کیا حکومت بھی اب عدلیہ کو دے دی جائے؟

حفیظ نعمانی

بابا گرمیت رام رہیم کو اس مقام تک پہونچانے میں سب سے اہم کردار ہریانہ کی سرکاروں کا ہے۔ جب ہائی کورٹ نے اس خط کی بنیاد پر سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ نے سختی کے ساتھ مخالفت کی تھی۔ بات وہی ہے کہ ہر کسی کو الیکشن میں کامیابی کے لئے ووٹ چاہئے۔ اور اگر مداری کے پاس بھی پچاس ووٹ ہیں تو وہ قابل احترام ہے۔ گرمیت رام نام کے بنے ہوئے بابا کے ماننے والے کروڑوں ہیں ۔ یہ تو معلوم ہے کہ گنا کسی نے نہیں ہے لیکن کوئی پانچ کروڑ بتا رہا تھا کوئی چھ اور سات کروڑ۔ بہرحال یہ آج تک کہیں نہیں ہوا کہ جب 25  اگست کو عدالت نے اسے گناہگار مان لیا تو اس کی وہ فوج جس کا کوئی کمانڈر نہیں تھا مرنے مارنے پر اُتر آئی اور نہ جانے کتنوں نے آنکھوں دیکھا حال بتایا کہ پولیس آگے آگے بھاگ رہی تھی اور بابا کی فوج پیچھے پیچھے۔ جس ریاست کے وزیر اعلیٰ کی پولیس اتنی نامرد ہو اسے ایک دن اس عہدے پر رہنے کا حق نہیں ہے۔ اور وہ خود نہ ہٹے تو اسے ہٹا دینا چاہئے۔

ہریانہ کی سوراج انڈیا پارٹی کے کرتا دھرتا یوگیندر یادو نے منوہر لال کھٹر کی سرکار کو امن و قانون کے معاملہ میں پوری طرح ناکام رہنے کے الزام میں برطرف کرکے صدر راج لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے؟ جو وزیر اعظم ہیں وہ منوہر لال کے ساتھ کھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر منوہر لال کے زمانہ میں ہزار دو ہزار بھی مرجائیں تو وہ ان کو نہیں ہٹائیں گے اور اس لئے نہیں  ہٹائیں گے کہ ان کے پاس سب ایسے ہی ہیں کھرے سکے وہ کہاں سے لائیں ؟ یوگیندر یادو نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اس بابا کو غیربی جے پی حکومت والی ریاست کی جیل میں رکھا جائے۔ اس وقت جو کچھ عدالت نے کہا ہے تب اس پر عمل ہوگا لیکن جو ماحول آج ہے وہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ رہے گا اس کے بعد بابا کو ہر وہ چیز ملے گی جو وہ مانگے گا اور اگر دہلی یا ممبئی سے بھی منگوانا پڑی تو وہاں سے لاکر دی جائے گی۔

جیل کے محکمہ کا ایک وزیر بھی ہوتا ہے۔ لیکن جو بھی ہوتا ہے وہ اسے توہین سمجھتا ہے اس لئے کہ وہ جس صوبہ میں وزیر ہے اس کے بڑے شہروں میں ایک جیل ہوتی ہے۔ ہریانہ تو اُترپردیش کے چار شہروں کی برابر ہے اُترپردیش میں بھی جو جیل کا وزیر ہوتا ہے اس کے پاس بھی کوئی دوسرا محکمہ بھی ہوتا ہے۔ اور اترپردیش میں لکھنؤ کی جیل میں رہ کر ہم خود دیکھ چکے ہیں کہ جیل میں داخل ہونے سے پہلے صاحب حیثیت کے لئے انتظام شروع ہوجاتا ہے۔ وہ پہلی رات کو کسی کا مہمان بنا دیا جاتا ہے اور دوسرے دن سے اس کی فرمائش کا سامان آنے لگتا ہے۔ ہریانہ کی جس جیل میں بھی بابا گرمیت رام کو رکھیں گے وہ اس کے لئے ڈیرہ تو نہیں بن سکتا لیکن سونے کھانے اور پینے کے لئے اسے یہ کہنا نہیں پڑے گا کہ میں نے چائے مانگی تو مجھے چائے نہیں ملی۔ اور بات وزیر جیل کی نہیں وہ تو کوئی معمولی آدمی بھی ہوتا ہے جس بابا کے ہر وزیر نے پائوں چھوئے ہیں اور قدموں پر تھیلیاں رکھی ہیں وہ منوہر لال کھٹر ہی کیوں نہ ہوں وہ اسے ہر وہ چیز لاکر دیں گے جو وہ چاہے گا۔

اب تک جو کچھ بابا گرمیت نے کیا ہے یا اس کے آنے کے بعد جو کچھ ڈیرے میں نکلا ہے اور اب جو اس کے ستائے ہوئے سامنے آئیں گے ان کی وجہ سے اسے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے تو کوئی راحت اس لئے نہیں ملے گی کہ جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا اور کسی نہ کسی شکل میں بھگتا ہے کہ ہزاروں ٹرینیں کینسل، اس روٹ کی ہر بس کا چکا جام اور سڑکوں پر کرفیو جیسی کیفیت لیکن حکومت وہ ہریانہ کی ہو، پنجاب کی ہو یا مرکز کی وہ کیسے بھول سکے گی کہ وزیر اعظم نے خود اپنی تقریر میں اس کی تعریف کی تھی اور اپنے کو دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کا صدر کہنے والے امت شاہ بنفس نفیس اس کے دربار میں گئے تھے۔

آج کسی کو سنجے گاندھی کا ماننے والا کہا جائے تو وہ کہے گا کہ مجھے گالی دی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سب سنجے گاندھی کا کھیل ہے کہ جیتنے والا گھوڑا لائو اور پھر یہ نہ دیکھو کہ وہ گھوڑا سواروں کے قابل ہے یا تانگہ اور بگھی میں جوتنے کے قابل۔ وہ اتنے ووٹ لادے گا کہ حکومت بنوا دے گا۔ آج وزیر اعظم کے لئے یہ مسئلہ ان کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ انہوں نے ساکشی مہاراج کو جیتنے والا گھوڑا سمجھ کر ٹکٹ دے دیا۔ اب الیکشن کمشنر سے انہیں شکایت ہے کہ انہوں نے انگریزی میں خط بھیج دیا اور مہاراج ہندی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے۔ اور اب سی بی آئی عدالت کے جج نے جب بابا گرمیت کو بلاتکار کا گناہگار قرار دے دیا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ اور جو منھ میں آیا بکتے چلے گئے۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ اب صرف بابا نہیں ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں اور وہ توہین عدالت کررہے ہیں ۔ اب اپنی پسند پر مودی جی روئیں یا سینہ پیٹیں انہوں نے تو 2014 ء میں صرف یہ دیکھا کہ یہ جیتنے والا گھوڑا ہے اور یہ جیتنے والی گھوڑی ہے۔ آج انہیں اپنے گھوڑوں اور گھوڑیوں میں ایسے نہیں  ملتے جو وزیر بن کر حکومت چلا سکیں اور وہ اُما بھارتی اور اسمرتی ایرانی کو وزیر بنانے پر مجبور ہیں ۔

ہریانہ کا جیسا برا حال بابا کے بھکتوں نے کیا اس کی ذمہ داری ہریانہ کی حکومت پر ہے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیراعظم دونوں کو قوم سے معافی مانگنا چاہئے کہ پنجاب اور ہائی کورٹ کے محترم ججوں نے کہا ہے کہ صرف ووٹ کے لئے ریاست کو جلنے دیا اور سرکار نے بابا کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔ اسے عدالت کا عدم اعتماد کیوں نہ سمجھا جائے کہ جب فوج بلائی تھی تو اسے گولی چلانے کی اجازت کیوں نہیں دی اور جب دفعہ 144  لگائی تھی تو پانچ سے زیادہ آدمیوں کی جمع کیوں ہونے دیا؟ ہریانہ حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ جب بابا گرمیت کو عدالت جانے کے لئے دو گاڑیوں کی اجازت دی تھی تو دو سو گاڑیاں کیوں گئیں ؟ بابا کا بیگ سرکاری وکیل نے کیوں اُٹھایا وہ کون تھی جسے ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے دیا اور یہ کس کی ہمت تھی کہ جس نے آئی جی کے چانٹا مارا؟ وزیر اعلیٰ نے ہر ذمہ داری افسروں پر ڈالی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ افسر یہ سمجھتا ہے کہ آج عتاب میں ہے کل پھر وہ ڈیرہ میں ہوگا تو؟ گجرات کے ڈی جی ونجارہ نے جب خودسپردگی کی تو وہ ملزم تھے لیکن ہم نے خود دیکھا تھا کہ عدالت میں موجود پولیس والوں نے اسے سلوٹ کیا تھا۔ بابا کے معاملہ میں پھر ثابت ہوگیا کہ اگر ملک میں کچھ ہے تو وہ عدلیہ ہے حکومتیں تو نامرد تھیں اور آج بھی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔