عورت کا عروج سے زوال کا سفر

محمد خان مصباح الدین

عورت ماں بھی ہے،بہن بھی ہے، بیوی اوربیٹی بھی اورسماج میں زندگی گزارنے والی پرائی بھی،عورت سے یہ مرد کے رشتے ہیں ۔ ان سارے رشتوں کو عصمت اورعظمت کے دھاگہ میں قدرت نے گوتھ رکھاہے۔ مردکی زندگی کی بھلائی اورمستقبل کی تابانی اسی میں ہے کہ وہ اس دھاگہ کی عزت اورقدر کرے،ان رشتوں کااحترام کرے۔عورت بازار کی جنس نہیں ہے جہاں ”ہرمال ملے گا چھ آنے”کی صدائے پیہم کانوں سے ٹکرارہی ہو، یہ عورت کی قسمت اورعظمت ہے کہ وہ مرد کو زمین پر لانے کا ذریعہ بنی،مرد اس کی کھوکھ سے جنم لیتا ہے۔اس کی عظمت کا تقاضہ ہے کہ ہراونچی نگاہ اس کے سامنے نیچی رہے۔

قارئین کرام!

مرد نے عورت کی آزادی کے نعرے لگاکر بھی  عورت کا استحصال کیاہے۔آرٹ اورفن کے بہانہ بھی اس نے عورت کی عزت کو نیلام کیا ہے اسکی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ,جب عورت کو ترقی دی جاتی ہے تو یہ مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر انسانیت میں بد اخلاقی و بد نظمی کا طوفان کھڑا کر دیتی ہے، حیوانی خواہشات و جسمانی تسکین کے وقتی حصول کا آلہ بن جاتی ہے اور یوں عورت کی ترقی کے ساتھ ہی انسانیت کے گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر قدیم اقوام کی تہذیبوں پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی تنزلی کی وجہ یہ عورت ہی رہی ۔ یونانی تہذیب میں عورت کو آغاز میں ملکہ کی حیثیت حاصل تھی۔شریف یونانیوں کے ہاں پردے کا رواج تھا، زنان خانے مردان خانوں سے ملحق نہ تھے۔ نکاح کے ذریعے ایک عورت کا مرد سے وابستہ ہونا شرافت کا مرتبہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یونان خوب ترقی کے زینے پر قدم رکھ رہا تھے اور عورت سے جو پاکیزگی مطلوب تھی، مرد اس سے مستثنیٰ تھے۔ رفتہ رفتہ جب اہل یونان پر نفس پرستی اور شہوانیت کا غلبہ ہوا تو ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقے تک عورت کا کردارہر ایک کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ فلاسفر، شعراء ، اہل ادب، ماہرین فن اور اہل دانش طبقہ غرض یہ تمام سیارے اسی ایک آفتاب کے گرد طواف کرتے نظر آتے۔اس تہذیب میں جب آرٹ کو فروغ حاصل ہوا تو فحش لٹریچر، شہوت پرستی اور عریا ں نمونۂ آرٹ اس کی پہچان بن گئے۔ اخلاقی پستی اس عروج پر پہنچی کہ قحبہ خانے عبادت گاہ میں تبدیل ہو ئے اور فاحشہ عورتیں قابل پرستش بن گئیں اور زنا ترقی کر کے ایک مقدس مذہبی فعل کے مرتبے تک پہنچ گیا ۔ پھر تاریخ نے یہ شہادت دی کہ اس قوم کو دوبارہ کبھی عروج نسیب نہ ہوا۔

رومی تہذیب کی داستان بھی یونانیوں سے کچھ مختلف نہ رہی۔ آغاز میں عورت کو مرد کے زیر اثر رکھا گیا۔ عصمت و عفت کے الفاظ عورت کا معیار شرافت تھے۔ اس تہذیب میں عورت کو ماں کی حیثیت میں سب سے زیادہ عزت کا مستحق سمجھا گیا لیکن جب رومی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوئے عورت معاشی اعتبار سے آزاد و خود مختار ہو گئی او ر مرد مال دار عورتوں کے عملاََ غلام بن گئے ۔ پھر روم میں طلاق کی لین دین کوئی قابل شرم بات نہ رہی ، پھر عورتیں اپنی عمر کا حساب اپنے شوہروں کی تعداد سے لگاتی تھیں ۔ مرد و زن کے اخلاط کے لیے نکاح کی کارروائی بے معنی ہو گئی اور زنا ناقابل مذمت فعل بن گیا۔ جب اخلاقیات کے بند ٹوٹے تو عریانی ، شہوانیت اور فواحش کا سیلاب آیا اور فحش لٹریچر اور ننگی تصاویر گھر گھر کی زینت قرار پائیں حتیٰ کہ مرد وعورت کا یکجا غسل کرنا بھی ایک رواج بن گیا ۔یوں پوری رومی تہذیب اس سیلاب کی زد میں ایسی آئی کہ اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی۔

مسیحیت نے جب مغربی دنیا کو سہارا دیا تو عورت کو گناہ کی ماں اور بدی کی جر گردانا اور اسے مرد کے لیے جہنم کا دروازہ بنا دیا۔ پھر یہ عورت شیطان کی آلۂ کار بن گئی ۔ اس پست سوچ کا یہ نتیجہ نکلا کہ عورت اس معاشرے کے لیے قابل نفرت اور اچھوت ذات سے بھی ادنیٰ درجے کا کوئی گھناؤ نا وجود بن گیا۔

انسانیت نے جب عورت کو ایک طرف فحاشی و عریانی کا مجسمہ بنا کر اور دوسری طرف ہر برائی کی جڑ قرار دینے کا جرم کرنے کے بعد بھی جب اس معاملے میں اعتدال نہ پایا تو جدید یورپ میں شخصی آزادی کا نعرہ بلند کیا گیا جس کے تحت عورت کومعاشی ، معاشرتی اور تمدنی اعتبار سے مرد کے مساوی کھڑا کر دیا گیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ عورت خانگی زندگی کے ساتھ ساتھ دفتروں ، بازاروں ، کھیل کے میدانوں شراب و کباب کی محفلوں اور تفریحی مشاغل کا مرکز و محور بن گئی ۔ پھر اسے معاشی استقلال کے لیے مرد کے سہارے کی ضرورت نہ رہی۔ جب’’ خوش حال‘‘ زندگی گزارنے کے لیے اس کے پاس روپے کی بہتات اور جنسی تسکین کے حصول کے کھلے مواقع ہیں تو آخر کیوں وہ اپنے آپ کو ایک خاندانی زندگی کے حصار میں جکڑ دے۔؟کیوں اپنے اوپر اخلاقی و قانونی بندشیں عائد کرے؟پھر کیوں وہ آزاد شہوت رانی کا آسان ،پرلطف اور خوشنما راستہ چھوڑ کر قربانیوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ سر پر اٹھاتی پھرے؟ اس احساس نے مغربی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور پوری دنیا نے یہ دیکھا کہ کس طرح مغربی دنیا میں عورت ایک بکائو مال بن گئی۔ نمود و نمائش کے جذبے نے اسے بنائو سنگھار پر لگایا ۔پھر مخالف صنف کے لیے مقناطیس بننے کا جذبہ اتنا فروغ پایا کہ لباس میں شوخی اور مزاج میں مستی عود آئی اور دوسری طرف مرد کی طرف سے هل من مزید کا مطالبہ جاری رہا جو جذبات کی آگ کو مزید بھڑکانے کا موجب بنا۔ رہی سہی کسر فن و ادب کے دلدادہ افراد نے بے حیائی کے فروغ کے ذریعے پوری کردی۔

افراط و تفریط کی ان بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے اگر کوئی نسخۂ اعتدال ہے تو وہ اسلام کا تصور پردہ ہے جو عورت کو اس کے فطری تقاضوں کے مطابق تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن قسمت کی ستم ضریفی یہ ہے کہ یورپ کی ذہنی غلامی میں جکڑ جانے کے بعد مسلم معاشرے میں بھی پردہ کا مسئلہ ذاتی پسند و ناپسند کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ جو بحثیں آج مغربی دنیا میں کی جاتی ہیں اس کے کچھ مظاہر مسلم معاشرے میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں ۔ لہٰذا پردہ کے تصور سے متعلق ذہنی شبہات کا خاتمہ مسلم معاشرے کے لیے ناگزیر ہے

لفظ عورت کی تعریف کی جائے تو عورت اصطلاح میں جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جس کا ظاہر کرنا موجب شرم ہے۔ لہٰذا جس ذات کے معنی میں ہی شرم و حیا کا عنصر موجود ہو اسے کیوں کر تسکین نظر کا سامان بنا یا جا سکتا ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر اسلام میں عورت کے لیے پردہ کا تصور پیش کیا گیا ہے۔

یہ اہل مغرب مسلمان مردوں پر ، خواتین پر تشدد ، ناانصافی اور بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگانے کاالزام لگاتے ہیں ۔ پوری دنیا کو جھوٹے میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلامی ممالک میں عورتوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے لیکن اس کے بالکل برعکس مغرب میں عورت کو حاصل ہونے والی نام نہاد آزادی نے اس سے اس کے بنیادی حقوق تک صلب کر لیے ہیں اور عورت اس معاشرے میں کھلونا بن چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ہر سال ایک کروڑ 25لاکھ خواتین گھیرلو تشدد کاشکار ہوتی ہیں جبکہ 80ہزار خواتین کی ہر سال بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ویمن اینڈ فیڈریشن برطانیہ کے مطابق ہر ایک سو شادیوں میں سے ایک خاتوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جا تا ہے۔ قتل ہونے والی 40 سے 45 فیصد خواتین اپنے مرد ساتھیوں کا شکار بنتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مہذب ترین شہر لندن میں 80ہزار سے زائد خواتین طوائف کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔ اس میں 85 فیصد عورتیں جسمانی تشدد ، جبکہ45 فیصد جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔ ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور سوئڈن میں شادیوں کی تعداد میں 90فیصد کمی آئی ہے اور پیدا ہونے والے 70 فیصد بچے ناجائز پیدا ہوتے ہیں ۔ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری مرد ، بن بیاہی ماں کے گلے ڈال کر غائب ہوجاتا ہے اور ماووں کی اکثریت بچوں کو حکومت کے حوالے کر کے یا گلی کوچوں میں پھینک کر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو جاتی ہے۔

نام نہاد انسانی حقوق کا چیمپین امریکہ کا حال بھی کچھ کم نہیں کہ جہاں امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ہر ایک منٹ پر کسی نہ کسی امریکی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے جبکہ سالانہ 4 لاکھ سے 5لاکھ تک زیادتی کے مقدمات درج کروائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دوگنی تعداد ایسی ہے جو پولیس کے پاس جانے کے بجائے خاموش رہتی ہے یعنی امریکہ میں 12لاکھ سے 15 لاکھ تک عورتوں کی سالانہ آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی عمر بارہ سال سے کم ہوتی ہے۔ خود امریکہ کے اپنے سروے کے مطابق 60 سے70 فیصد خواتین کو ان کے شوہر جسمانی تشد د کا نشانہ بناتے ہیں ۔

قارئین کرام!

یہ ہے مغرب کی نام نہاد روشن خیالی اور آزادی کا بھیانک اور ڈراونا چہرہ جس کو تہذیب ، ادب اور ثقافت کا خوش نما لبادہ اڑھا کر مسلم دنیا پر مسلط کیا جا رہا ہے۔کیوں کہ دوسری طرف ان کی یہ جاہلیت پر مبنی تہذیب خود ان کے معاشرے میں بے چینی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں جب فطرت کے خلاف معاشرت پروان چڑھی تو سسکتی انسانیت کو کسی جائے پناہ کی ضرورت محسوس ہوئی اور انسانیت نے دین فطرت کی طرف رجوع کیا اور آج امریکہ و یورپ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ اسلام کی آغوش میں آکر اس مظلوم انسانیت کو ظلم و بربریت سے نجات ملی اور مسلسل بڑی تعداد میں مغربی خواتین اسلام کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔

آج دیکھا جائے تو ایمانی جذبہ سے سرشار امت مسلمہ کی با حجاب عزت مآب مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں اپنے کردار اور عمل سے یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ان کا آئیڈیل یورپ کی بد چلن، بد کردار اور شرم وحیاسے عاری ،بے باک مرد نما عورتیں نہیں بلکہ خدیجہ ؓ ، فاطمہ ؓ اور عائشہ ؓ جیسی باحیا ء وباکردارامہات المومنین اور صحابیات رسول ہیں کہ جن کو جنت کی خواتین قرار دیا گیا ہے اور ان کی پاکیزگی کا عالم یہ ہے کہ فرشتے بھی ان پر فخر کرتے ہیں ۔ان خواتین ِ اسلام میں کوئی خدیجہ بھی ہے ، کوئی عائشہ بھی ہے اوران ہی میں کوئی فاطمہ بھی ہے جو صرف ان ناموں کی نسبت کے سہارے زندگی نہیں گزار رہیں بلکہ ان کا عمل اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ روز محشر خواتین جنت کی صفوں میں شامل ہونا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔

امت مسلمہ ان مائوں کی طرف اس امید سے دیکھ رہی ہے کہ یہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں اور جتنی قوت اور تنظیم کے ساتھ اس برائی کو پھیلایا جا رہا ہے، اس سے بڑھ کر قوت مجتمع کر کے اس بے حیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھیں ۔ اس کے لیے عورت کو ہی اپنی ذات سے آغاز کرنا ہوگا۔

آج مغرب اپنی حرکتوں کا رونا رو رہا ہے اور ایک ہم ہیں جو انگی کندی تہذیب کو اپنی زندگ میں شامل کر کے اپنے آپ کو ماڈرن شمار کر رہے ہیں۔ اللہ ہمیں حاسدوں کے حسد اور باطل کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔