کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

 ممتاز میر
انسان بلا شبہ اشرف المخلوقات ہے مگر ساتھ ہی خدائے بزرگ و برتر کی پیچیدہ ترین مخلوق بھی ۔کسی جیوتشی کی بساط کیا ہم خود اپنے تعلق سے دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کل یا اگلے لمحے ہم کیا کریں گے۔ماہیت قلب کسی بھی وقت ممکن ہے ۔اور یہ تو وہ زمانہ ہے جس کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ شام کا مومن صبح کا کافرہوگااور صبح کا کافر شام کو مومن ہوگا۔
ڈاکٹر عابدالرحمٰن بڑے مشہور لکھاری ہیں۔ہر ہفتے ان کا کوئی نہ کوئی مضمون کسی نہ کسی اخبار میں نظر سے گزرتا ہی ہے ۔اب تک کے مضامین
دیکھ کر ہم یہ سمجھنے لگے تھے کہ ہماری طرح محترم عابدالرحمٰن بھی موجودہ حکومتوں کو ظالم اور عوام کو خصوصاً اقلیتوں کو مظلوم سمجھتے ہیں۔مگر گذشتہ اتوار(27نومبر) کو ان کا جو مضمون ’’نوٹ بندی اور ہم ‘‘ مختلف اخبارات میں شائع ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومتیں تو ٹھیک ہیں اقلتیں خصوصاً مسلمان ہی غلط ہیں ۔مسلمانوں مین شاید ہی کوئی لکھاری ہوجو مسلمانوں کی خامیوں کا انکار کرتا ہو ۔مگر کسی کی خامیوں کی بنا پر اس پر ظلم کا جواز پیدا کرناہماری سمجھ کے باہر ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ مضمون کے جن نکات پر ہمیں اعتراض ہے وہ ہم یہاں نقل کئے دیتے ہیں۔(1)پہلے تو ہمیں ہر قومی و بین الاقوامی معاملات میں اہنے خلاف سازش کی بو سونگھنے کی عادت ہے ۔(2)ایسے اداروں کا حساب کتاب عام ہونے اور اور ان کے ذریعے قوم کی
ذکوٰۃ اور چندے کی کالابازاری کے عام ہونے پر قانونی شکنجہ کسے جانے پر ہمیں تکلیف کیوں ہو ؟الٹ یہ ہمارے لئے فائدے کا باعث ہے کہ اس سے ان کے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش ہو سکتا ہے اور قوم ان سے اپنی ذکوٰۃ روک کر اسے کسی ضروری مد میں خرچ کر سکتی ہے
(3)مانیٹرنگ کا خوف ان لوگوں کو ہو جو غیر قانونی کام کرتے ہیں۔حکومت اور ملک کے خلاف خفیہ سازش کرتے ہیں ۔نہ ہم کوئی غیر قانونی کام کرتے ہیں نہ ملک و حکومت کے خلاف کوئی سازش یا خفیہ منصوبہ بندی تو ہمیں مانیٹرنگ کا خوف کیوں ہو ؟
یہ تینوں نکات ہی نہیں بلکہ مضموں کی دیگر باتیں پڑھ کر بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈاکٹر صاحب نے نہیں بلکہ کسی معصوم بچے نے لکھا ہے ۔ڈاکٹر
صاحب کی باتوں کے جواب سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ مشہور پاکستانی صحافی جناب مسعود انور کے اسی دن شائع ہونے والے مضمون
امریکہ ۔۔ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی شکل ۔سے قارئین کے سامنے کچھ پیش کریں۔جناب مسعود انور ہمارے خیال میں محتاج تعارف نہیں ۔پاکستانی روزنامہ جسارت میں ان کے مضامین ہر ہفتہ شائع ہوتے ہیں ۔جناب انور چند سالوں سے اپنے ہر مضمون کا اختتام اس
جملے پر کرتے ہیں۔’’اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہوشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔۔جناب ڈاکٹر صاحب آپ کو یہ حق ہے کہ آپ اس پر یقین نہ کریں لیکن بالکل اسی طرح دوسرے کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اس وارننگ پر یقین کرے اور اس کے مطابق پلاننگ کرے ۔آپ کو برا لگتا ہے تو آنکھ کان بندرکھئے۔۔۔خیر ۔۔جناب مسعود انور اپنے مذکورہ مضمون میں رقمطراز ہیں کہ ’’ایک عالمگیر شیطانی حکومت میں فرد کے سارے حقوق سلب کر لئے جائیں گے اور فرد محض اور محض ریاست کا غلام ہوگا ۔۔۔فرد کا کیا حق ہے اور ریاست کا کیا فرض یہ مسائل عام فرد تودور کی بات ہے کرتا دھرتاؤں اور دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتے
۔۔۔ریاست کا بڑھتا ہوا کردار ہر شخص دیکھ رہا ہے(نہیں ۔ابھی ڈاکٹر جیسے لوگ زندہ ہیں جہاں میں۔م م)۔۔مثلاً ریاست عورت سے
پردے کا حق تو سلب کر لیتی ہے اور ساحل پر یا سوئمنگ پول پربکنی پہننے پر مجبور کرتی ہے ۔۔ریاست فرد کو بچے پیدا کرنے سے تو روکتی ہے
جو کے فرد کا بنیادی حق ہے مگر اسقاط حمل کے نام پر قتل کی اجازت دیتی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے ۔واضح رہے کہ اب8 ماہ تک کے
بچے کے قتل کو جائز قرار دے دیا گیا ہے ۔‘‘ہمیں لگتا ہے کہ عالمی شیطانی حکومت کی اصطلاح بھی ڈاکٹر صاحب کو پسند نہیں آئے گی کیونکہ شیطان کے نام کے ساتھ ہی ایمان والوں پر اس کا مقابلہ فرض ہو جاتا ہے ۔اور اس مقابلے سے بھاگنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا ہی انکار کردیا جائے۔۔۔ورنہ ہم کوئی بزدل ہیں کیا ۔
آگے انور صاحب نے شیطانی حکومت کی کئی طویل طویل مثالیں پیش کی ہیں۔ہم طوالت کے خوف سے صرف دو مثالیں چند جملوں نپٹاتے ہیں(1)امریکی ریاست منی سوٹا میں ایک شخص پر اسلئے کیس درج کیا گیا کہ اس نے اپنے فارم ہاؤس میں پاور کے حصول کے لئے ونڈ ٹربائن لگایا تھا۔انتظامیہ کا موقف یہ تھا کہ اس سے قدرتی پس منظر بگڑ رہا ہے۔عدالت کا موقف بھی انتظامیہ کی حمایت میں تھا
(2)مشی گن میں ایک لڑکی کو اسلئے عدالت میں طلب کرلیا گیا کہ وہ اپنے فرنٹ لان میں سے جھاڑ جھنکاڑ نکال کر سبزیوں کے پودے لگا رہی تھی۔مضمون میں اس طرح کے کئی واقعات دئے گئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اگر مزاحمت نہ کی گئی تو کس مزاج کی حکومتیں عوام پر مسلط
کی جائیں گی اور ڈاکٹر عابد جیسے دانشور یہی کہیں گے کہ حکومت کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے میں حرج کیا ہے؟یہی دیش بھگتی ہے
تم وہی کھا رہے ہو جو حکومت چاہتی ہے وہی پہن رہے جو حکومت نے تمھارے لئے پسند کیا ہے پھر زندگی میں بچا کیا ہے؟
محترم ڈاکٹر عابد صاحب کے مضمون کا جو پہلا نکتہ ہے اس تعلق سے ہم کہیں گے کہ کبھی امریکہ پر یہودیوں کی گرفت کو ہم بھی افسانہ ہی سمجھتے تھے مگر کچھ عرصہ پہلے جب امریکی سنیٹر پال فنڈلے کی کتاب پڑھی اور اس میں امریکی جاسوسی جہازUSS Liberty کی تباہی
کی داستان پڑھی تو ہماری آنکھیں کھل گئیں۔جہاز کا زندہ بچا عملہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نے ہمار جہاز خوب اچھی طرح جان کر پہچان کر
ڈبویا ہے اور امریکہ کا صدر کہتا ہے کہ یہ واقعہ غلطی سے ہوا۔
تمام انسانوں میں تمام صلاحیتیں یکساں نہیں ہوتیں۔کسی کی کوئی حس تیز ہوتی ہے تو کسی کوئی دوسری۔ممکن ہے ڈاکٹر صاحب کی سونگھنے کی حس تیز نہ ہو ۔ورنہ مومن تو روز اول سے یہ بات جانتے ہیں کہ یہودیوں کا ٹارگٹ اب آخری کتاب کی حامل قوم ہی ہوگی بھلے ہی وہ کتنی بے عمل بدکار ہو ۔ہم تو اس بات پر اپنے اسلاف سے نالاں رہتے ہیں کہ قرآنی انتباہات کے باوجود مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں یہودیوں کو فری ہینڈ کیوں دیا ،انھیں پھلنے پھولنے کا موقع کیوں دیا ؟انھیں تنگ کرکے کیوں نہیں رکھا گیا ؟آج بھی ہمارے شاہ ہی تو ہیں جو انھیں سپورٹ کئے ہوئے ہیںَجناب شیطان مومن کے خلاف سازش نہ کرے یہ آپ کے لئے تو ممکن ہوگا ہمارے نزدیک ممکن نہیں۔
جناب مسعود انور نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاس کی گئی17 قراردادوں کا متن دیا ہے ۔بڑی خوبصورت
قراردادیں ہیں مگر ان قرادادوں کی انھوں نے جو وضاحت کی ہے اس سے پاس کرنے والوں کی مکروہ نیت سامنے آتی ہے۔امید ہے ڈاکٹر صاحب کم سے کم یہ علم تو رکھتے ہونگے کہ بین السطور پڑھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
اب دوسرے اعتراض کو دیکھتے ہیں۔یہاں ہمارا سوال ڈاکتر صاحب سے یہ ہے کہ ندوہ اور دیوبند پر چھاپا کیوں مارا گیا تھا ؟ڈاکٹر ذاکر نائک کی IRF پر پابندی کیوں لگائی گئی ۔ڈاکٹر صاحب یہ بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ اب مدرسے والے خود غیر مسلمین کو اپنے یہاں مدعوکرتے ہیں۔تو کیا اب مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کا سلسلے ان پر چھاپوں کا سلسلہ بند کردیا جائے گا ؟اگر آپ کے حساب سے دیکھا جائے تو سب سے بہتر بات یہ ہے کہ مدرسوں کو سرکاری مدرسہ بورڈکے حوالے کر دیا جائے۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ڈاکٹر صاحب لگتا ہے پریشان خیالی یا منتشر خیالی آپ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔اس سے پہلے کے مضمون ’’نوٹ کرے گوٹ‘‘ میں ایک جگہ آپ لکھتے ہیں کہ نوٹ بندی سے ٹیکس چوری کرنے والوں کی دولت سب کے سب بینک میں جمع ہوجائیگی ۔’’جس سے قومی خسارہ کم ہوگاملک و قوم کا عوام کا فائدہ ہی ہے نقصان نہیں ہے اسلئے اس فیصلے کی حمایت کرنا چاہئے‘‘ہم تو کم علم ہیں مگر جانکار کہہ رہے ہیں کہ قدم مودی جی کے آقاؤں نے بینکوں میں جو گڑھے کئے ہیں وہ بھرنے کے لئے اٹھایا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے جیسے ہی بینک بھر جائیں گے دوبارہ ان کے آقاؤں کو لوٹنے کی اجازت دے دی جائے گی۔۔۔خیر ۔اسی مضمون میں کچھ ہی آگے چل کر آپ نے لکھا ہے ’’اس میں حکومت کی نیت بھی صاف نہیں ہے ۔بلکہ وہ عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ایں چہ بوالعجبی است۔
اب آئیے تیسرے اعتراض کی طرف ۔وہ لکھتے ہیں کہ مانیٹرنگ کا خوف ان لوگوں کو کیوں ہو جو نہ کوئی غیر قانونی کام کر رہے ہیں نہ ملک و حکومت کے خلاف کوئی سازش ۔جناب آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا علم کم ہے اور لکھنے کا شوق پال لیا ہے ۔1974 میں امریکہ میں ایک سکینڈل ہوا تھا واٹر گیٹ اسکینڈل۔صدر نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔کبھی فرصت ملے تو تلاش کرنا کہ یہ کیا ہے ؟محترم کا مانیٹرنگ کا یہ فرمان نہ دنیا کے مطابق ہے نہ اسلام کے نہ انسانی نفسیات کے ۔ان کو شاید یہ بھی یاد نہیں رہا کہ11؍9کے واقعے کے چند ماہ بعد امریکی حکومت نے ایک قانون بنایا تھا جس کا نام تھا USA Patiot act جس کی 10 شقیں تھی اور دوسری شق یہ تھی کے حکومت اپنے شہریوں کی مانیٹرنگ کرے گی اس پر اس زمانے میں امریکہ میں بھی اور امریکہ کے باہر بھی بہت ہنگامہ مچا تھا ۔ابھی دو سال پہلے سی آئی اے کے ایک ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی ادارے NSA کی لاکھوں فائلیں لیک کی تھیں ۔جس سے پتہ چلا تھا کہ امریکہ اپنے دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں پر بھی نظر رکھتا ہے اس پر جو ہنگامہ مچا تھا اس کی صفائیاں دینے کے لئے تمام امریکی اہلکار ملکوں کی خاک چھان رہے تھے
اور اب بیچارہ سنوڈن پناہ کی خاطر در در بھٹک رہا ہے ۔
درج بالا باتیں ہمارے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ہمارے لئے تو اسلام حرف آخر ہے ۔ڈاکٹر صاحب لگتا ہے آپ کا قرآن کا مطالعہ گہرا نہیں ہے۔اسلام اپنے شہریوں کی جاسوسی سے منع فرماتا ہے ۔سنئے اللہ تعالیٰ سورہء حجرات ۔11 میں کیا فرماتا ہے ۔اے لوگو!جو ایمان لائے ہو
بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔اور تجسس نہ کرو۔تاریخ اسلام میں حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے ۔ایک
مرتبہ حضرت عمرؓ حسب معمول رات میں گشت پر تھے۔انھیں ایک گھر سے گانے کی آواز سنائی دی ۔آپ کو کچھ شبہ ہوا ۔آپ دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے ۔دیکھا کہ گھر میں ایک شخص کے سامنے شراب بھی ہے اور شباب بھی۔آپ نے پکار کر کہا کہ اے دشمن خدا کیا تو سمجھتا تھا
کہ تواللہ کی نا فرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا ؟اس شخص نے فوراً جواب دیا کہ امیر المومنین جلدی نہ کیجئے ۔اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کئے ہیں ۔اللہ نے تجسس سے منع کیا ہے آپ نے تجسس کیا ۔اللہ نے حکم دیا ہے کہ گھروں میں ان کے
دروازوں سے آؤ آپ دیوار چڑھ کر آئے۔اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لئے بغیر نہ جاؤ
آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں۔حضرت عمرؓ اپنی غلطی مان گئے اور اس شخص پر کوئی حد جاری نہ کی ۔مگر یہ وعدہ لے لیاکہ وہ نیکی کی راہ اختیار کرے گا۔ایک اور حدیث بتاتی ہے کہ خود اپنے گھر میں بھی اطلاع؍اشارہ دئے بغیر داخل ہونے سے منع فرمایا ہے ۔ایک نوجوان جو کے اپنے گھر میں صرف اپنی ماں کے ساتھ رہتے تھے دوبارہ استفسار کیا توحضور ﷺ نے کہا کہ کیا تو اپنی ماں کو برہنہ دیکھنا چاہتا ہے ۔
مضمون کے آخر آخر میں جناب ڈاکٹر عابدالرحمٰن لکھتے ہیں’’نوٹ بندی کے اس سارے معاملے کا نشانہ اگر مسلمان ہیں تو اس طرح کہ
مسلمان اسے اپنے خلاف اقدام کہہ کرشور مچائیں اور اس سے دیش کی اکثیریت ہندو مسلم کی تفریق اور نفرت کی بنا پر مودی جی کے اس فیصلے کی حمایت میں کھڑی ہوجائے‘‘واہ ۔کیااندیشہ ہے۔یہ لکھنے کے لئے تمام ہندوستانی حکومتوں نے آپ کو بھارت رتن دینا چاہئے۔جناب یہی تووہ طرز استدلال ہے جس کی بنا پرآج تک کسی ہندوستانی حکومت نے فرقہ پرستوں کے خلاف ،ہندوانتہا پسندوں کے خلاف ۔ہندو
آتنکیوں کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہین لیا۔بقول آپ کے وہی ووٹ Polarisation کا ڈرہماری حکومتوں کو راج دھرم نبھانے سے روکتا ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے پرانے مضامین تو یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ حکومتیں ظالم ہیں جو اپنے یہاں کی اقلیتوں پر
ظلم کر رہی ہیں مگر ان کا زیر بحث مضمون سے یہ مفروضہ برآمد ہوتا ہے کہ حکومتیں تو ٹھیک ہیں ہم ہی میں خامیاں ہیں۔اگر خامیاں نہ ہو تو حکومت دست درازی کیوں کرے؟
ایں چہ بوالعجبی است

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔