کہکشاں کی انجمن میں جیسے ہو ماہ تمام

محمد رابع نورانی بدری

 (استاذ دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف، سدھارتھ نگر، یوپی)

  چمنستان اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا کے گل سرسبد حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری علیہ الرحمہ کی شخصیت دنیائے اسلام کے لئے محتاج تعارف نہیں، آپ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت وہمہ گیرتھی، اپنے عہد اور ملک بلکہ کہہ لیجئے کہ پورے عالم اسلام پرآپ نے اپنے کارناموں کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں کہ آپ کے تذکرے کے بغیرہرتاریخ ناقص وناتمام رہے گی، آپ نے ہر شعبہائے حیات سے تعلق رکھنے والے بے شمارافراد کومتاثرکیا، اورنہ صرف یہ کہ اپنے عہد کومنور وتاباں کیابلکہ آپ کے زریں کارناموں سے صدیاں منوررہیں گی، یقیناآپ اس عہد کی شناخت ہیں، تاریخ میں آپ اس دور کی علامت وپہچان کے طورپر یاد رکھے جائیں گے، ایسے افراد صدیوں گزرنے کے بعد رونما ہوتے ہیں جو اپنے زریں خدمات اور فقید المثال کارناموں کی بنیاد پر اپنی تاریخ خود رقم کرتے ہیں۔

آپ بلااختلاف عالمی شخصیت تھے، آپ کا نام دنیا کی پانچ سو موثرترین شخصیت میں شامل ہے اور دنیا بھر کے پچاس طاقتور ترین مسلمانوں میں سے ایک مانا گیا تھا اور اس فہرست میں آپ کوبایئسواں مقام حاصل تھا۔

 حضرت تاج الشریعہ کے آباؤ اجداد نے وہ خدمات اور قربانیاں پیش کیں ہیں کہ بر صغیر کا ہر مسلمان، ان حضرات کا احسان شناس اورشکرگزار ہے اور ان کو لائق صد تعظیم وتکریم سمجھتا ہے، ان عظیم نسبتوں اور خاندانی خدمات کے علاوہ، خودتاج الشریعہ کی ذات میں اللہ تعالی نے بہت سے کمالات واوصاف ودیعت کر رکھے تھے، آپ میں صلاحیت وصالحیت، خشیت وللہیت، تقوی وپرہیز گاری، تواضع وانکساری، شگفتہ مزاجی، ، صبر وتحمل، علم وفضل اور فہم وفراست بدرجہ اتم موجود تھی، بلا شبہ آپ افکاراما م احمد رضاکے سچے ترجمان تھے، آج آپ کے رخصت ہوجانے پرہر کوئی اظہار افسوس کررہا ہے۔

جس بھی جلسہ، وجلوس سیمناروکانفرنس میں آپ طلوع اجلال فرماتے تو شمع انجمن آپ ہی ہوتے تھے، ہرجگہ علماء ومشائخ کی بھیڑمیں آپ بدر کامل کی حیثیت سے نمایاں رہتے تھے، علماء اور مشائخ آپ کو ایسے گھیرے رہتے تھے جیسے پروانے شمع کو گھیرے رہتے ہیں، آپ مرجع عوام تو تھے ہی اس سے بڑھ کر مرجع خواص ومرکز علماء ومشائخ واساطین امت بھی تھے، اللہ تعالی نے آپ کو وہ مقام ومرتبہ دیا تھا کہ ہند وبیرون ہند سے ارباب علم ودانش واصحاب فضل وکمال آپ کی زیارت، آپ سے علمی استفادہ، علم حدیث کی سند واجازت کے لیے بریلی شریف کاشانۂ تاج الشریعہ پر حاضر ہوتے تھے۔

آپ۲۴/ذی القعدہ ۱۳۶۲ ؁ھ کو محلہ سوداگران بریلی شریف کی سرزمین پر پیدا ہوے، چار سال چار ماہ چار دن کی عمر ہوئی تو والد گرامی مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی علیہ الرحمہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی اور دارالعلوم منظر اسلام کے تمام طلبہ و اساتذہ کو دعوت دی، حضور مفتی اعظم ہند سے رسم بسم اللہ شریف ادا کرائی، اس طرح تعلیم کا آغاز ہوا، دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے درس نظامی کی تکمیل کی، علوم عقلیہ نقلیہ سے فراغت کے بعد تحقیق کے لیے جامعہ ازہر مصر تشریف لے گے اوروہاں آپ نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا، مسلسل تین سال تک جامعہ ازہر مصر کے فن تفسیر وحدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا، دوسرے سال کے سالانہ امتحان میں آپ نے شرکت کی اور پورے جامعہ ازہر قاہرہ میں امتحان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی، وہاں رہ کر آپ نے علم حدیث و تفسیر اور فقہ و اصول فقہ میں مہارت تامہ حاصل کی، آپ کے اساتذہ کرام میں شہزادۂ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہندعلامہ مصطفیٰ رضاخاں نوری، بحر العلوم حضرت علامہ مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری، مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی، حضرت علامہ محمد سماحی، جامعہ ازہر قاہرہ، حضرت علامہ محمود عبدالغفار، استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت، حضرت علامہ محمد ریحان رضا رحمانی، اور استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی رحمھم اللہ تعالی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

تعلیم سے فراغت کے بعددارالعلوم منظر اسلام بریلی میں درس دینے کے لیے پیشکش کی گئی، آپ نے اس دعوت کو قبول کیا، اور گیارہ سال اس ادارے میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر اسی ادارے میں آپ کو صدر المدرسین کے اعلیٰ عہدہ پرفائز کیاگیا، اورآپ نے ایک عرصہ تک اس عہدے کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا، مگر بے پناہ مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، اسی طرح آپ کے کاندھوں پر رضوی دارالافتا کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی، اس طرح آپ اس دار الافتا کے صدر مفتی کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے، اور یہ سلسلہ تادم حیات جاری رہا۔

۶/ذی القعدہ ۱۴۳۹ ؁ھ مطابق ۲۰/جولائی ۲۰۱۸ ؁ ء کوآپ کا انتقال ہوگیا، یوں تو ہر شخص کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا ہے، لیکن ایسی باکمال ہستی کا اُٹھ جانا اس دورقحط الرجال بہت بڑا سانحہ ہے، عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان اور عظیم خسارہ ہے، آپ کے انتقال سے صرف ہندوستان کے مسلمان ہی سوگوار نہیں بلکہ پورے عالم اسلام رنج و غم کا ماحول ہے۔

مفتی اعظم کا ذرہ کیا بنا اختر رضا

محفل انجم میں اختر دوسرا ملتا نہیں

اخیرمیں بس یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو غریق رحمت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اعلی علین میں جگہ عطافرمائے آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔