کیا اس گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگے گی

حفیظ نعمانی

شاید پہلے روزہ کو جو مضمون ہم نے لکھا تھا اس میں نمازی مسلمانوں سے درخواست کی تھی کہ ہم سب کے اختیار میں یہ تو نہیں ہے کہ ہر حافظ قرآن کو اس بات پر آمادہ کرسکیں کہ وہ تراویح میں جب قرآن پڑھے تو اس طرح پڑھے کہ سننے والوں کی سمجھ میں بھی آجائے لیکن یہ تو ہوسکتا ہے کہ مسجد کے متولی صاحب یا کمیٹی ہو تو اس کے صدر سے درخواست کریں کہ آپ حافظ صاحب کو پابند کریں کہ اللہ کے کلام کو اس طرح پڑھا جائے جو اس کی عظمت کا تقاضہ ہے۔

یہ تو ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہمیں اپنی مسجد کی کمیٹی کے صدر صاحب کو اس کا جواب دینا پڑے گا کہ فلاں فلاں مسجدوں میں دو پارے اور ڈیڑھ پارہ پڑھا جارہا ہے اور اس کے نمازی 10  بجے سے پہلے گھر آجاتے ہیں اور ہماری مسجد میں 10:30  بجے ڈیڑھ پارہ ختم ہوتا ہے۔ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ اس محلہ میں آئے ہوئے ہمیں 14  برس ہوگئے ہم جب آئے تھے تو رمضان المبارک کی شاید 20  تاریخ تھی اکتوبر کا مہینہ تھا۔ مسجد میں چند دن تراویح سنی اور پھر عید آگئی۔ دوسرے سال کی فروری میں ہماری ٹانگ کا حادثہ پیش آیا اور ہم مسجد جانے سے ایسا معذور ہوئے کہ 13  برس گذر گئے۔ اس درمیان میں ہم نے اپنے بیٹوں سے جو پابندی سے مسجد جاتے بھی تھے اور مسجد کے معاملات اور اس کی ضرورتوں میں اس کے باوجود حصہ لیتے تھے کہ وہ نہ متولی تھے نہ ذمہ دار۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ مسجد کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے نہ کوئی دُکان نہ مکان بس نمازیوں کے چندہ پر اور صاحب حیثیت نمازیوں کی اس فکر پر کہ اللہ کے گھر میں کوئی کمی نہ ہو ہر کام ہورہا ہے۔

میں اپنی معذوری کی بناء پر اور تو کچھ کر نہیں سکتا تھا لیکن گھر بیٹھے بیٹھے اس کی تاکید کرتا تھا کہ رمضان میں سوا پارے سے زیادہ نہ پڑھا جائے اور 27  سے پہلے ختم نہ کیا جائے۔ یہ وہ بات تھی جو والد ماجد مولانا منظور نعمانی نے مجھے بچپن سے سکھائی تھی۔ نوجوانی میں ہمارا بھی جی چاہتا تھا کہ دو پارے روز پڑھیں اور 15  دن ہم بھی کبھی اس مسجد میں اور کبھی اس مسجد میں سنیں کہ کون کیسا پڑھ رہا ہے؟ لیکن پہلی تراویح سے لے کر جو بریلی کی مسجد میں پڑھیں پھر جب 1946 ء میں سب لکھنؤ آگئے تو گوئین روڈ پر ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کی مسجد میںکئی برس سنایا اس کے بعد جب احاطہ سلیمان قدر میں مکان لے لیا تو خواص کی مسجد میں تراویح پڑھائی پھر انڈے والی مسجد میں اور جب قیام بلوچپورہ میںہوگیا تو برسوں اکھاڑے والی مسجد میں سناتے رہے غرض کہ ہر جگہ والد پیچھے ہوتے تھے اور اگر جوانی کے جوش میں دو چار آیتیں بھی ذرا روانی سے پڑھ دیں تو والد نے دوسری رکعت کی نیت باندھنے سے پہلے دھیرے سے یہ ضرور فرما دیا کہ کیا کہیں جانا ہے؟ اور ہمارے بریک لگ جاتا تھا۔ اور زندگی میں ہم نے دو سال کو چھوڑکر ہمیشہ 27  کو ہی ختم کیا۔ وہی والد ماجد کی دی ہوئی تربیت تھی جس کے لئے ہم کہتے تھے کہ سوا پارہ پڑھوائو اور 27  کو ختم کرائو۔

یہ تو گذشتہ سال ہمارے چھوٹے بیٹے میاں ہارون نے ایک بہت آرام دہ گاڑی صرف اس لئے خریدی کہ اپنے ٹوٹے پھوٹے باپ کو سنبھل لے جائیں اور انہوں نے میری اور سنبھل کے تمام عزیزوں کی خواہش پوری کردی اور 335  کلومیٹر کا سفر بغیر درمیان میں رُکے سے ان کو یہ خیال آیا کہ رمضان شریف میں میں اپنے باپ کو مسجد لے جاسکتا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے کہا کہ گھر میں اکیلے پڑھنا کتنا مشکل ہے اسے میں ہی جانتا ہوں لیکن مسجد کے دو راستے ہیں اور دونوں طرف زینہ ہے۔ انہوںنے کہا میں نے اس کا انتظام کرلیا آپ ہمت کریں۔

اس طرح ہم گذشتہ سال دوسری تراویح کے لئے گئے اور لکڑی کے ایک مضبوط پلیٹ فارم سے وہیل چیئر آرام سے مسجد میں گئی اور واپس آگئی۔ 13  برس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ سوا پارہ تو پڑھا جاتا ہے لیکن وہی یالمون تالمون یعنی قرآن کے ساتھ ظلم۔ دوسرے دن میں نے حافظ صاحب اور ان کے والد کو بلایا جو عالم بھی ہیں اور میں جو کہہ سکتا تھا وہ کہا ان کے والد نے کہا کہ جب یہ کہا گیا کہ اگر قاریوں کی طرح پڑھوگے تو سب بھاگ جائیں گے تو میرے بیٹے نے جلدی پڑھنا شروع کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ پوری زندگی میں ایک بار بھی میں نے یہ گناہ نہیں کیا ہے اور اس کے گواہ ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کے خاندان کے لوگ بھی ہیں اور مولانا رابع اور مولانا واضح بھی جنہوں نے تکیہ کی مسجد میںمیرے پیچھے تراویح پڑھی ہے وہاں مولانا علی میاں کے حکم سے میں نے دو پارے یومیہ پڑھے اور 15  دن میں ختم کیا اور مولاناؒ کی دعائیں لے کر عید سے ایک دن پہلے لکھنؤ آیا۔

پھر میں نے دو رُکوع پڑھ کر سنائے اور کہا کہ والد ماجد نے زندگی میں جتنی بار بھی پڑھا اس سے زیادہ تیز پڑھنے کی اجازت نہیں دی اور میںنے ہی کہا کہ آج سے اسی طرح پڑھو گے جیسے میں نے پڑھا ہے۔ اگر سارے نمازی بھاگ جائیں گے تو میں خود میرے دو بیٹے دو پوتے مسجد کے بڑے امام محترم یونس صاحب اور موجودہ امام موجود رہیں گے۔ اور اگر ٹھیک پڑھنے سے مسجد خالی ہوجائے تو یہ گوارہ ہے۔ ہر مسلمان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ آج کی دنیا میں واحد کتاب قرآن عظیم ہی ایک کتاب ہے جسے پروردگار نے اپنی کتاب کہا ہے اور فرمایا کہ ہم نے اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ پھر یہ بھی بتادیا کہ ’وَرتّلِ القرآن ترتیلا‘ اور اسے خوب صاف صاف پڑھو۔ یہ دو باتیں اتنی اہم ہیں کہ اگر اس کی پابندی نہ کریں تو گناہگار ہوں گے۔ ربّ کریم کو معلوم تھا کہ تورات اور انجیل کی حفاظت نہیں ہوسکی اور اس میں ملاوٹ کردی گئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حفظ کرنے کا حکم دیا یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے دنیا میں کروڑوں حافظ ہیں۔ اب شیطان اس میں ملاوٹ میں تو ناکام ہوگیا لیکن اسنے دوسرا طریقہ اپنایا کہ اسے ایسے پڑھا جائے کہ وہ قرآن عظیم نہ معلوم ہو۔ یہ بیھ شیطان کی تعلیم ہے کہ رمضان میں بس ایک قرآن کے نام پر یالمون تالمون سن لو اور بخشش ہوجائے گی۔ جبکہ خدا کی قسم سب کو عبرت ناک سزا دی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے بعد حضرت جبرائیل ؑ نے پورا قرآن رفتہ رفتہ تھوڑا تھوڑا حضور اکرؐم کو پڑھایا اور یاد کرایا۔ حضور اکرؐم کس طرح پڑھتے تھے اس کی تفصیل ہم نے کل لکھی ہے آقا مولا ایک بار تہجد کے وقت مسجد میں تشریف لائے حضرت ابوبکرؓ بہت ہلکی آواز میں نفل میں قرآن پڑھ رہے تھے حضرت عمرؓ ان سے دور بہت بلند آواز میں پڑھ رہے تھے۔ صبح کو حضور اکرؐم نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ آواز ذرا بلند رکھا کرو اور حضرت عمرؓ سے فرمایا اپنی آواز ذرا کم کرکے پڑھا کرو۔ جس قرآن کے بارے میں آواز تک پر نظر رکھی جائے اس کے ساتھ یہ ذلیل حرکت کہ کوئی سننے والا یہ نہ سمجھ سکے کہ صحیح پڑھ رہا ہے یا غلط پڑھ رہاہے۔

صاف صاف بات یہ ہے کہ قرآن عظیم اللہ کی کتاب ہے دوسری تمام کتابوں کے بعد یہ کتاب اللہ تعالیٰ کو سب سے پیاری ہے۔ صرف اس کے بارے میں ہی کہا ہے کہ اس کی حفاظت ہم خود کریں گے 1500  برس سے زیادہ ہوگئے ایک نقطہ کا فرق نہیں ہوا اور جب خود پروردگار نے فرما دیا کہ اسے خوب صاف صاف پڑھو تو جو اس طرح پڑ ھے جو صاف نہ ہو یعنی سمجھ میں نہ آئے وہ قرآن عظیم اور اللہ کا نافرمان ہے اور جو حافظ سے جلدی پڑھنے کیلئے کہے وہ خود شیطان ہے کہ اللہ کے حکم کے خلاف کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ مسجد میں زیادہ وقت گذارنے سے کاروبار کا نقصان ہوگا وہ اللہ پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ ہم تمہیں ایسی جگہ سے دیں گے جہاں سے تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کے بعد یہ سمجھنا کہ کاروبار کا نفع نقصان ہمارے ہاتھ میںہے خدا کی قدرت کی کھلی مخالفت ہے۔ جس نے ایسا سوچا ہے وہ آج ہی توبہ کرے اور قرآن عظیم کے ساتھ وہ حرکت نہ کرے جو قرآن کے دشمن کرتے ہیں۔ اور قرآن کو تورات اور انجیل نہ بنائیں کہ اللہ کا عذاب آئے اور سب دوزخ میںجائیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ہم مسجد کے قانونی ذمہ دار نہیںہیں اور ہم یہ سوچ بھی نہیںسکتے تھے کہ ہم نے جو مسجد میںپڑھی جانے والی تراویح میں ’وَرتّلِ القرآن ترتیلا‘ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے خوب صاف صاف پڑھنے کے لئے حافظ عبدالتراب سے کہا ہے تو اس کے لئے ہمیںمسجد کی کمیٹی کے صدر صاحب سے اجازت لینا چاہئے تھی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے جو کیا وہ غلط کیا۔ اب اگر صدر صاحب کی یہی خواہش ہے کہ وہ بھی اپنی مسجد میں ڈیڑھ پارہ کسی حافظ سے پڑھواکر 9:30  بجے گھر چلے جائیں تو یہ ان کا حق ہے۔ ہم اپنے بچوں سے کہیں گے کہ وہ ندوہ میں جاکر تراویح پڑھیں اور ہم جیسے برسوں سے گھر میں پڑھتے تھے پڑھا کریں گے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ قیامت کے دن یہ مسجد اس کی جانماز اس کے در و دیوار اور اس کا مائک گواہی دیں کہ پروردگار تیرے قرآن عظیم کو بگاڑکر پڑھوانے والوں میں وہ حفیظ بھی تھا جس نے جیل میں بھی جہاں کوئی ٹوکنے والا نہیں تھا تراویح کی 20  رکعتوں میں تیرے حکم کے مطابق خوب صاف صاف پڑھا اور 27  ویں شب کو ہی ختم کیا۔

ایک اہم بات یہ محسوس کی ہے کہ تراویح کو لوگ نماز نہیں کوئی الگ چیز سمجھتے ہیں ہم نے نماز کے دوران نہیں دیکھا کہ کوئی آرہا ہے اور جارہا ہے۔ تراویح کی 20  رکعات نمازہیں مسجد کے وہ امام جو تراویح میںقرآن عظیم بھی سناتے ہیں وہ فرض نماز میں تو قرأت کی پابندی کرتے ہیں اور وہی جب تراویح میں قرآن پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ کوئی اور ہے اور نماز نہیں پڑھا رہا کچھ اور سنا رہا ہے۔ گھر گھر اب ٹی وی ہے نہیںتو موبائل ہیں سات مین شریفین کی دونوں مسجدوں میں جو امام صاحب نماز پڑھاتے ہیں وہی تراویح میںقرآن پاک پڑھتے ہیں وہ نماز اور تراویح کی قرأت میں صرف 20-19  کا فرق ہوتا ہے۔ ہمیں دونوں جگہ نماز اور تراویح پڑھنے کی توفیق ملی۔ لیکن ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں جگہ 39-19  کا فرق ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب کو بتایا جائے کہ فرض، واجب، سنت اور نفل میں ثواب کا فرق ہے لیکن یہ چاروں نماز ہیں اور ان میں فرق کرنا غلط ہے۔ امام کوئی ہو اسے تراویح نماز کی طرح پڑھانا چاہئے اور مقتدیوں کو نماز کی طرح پڑھنا چاہئے بعض جگہ تراویح میں قرآن کو اس طرح پڑھا جاتاہے کہ یہ کسی عالم سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ اس طرح قرآن سننے سے زیادہ گناہ ہوگا یا فلم دیکھنے سے زیادہ گناہ ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اردو گلشن ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب حفیظ نعمانی صاحب

تبصرے بند ہیں۔