کیا آصفہ بھی بھلا دی جائے گی؟

عبدالسلام ندوی

گزشتہ رات میں مختلف نیوز چینلز کے چکر لگا رہاتھا انگلش چینل نیوز۱۸((news 18پر حافظ سعید موضوع بحث بنے ہوئے تھے، سوچا ہندی چینلوں کا رخ کروں سب سے پہلے ذہن میں آج تک ((AAJ TAKکا خیال آیاجب اس پر پہنچا تو انجنا جی اپنے معروف ترش لب ولہجہ میں اے ٹی ایم مشین کی کنگالی پر ملک کے ارباب حل وعقدکو یکے بعد دیگرے کٹہرے میں لا رہی تھی، پر میری نگاہیں تو جنت نشاں کشمیر کے اس مسلے ہوئے پھول کو تلاش کررہی تھیں جو وحشی درندوں کی خونخار دبوچ کا شکار ہوا تھا، تھک ہار کر چھی نیوز پر پہنچا، واہ کیا عجیب ماجرا ہے انکا موضوع بحث تھا دیش بچاو یا دیش بھڑکاو، خیر جس نے پارلیمنٹ کی رکنیت کے بدلہ اپنے ضمیر کا سودا کرلیاہو اور جسکے رگ وپئے میں موہنی خون موج مارتا ہو اسے فرض شناسی واحساس ذمہ داری کی دہائی کیادینا، آگے بڑھا تو دیکھا کہ دیگر چینلوں کا بھی قریب قریب یہی حال تھا، یہ تماشا دیکھ کر اچانک میرے ذہن میں ایک خیال ابھر ا کہ کہیں بینکوں کا نظام اس لئے تو نہیں درہم برہم کیا گیاکہ خبر رساں ایجنسیوں اور اداروںکو ایک نیا موضوع بحث دے دیا جائے جیسا کہ حزب اقتدارکا سابق رویہ رہا ہے۔

 ابھی یہ خیال میرے ذہن و دماغ پر گردش کرہی رہاتھا کہ فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی مشہور اداکارہ ربینا ٹنڈن کا ایک انٹرویو یاد آگیاجس میں انہوں نے نربھیا کی والدہ سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا تھا، نربھیا کی والدہ نے انہیں بتایا کہ صرف چار دنوں تک سیاستداں، پولس افسران اورٹیلیویزن و اخبار سے تعلق رکھنے والوں نے انکے گھر کا دورہ کیا، اسکے بعد کسی نے انکی خبر تک لینے کی کوشش نہیں کی، اس خیال نے تو میرے وجود کو متزلزل کرکے رکھ دیا، دل میں عجیب عجیب سوالات اٹھنے شروع ہوگئے، کیا آصفہ کے لئے ایک بھی تاسف کا اظہار کرنے والا نہیں رہیگا؟کیا اس ننھی کلی کا خون رائیگاں چلا جائیگا؟کیا ان وحشیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر لوگ چین وراحت کی نیند سوجائیں گے؟

ابھی حیرت واستعجاب کی اس امتزاجی کیفیت سے میں باہر نکلا بھی نہ تھا کہ کسی نے پیچھے سے آواز دی، جی ہاں! بھلادی جائیگی، زینب بھلادی گئی نہ، صرف زینب ہی کیا سورت کی گیارہ سالہ وہ معصوم جسکے نازک جسم پر بھیڑیوںکے دبوچ کے اسی سے زائد نشانات تھے، کس کو یاد ہے؟یہ سب چھوڑئیے راہل جی کے مطابق ۲۰۱۶ ؁ء میں ۱۹۶۷۵ خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا کتنوں کے نام یاد ہے لوگوں کو؟

یہ بھی لوگ بھول جائیں گے اور اگر نہ بھولیں توجبرا انکے دلوں سے اسے محو کیا جائیگااور ایسا مسئلہ کھڑا کیا جائیگا کہ لوگ انصاف کیلئے مارچ کرنے کے بجائے اے ٹی ایم مشین کے سامنے قطاروں میں نظر آئیں گے، آخر اپنی جان سے بھی عزیز کوئی دوسری چیز ہے؟اور قلمکاروں کو اپنی صلاحیتیں پروان چڑھانے کیلئے نئے نئے عناوین بھی تو چاہئے، کب تک ایک ہی گھسے پٹے موضوع پر اپنی صلاحیتیں جھونکتے رہیں گے۔ میں اسکی باتوں میں محو خیال تھا، جب پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہ بہت دور جاچکا تھا، کاش اس سے ملاقات ہوتی تو مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔