کیا آتشِ اُلفت ہے بیاں ہو نہیں سکتا

افتخار راغبؔ

کیا آتشِ اُلفت ہے بیاں ہو نہیں سکتا

ہو جائیں گے ہم راکھ دھواں ہو نہیں سکتا

مٹھّی میں بھلا قید ہوئی ہے کبھی خوش بو

یہ رازِ محبّت ہے نہاں ہو نہیں سکتا

ٹوٹا ہے فلک یا کہیں ٹوٹا ہے کوئی دل

یوں ہی تو کہیں شورِ فغاں ہو نہیں سکتا

ملتے نہیں خوش بو بھرے خوش رنگ سے الفاظ

لفظوں میں تِرا روپ بیاں ہو نہیں سکتا

گھر کر گئے دل میں وہ کچھ اِس طرح سے راغبؔ

خالی کبھی اب دل کا مکاں ہو نہیں سکتا

تبصرے بند ہیں۔