کیا حکومت کی نظر بھارتی ریزرو بینک کے ’ریزرو‘ پر ہے؟

رويش کمار

بھارتی ریزرو بینک کے ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے 2010 میں ارجنٹینا کے مالیاتی بحران کا حوالہ دیا کہ مرکزی بینک اور حکومت کے درمیان جب تنازعہ ہوا تو مرکزی بینک کے گورنرنے استعفی دے دیا اور پھر وہاں اقتصادی تباہی مچ گئی۔ ایک سمجھدار حکومت اپنے فوری سیاسی فوائد کے لیے ایک ایسی تنظیم کو کمزور نہیں کرے گی جو ملک کے دور رس مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل اور ڈپٹی گورنر این ایس وشوناتھ کے پبلک میں دیے گئے بیانات کو دیکھنا ہوگا۔ بلومبرگ ویب سائٹ پر اِرا دگل نے بتایا ہے کہ کم از کم چار موقعوں پر ریزرو بینک کے اعلی افسران پبلک کو صاف صاف اشارہ دے چکے ہیں کہ ریزرو بینک کے ’ریزرو‘ پر نظر ٹیڑھی کی جا رہی ہے۔

اس سال جب پنجاب نیشنل بینک کا قریب 13000 کروڑ کا گھوٹالہ سامنے آیا تب وزیر خزانہ کہنے لگے کہ بینکوں کے بہی كھاتے تو آڈیٹر اور ریگولیٹر دیکھتے ہیں، پھر کس طرح گھوٹالہ ہو گیا۔ اس کا جواب دیا ارجت پٹیل نے۔ مارچ میں گجرات لاء يونورسٹی کے ایک پروگرام میں کہا کہ بینکوں کو کنٹرول کرنے کے ہمارے حق انتہائی محدود ہیں، ہمیں مزید حق چاہیے۔ ہم بینکوں پر نگرانی تو کرتے ہیں لیکن حقیقی کنٹرول حکومت کا ہے کیونکہ سرکاری بینکوں میں 80 فیصد حصہ داری کی وجہ اسی کا کنٹرول ہوتا ہے۔ ارجت پٹیل نے گھوٹالے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ تب ارجت پٹیل کا ایک بیان مشہور ہوا تھا کہ وہ سسٹم کو صاف کرنے کے لیے نیل کنٹھ کی طرح زہر پینے کے لیے تیار ہیں اور اب وہ دن آ گیا ہے۔

میڈیا، اپوزیشن اور حکومت سب نے اس سخت بیان کو نوٹس نہیں کیا۔ چھاپنے کی خانہ پوری کی اور ملک رام مندر بنانے کی بحثوں میں مست ہو گیا۔ اپریل میں پونے کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ میں ڈپٹی گورنر این ایس وشوناتھن کی تقریر پر اكونومك ٹائمز کی سرخی غور کرنے کے قابل تھی۔ اخبار نے لکھا کہ ریزرو بینک نے اپنا دم دکھایا، امید ہے دم برقرار رہے گا۔ وشوناتھن نے کہا تھا کہ بینکوں کے لون کا صحیح اندازہ نہ کرنا بینک، حکومت اور بقایاداروں کو سوٹ کر رہا ہے۔ بینک اپنا بہی کھاتہ صاف ستھرا کر لیتے ہیں اور بقایا دار ڈفالٹر کا ٹیگ لگنے سے بچ جاتے ہیں۔

اس درمیان ایک اور واقعہ کو سمجھیے۔ 12 فروری کو ریزرو بینک ایک سرکلر جاری کر ان بینکوں کو اب اور بڑے قرض دینے پر روک لگا دیتا ہے، جن کا این پی اے متعین حدود سے آگے بڑھ چکا ہے۔ سرکلر کے مطابق اگر قرض دار لون کی ادائیگی میں ایک دن کی بھی تاخیر کرتا ہے تو اسے این پی اے قرار دے دیا جائے۔ لون سُلٹانے کے لیے صرف 180 دن کا وقت دے کر دیوالیہ قرار دینے کا کام شروع ہو جائے۔ اس سرکلر کو لے کر بزنس اخباروں میں حکومت، ریزرو بینک اور بڑے قرض داروں کے درمیان خوب خبریں چھپتی ہیں۔ ان خبروں سے لگتا ہے کہ حکومت ریزرو بینک پر دباؤ ڈال رہی ہے اور ریزرو بینک اس دباؤ کو جھٹک رہا ہے۔

ریزرو بینک کی اس سختی سے کئی کمپنیاں متاثر ہوئیں اوران میں بجلی کمپنیاں بہت زیادہ متاثر ہو گئیں۔ ان پر تقریبا ایک لاکھ کروڑ کا بقایا تھا اور یہ سرکلر تلوار کی طرح لٹک گیا۔ تب بجلی وزیر آر کے سنگھ نے پبلک میں بیان دیا تھا کہ ریزرو بینک کا یہ قدم غیر عملی ہے اور وہ اس میں تبدیلی کرے۔  پاور سیکٹر کی کمپنیاں کورٹ چلی گئیں۔ ریزرو بینک نے اپنے فیصلے کو نہیں بدلا۔ سپریم کورٹ سے پاور کمپنیوں کو راحت ملی ہے، مگر چند دنوں کی۔

اگست کے مہینے میں انڈین ایکسپریس میں خبر چھپتی ہے کہ ریزرو بینک 12 فروری کے سرکلر کے دائرے میں NBFC کو بھی لانے پر غور کر رہا ہے۔ اس وقت حکومت کی 12 غیر بینکاری مالیاتی کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے 16 مرکزی حکومت کی ہیں۔ اس وقت IL & FS کا معاملہ چل رہا ہے۔ ابھی اس پوائنٹ کو یہاں روکتے ہیں مگر آگے اس کا ذکرہوگا۔

13 اکتوبر کو ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ آئی آئی ٹی بمبئی میں ایک بار پھر اس سرکلر کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بینکوں پر لگام لگانے سے برے لون پر اثر پڑا ہے اور بینکوں کی حالت بگڑنے سے بچی ہے۔ اس لیے اس کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔

حکومت، کمپنیاں اور بینک اس سرکلر کے پیچھے پڑ گئے۔ اس سرکلر سے دس بیس بڑے بزنس مین ہی متاثر تھے کیونکہ دیوالیہ ہونے پر ان کی ساکھ مٹی میں مل جاتی۔ انہیں نیا قرض ملنا بند ہو گیا جس کی وجہ سے پرانے قرض کو ادا کرنے پر 18 فیصد کے قریب سود پر لون لینا پڑ رہا تھا۔ سپریم کورٹ کی مہلت بھی دو ماہ کی ہے۔ وہ گھڑی بھی قریب آرہی ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوا تو انہیں بینکوں کو تین چار لاکھ کروڑ ادا کرنے پڑیں گے۔ ان کی مدد تبھی ہو سکتی ہے جب ریزرو بینک اپنا سرکلر واپس لے۔

آپ جانتے ہیں کہ مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیمنٹ کی تجزیہ کمیٹی بینکوں کے این پی اے کی پڑتال کر رہی ہے۔ اس کمیٹی کو رگھو رام راجن نے 17 صفحات کا نوٹ بھیجا اور بتایا کہ انہوں نے کئی کمپنیوں کی فہرست وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت خزانہ کو دی تھی۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو لون نہیں چکا رہی ہیں اور لون کا حساب کتاب اِدھر اُدھر کرنے کے لیے فرضی واڑا کر رہی ہیں۔ اس کی جانچ کے لیے مختلف ایجنسیوں کی ضرورت ہے۔ ریزرو بینک اکیلے نہیں کر سکتا۔ دی وائر کے دھیرج مشر کی رپورٹ ہے کہ ریزرو بینک نے حق اطلاعات کے تحت اس کی معلومات کی تصدیق کی ہے کہ راجن نے اپنا خط 4 فروری 2015 کو وزیر اعظم کے دفتر کو بھیج دیا تھا۔ اس خط میں ان بقایا داروں کی فہرست تھی، جن کے خلاف راجن انکوائری چاہتے تھے۔ وزیر اعظم مودی یہی بتا دیں کہ راجن کی دی ہوئی فہرست پر کیا کارروائی ہوئی ہے۔

دی وائر پر ایم کے وینو نے لکھا ہے کہ پاور کمپنیوں کو لون دلانے کے لیے حکومت ریزرو بینک پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ کچھ کمپنیوں کے گروہ ریزرو بینک کے جھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ Ndtv کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہر سال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ریزرو بینک اس کے ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے درمیان گُل چھرے اڑا سکے۔ حکومت نے ایسا پبلک میں نہیں کہا ہے لیکن یہ ہوا تو ملک کی اقتصادیات کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ یہ بھی اشارہ جائے گا کہ حکومت کا خزانہ خالی ہو چکا ہے اور اسے ریزرو بینک کے ریزرو سے ہی امید ہے۔

اب آپ money control کی اس خبر پر غور کریں۔ آج ہی چھپی ہے۔ وزارت خزانہ کے تابع اقتصادی امور کے محکمہ (DEA) کو ڈر ہے کہ اگر غیر مالیاتی بینکاری اور ہاؤسنگ فائنانس کمپنیوں کو اضافی رقم نہیں ملی تو 6 ماہ کے اندر اندر یہ بھی لون ادا کرنے کی حالت میں نہیں رہیں گی۔ منی كٹرول نے اقتصادی معاملات کے سیکشن کے نوٹ کا بھی اسکرین شاٹ لگایا ہے۔ DEA نے لکھا ہے کہ مالی حالت اب بھی نازک ہے۔ اس کا اثر سنگین پڑنے والا ہے۔

حال ہی میں جب IL & FS نے لون ادا کرنے کی ڈیڈ لائن مس کی تھی تو بازار میں ہڑ کمپ مچ گیا تھا۔ یہ وہ ادارے ہیں جو بینکوں سے لے کر آگے لون دیتے ہیں۔ ریزرو بینک پر دباؤ اس لیے بھی ڈالا جا رہا ہے تاکہ وہ ان اداروں میں پیسے ڈالے اور یہاں سے مخصوص بزنس مین کو قرض ملنے لگے۔ مگر ریزرو بینک نے تو اگست میں ہی ان اداروں پر فروری کا سرکلر لاگو کرنے کی بات کہی تھی، لگتا ہے کہ اس معاملے میں ریزرو بینک نے اپنا قدم روک لیا ہے۔ تو ایسا نہیں ہے کہ دباؤ کام نہیں کر رہا ہے۔

NBFC / HFC کو دسمبر تک 2 لاکھ کروڑ کا بقایا چکانا ہے۔ اس کے بعد جنوری مارچ 2019 تک 2۔7 لاکھ کروڑ کے کمرشیل کاغذ اور نون کنورٹیبل ڈبیںچر کو بھی ادا کرنا ہے۔ مطلب چیلنجز ریزرو بینک کے ریزرو کو ہڑپ لینے سے بھی نہیں سنبھلنے والے ہیں۔ اس بات کو لے ریزرو بینک اور وزارت خزانہ کے اجلاس میں خوب ہنگامہ ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹ ہے کہ حکومت نے ریزرو بینک کے 83 سال کی تاریخ میں پہلی بار سیکشن 7 کا استعمال کرتے ہوئے ریزرو بینک کو ہدایت کی ہے۔ مگر بیان جاری کیا گیا ہے کہ وہ ریزرو بینک کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور اس کی خود مختاری کا بنا رہنا بہت ضروری ہے۔

ارجت پٹیل گورنر بنے رہ کر ریزرو بینک کی خود مختاری داؤ پر لگا سکتے ہیں یا استعفی دے کر اس کی خود مختاری کے سوال کو پبلک کے درمیان چھوڑ کر سکتے ہیں۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی بغیر نام لیے بار بار کہہ رہے ہیں کہ جو منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں ان کی جوابدہی ہوتی ہے، ریگولیٹر کی نہیں ہوتی ہے۔ اس بات پر تنقید کرتے ہوئے فنانشل ایکسپریس کے سنیل جین نے ایک اداریاتی مضمون لکھا ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ تمام پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کا مول یو پی اے کے دس سال کے راج میں 6 لاکھ کروڑ گھٹا مگر مودی حکومت کے پانچ سال سے کم وقت میں ہی 11 لاکھ کروڑ کم ہو گیا۔ کیا اس بنیاد پر عوام ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی؟ کہنے کا مطلب ہے کہ یہ سب انتخابی مسائل نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ان جواب دیہی اداروں کی خود مختاری سے ہی طے ہوتی ہے۔

ہر کسی کی یہی کوشش ہے کہ خبر کسی طرح مینج ہو جائے، مکمل طور پر مینج نہیں ہو پائے تو کوئی دوسری خبر ایسی ہو جو اس خبر سے بڑی ہو جائے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے بینکوں میں 20 فیصد اکاؤنٹ ایسے ہیں جن میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ زیرو بیلنس والے اکاؤنٹس کی تعداد سب سے زیادہ بھارت میں ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ۔ 48 فیصد اکاؤنٹس میں کوئی پیسہ نہیں ہے۔ وہ غیر فعال کھاتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے جن دھن یوجنا۔ حکومت نہیں مانتی ہے، مگر عوام تو جانتی ہے۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔