کہیں یہ ہماری منافقت کی سزا تو نہیں؟

ابوزنیرہ

آج جب ہندوستان کے حالات پر ہم غور کریں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے جیسے یہ اللہ کا عذاب ہے جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے ۔لیکن سوال اٹھتا ہے کے وہ کونسا عمل ھے جس سے اللہ ہم سے اتنا ناراض ہے کہ ہماری دعائیں , ھماری سب تدبیریں رائیگاں جارہی ہیں ۔ہمارے آنسوں بے قیمت ہوگئے ہیں۔
جب ہم اس عذاب کی وجہ کو قرآن میں ڈھونڈتے ہیں تو قرآن ہم سے کہتا ہے کے نفاق ایسا جرم عظیم ھے جس پر اللہ سب سے زیادہ اپنے بندوں پر ناراض ھوتا ھے۔

مرض نفاق چاہے فرد میں ھو یا معاشرے میں یہ اللہ کے غضب کو آواز دے کررہتا ھے۔نفاق کی سزا آخرت میں تو جہنم کا نچلا درجہ ھے ہی لیکن دنیا میں بھی اسکی سزا سوائے ذلت اور خواری کے کچھ نہیں ۔نفاق تو نام ہی قول و عمل کے تضاد کا ہے ۔اور اللہ نے اسی عمل کی مذمت سورہ صف میں یوںکی اور فرمایا.

“اے لوگون جو ایمان لائے ھو ،تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ھے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں“۔
بنی اسرائیل میں جہاں عقیدہ کی خرابیاں تھیں وہیں انکا ایک جرم عظیم نفاق عملی بھی تھا جس کی وجہ سے بنی اسرائیل ہ کے نزدیک مغضوب ٹھہری۔
قرآن نے انکی عملی نفاق کو یون بیان کیا کہ وہ اللہ سے محبت کا دعوہ کرتے تھے لیکن سبت کے دن کی حرمت کو بھی پامال کرتے ۔ اللہ سے ہدایت کی دعائیں مانگتے لیکن جب اللہ انکی ہدایت کے لیے نبیوں کو بھیجتا تو یہ لوگ انکے قتل کے درپہ ہوجاتے۔وہ اللہ سے قیادت کا سوال کرتے کے اس قائد کی سربراہی میں وہ اپنے مخالفین سے لڑیں اور اپنی خوئی ہوئی شوکت حاصل کریں لیکن جب اللہ ان میں کوئی قائد بجھتا تو اسکی مخالفت کرنے لگتے ۔اللہ نے انکو انکے اس جرم کی سزا یہ دی کہ انھیں ہمیشہ کےلیے رسوا اور خوار کردیا۔

کیا آج ہندوستانی مسلمانوں کا حال بنی اسرائیل کی طرح نہیں ھوگیا کیا ھم اللہ سے محبت کے دعویدار ھوکر بھی اللہ کی نافرمانیوں میں نہیں لگے ھوے ہیں ۔انہوں نے سبت کے قانون کو حیلوں سے توڑا کیا وہی سارے حیلے آج ہم استعمال کرکے اللہ کے قانون کو نہیں توڑ رہے۔کیا سود کو حلال کرنے کےلیئے اب ہم بہانے نہیں کرتے کیا زنا اور زانی دونوں ھمارے یہان اتنے ہی معتوب ٹھرے جتنے پہلے تھے۔

کیا ہم اللہ سے صبح شام ہدایت کی دعائیں نہیں کرتے لیکن اللہ کی بیجھی ھوئی ہدایت کاملہ جو قرآن کی شکل ہم میں موجود ھے . ہم اسسے ہدایت حاصل کرنے تیار نہیں ۔قرآن کے ساتھ ہم مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو یہودیون نے اپنی ہدایات کے ساتھ کیا تھا ۔

ہم بھی اللہ سے آج کسی قائد کے لیے دعا گو ھے (اور اس معاملے میں تو شاید یہودی ھم سے کچھ بہتر ہی ہیں کے وہ اللہ سے کسی قائد کی دعا تو کرتے تھے لیکن ہم تو غیروں کی قیادت میں ہی خوش ہیں ) اور جب اللہ ہم میں وہ قیادت بھیجتا ھے تو ہم خود ھی اس میں خامیاں نکالنے لگتے ہیں ۔اور یہود کی طرح ہم بھی اپنی قیادت کو مجروح اور غیر معتبر قرار دیتے ہیں.

کیا ایسی منافقانہ اعمال کے ساتھ ہم اللہ سے عزت اور عروج کے امیدوار ہیں۔اللہ نے غلبہ اور کامرانی کا وعدہ مومنین سے کیا ھے منافقین سے نہیں۔
اگر آج بھی ہم خود کو دنیا اور آخرت میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے قول وعمل کے تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔