمل پسند ہے، وہ برائی سے روکنا اور اچھائی کی طرف بلانا ہے۔ تبھی تو قرآن میں اس کام کے کرنے والوں کو خیرامت کہا گیا ہے۔ بظاہر یہ دو لفظ ہیں لیکن اس میں زندگی کا فلسفہ، اس کا پورا نظام چھپا ہے۔ اس سے بڑا خیر، بھلائی کا کیا کام ہوسکتا ہے کہ کسی کو برائی سے روک دیا جائے، ایک برائی سے بچنے کا مطلب ہے کئی طرح کی زحمتوں سے محفوظ رہنا،مگر یہ کام آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے کردار کی مضبوطی اور انسانوں سے محبت ضروری ہے۔ خود برائیوں سے رکنے اوراچھائیوں پر عمل کرنے والا ہی یہ کام کرسکتا ہے۔

نبیوں کی دعوت، صحابہ کی محنت، ولیوں کی ریاضت اور عظیم شخصیتوں کی کوششوں کا محور امربالمعروف ونہی عن المنکررہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ انبیاء ؑ والا کام ہے۔ اس میں عزت وسربلندی رکھی گئی ہے۔ اسی کام کی وجہ سے رب کریم نے بنی اسرائیل کی جگہ دنیا کی امامت امت محمدیہؐ  کو منتقل کردی اورحق پرستوں کا مرکز بیت المقدس کے بجائے خانۂ کعبہ کو بنادیا۔ اب قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر دنیا کی پیشوائی مسلمانوں کو کرنی ہے تو پھر وہ دنیا بھر میں ذلیل وخوار کیوں ہورہے ہیں ؟ قرآن اس کا جواب کچھ اس طرح دیتا ہے کہ جب بھی مسلمان برائیوں سے روکنے اور خیر کی طرف بلانے کا کام چھوڑ دیں گے یا اس ذمہ داری سے غافل ہوجائیں گے تو خدا ان پر ظالم حکمراں مسلط کردے گا، تاکہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں اوراچھائی کی طرف بلانے کا کام شروع کریں ۔

اس پس منظر میں اگر بھارت کا جائزہ لیا جائے تو ملک کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ان مسائل کا حل اورتجزیہ اسلام کے پاس ہے۔ مگر مسلمان اس سے غافل ہیں یا پھر وہ خود بھی ان مسائل سے گھرے ہوئے ہیں ۔ مثال کے طورپر شراب کی لعنت سے ملک بری طرح پریشان ہے۔ لاکھوں خاندان تباہ وبرباد ہوچکے ہیں ۔ ہزاروں لوگ اپنی جان گنواں چکے ہیں ۔ کئی ریاستی سرکاروں نے قانون بناکر شراب پر پابندی لگائی ہے۔ پنجاب میں تواس بار کا اسمبلی الیکشن بھی نشہ بندی کے مدعے پر لڑا گیا۔ کیا مسلمانوں کو نشہ بندی کے خلاف مہم نہیں چلانی چاہئے تھی۔ کیا اس کی وجہ سے متاثرنوجوانوں کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ کیاانہیں نشہ کی لت سے چھٹکارا دلانے کیلئے کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ جو خاندان تباہ وبرباد ہورہے ہیں ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے؟ میری معلومات کی حد تک کسی مسلم تنظیم، شخصیت یا رہنما نے مقامی سطح پر بھی اس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جبکہ ملک کے عوام کو انتظار ہے کہ کوئی آئے جو انہیں اس پریشانی سے نجات دلائے۔

ملک میں ایک بڑا مسئلہ لڑکیوں کے قتل کا ہے۔ پہلے تو رحم میں ہی بچیوں کو قتل کرنے کا ناپاک جرم کیا جاتا ہے۔ جو بچ جاتی ہیں ان کی شادی بیاہ، تعلیم اور حفاظت بڑا مسئلہ رہتا ہے۔ کتنی ہی لڑکیاں جہیز کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں ۔ کئی کو ان کے اپنے والدین عزت کی خاطر قتل کردیتے ہیں ۔ اس کو آنرکلنگ کا نام دیاگیا ہے۔ یہ آنر کلنگ کبھی برادری غیر برادری کی وجہ سے ہوتی ہے، توکبھی اسٹیٹس کی وجہ سے۔ اسلام عرب کے اس سماج میں آیا تھا جہاں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ عرب کے سماج نے اس مسئلہ سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا، اس کی پوری تفصیل ہمارے پاس ہے،لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ مسلمان رہنمائی کرنا تو دور بچی کے پیدا ہونے پر ان کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں ۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں شادی کی عمر پار کرجاتی ہیں ۔ برادری میں ان کے لائق لڑکانہ ملنے سے کتنی لڑکیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں ۔ اب تو جہیز کی وجہ سے کتنی ہی مسلم شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں ۔ یوپی، بہار اور ملک کے کئی حصوں میں لڑکے کے کام کے مطابق اس کی قیمت مقرر ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں میں بھی خوب پایا جاتاہے۔ کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ کسی عورت کے یہاں اگرایک سے زیادہ بچیاں پیدا ہوگئیں تو گھر خاندان کے لوگ لڑکے کی دوسری شادی کرادیتے ہیں ۔ پہلی بیوی کی زندگی برباد ہوجاتی ہے یا پھر اسی بنیاد پر اسے طلاق دلا دی جاتی ہے۔

 مسلم خاندانوں میں بھی عورتوں کے ساتھ امتیاز برتنے کے واقعات خوب پائے جاتے ہیں ۔ مرد پہلے کھاناکھاتے ہیں ، عورتیں بعد میں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھانا کم ہوجانے کی صورت میں عورتیں بھوکی بھی رہ جاتی ہیں یا آدھا پیٹ ہی کھانا کھاپاتی ہیں ۔ عام طورپر مسلم خواتین خون کی کمی کی شکار پائی جاتی ہیں ۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طورپر عدم غذائیت کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما نہیں ہوپاتی۔ وہ پڑھائی اور دنیا کی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اسلام نے اس معاملے میں پوری رہنمائی کی ہے۔ ہم ملک کے عوام کو اس معاملے میں روشنی دے سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں اپنے سماج کی کمیوں کو دور کرنا ہوگا۔

غیر مسلم خواتین کی حالت بہت خراب ہے۔ ایک طرف انہیں خاندانی پراپرٹی میں حصہ نہیں ملتا تو دوسری طرف چاہے ان چاہے پوری زندگی شادی کو نبھانا ہوتا ہے۔ دوسری شادی کا ان کے یہاں کوئی تصورنہیں ہے۔ کہیں عورت کو دوسری شادی کے نام پر مرد کے گھر میں بٹھا دیاجاتاہے توکہیں دوپٹہ اوڑھادینے بھر سے دوسری شادی ہوجاتی ہے۔ اس وقت تو مسلمانوں میں اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے یا اسے طلاق ہوجائے تو دوسری شادی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ اسلام کے مطابق دوسری شادی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسلم رہنما پرسنل لاء پر تو سرکار سے ٹکرانے کو تیار ہیں لیکن مسلم سماج کی ان کمیوں کو دور کرنے کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں یہ فکر ہے کہ غیر مسلم خواتین جس تکلیف میں زندگی گزاررہی ہیں اس سے انہیں نکالنے کیلئے مہم چلائیں ۔

اسی طرح ملک گندگی اور آلودگی کے مسئلہ سے پریشان ہے۔ اسلام نے صفائی سے آگے بڑھ کر طہارت کی بات کی ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کو آگے آکر صفائی مہم کا حصہ بننا چاہئے تھا۔ گندگی سے پیدا ہورہی بیماریاں سب کو متاثر کررہی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان خود اپنے محلہ اور گلیاں صاف رکھنے پر توجہ نہیں دے پارہے ہیں تووہ ملک سے گندگی کو دور کرنے کی بات کیسے کریں گے۔ جبکہ ہماری ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہر اچھے کام میں مسلمانوں کو آگے رہنا چاہئے۔ کیوں کہ یہ ان کاحق ہے۔

ملک اخلاقی بیماریوں سے بری طرح متاثر ہے۔ کرپشن، جھوٹ، دھوکہ، وعدہ خلافی، عدم رواداری اور نہ جانے کس کس طرح کی خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ان اخلاقی بیماریوں سے ملک کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن مسلم سماج خود ان برائیوں سے دوچار ہے۔ کئی بارتو لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ کرپشن اس ملک کیلئے نعمت ہے ۔اگر کرپشن نہ ہو تو لوگوں کا کام ہی نہیں ہوگا۔ اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔

برسوں سے مسلمان بھی ان تمام برائیوں میں مبتلا ہیں جن سے دوسرے سماج  دوچار رہے ہیں ۔ اونچ نیچ، ذات پات، بڑا چھوٹا، دولت کی پوجا، عورتوں ،لڑکیوں کے ساتھ امتیاز، جہیز، جھوٹ، دھوکہ، وعدہ خلافی، شراب نوشی وغیرہ۔ اسی لئے ہماری نگاہ میں وہ چمک نہیں جو لوگوں کا دل بدل دے۔ ہماری دعا میں وہ اثر نہیں جو قسمت بدل دے۔ اسی لئے ملک ایسے لوگوں کو تلاش کررہا ہے جو خیر کی طرف بلانے والے ہوں ۔ اس رمضان میں اگر یہ عہد کریں کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی گزاریں گے، خود بھی برائیوں سے بچیں گے اوراپنے سماج کو بھی برائیوں سے بچائیں گے توآپ کا یہ عمل دیش میں عزت واحترام  میں اضافہ کاسبب بنے گا اورآخرت میں نجات کا ذریعہ۔ دنیا میں ہمیشہ دینے والے کی قدر ہوتی ہے مانگنے والے کی نہیں تو کیوں نہ ہم ملک کو اچھائیوں کی سوغات دینے والے بنیں ۔

تبصرے بند ہیں۔