کیرالا میں اُردو صحافت

کے۔ پی۔ شمس الدین ترورکاڈ

جنوبی ہند میں کیرالا ایک ایسی ریاست ہے جہاں سب باشندوں کی بولی، سمجھی، لکھی اور پڑھی جانے والی زبان ’ملیالم‘ ہے۔ کیرالا میں ہندو، مسلم، عیسائی، بُدھ اور جین مذاہب کے لوگ یکساں طور پر ملیالم زبان استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ریاست میں اُردو زبان کی ترقی وترویج بے شک ایک معجزہ ہی ہو سکتی ہے۔

کیرالا میں اُردو کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔ ریاست کیرالا کسی زمانے میں ملابار، ٹراونکور اور کوچین کے نام سے تین صوبوں پر مشتمل تھی۔ ملابار سب سے بڑا صوبہ تھا۔ جنوبی ہند میں اس صوبے کی تاریخی وتہذیبی اہمیت قابل ذکر ہے۔         کیرالا میں اُردو کی ابتدا ایک اندازے کے مطابق سولہویں صدی عیسوی سے ہوتی ہے۔ کالی کٹ کے چالیام مقام پر ۱۵۳۰ ؁ ء میں پرتگالیوں کا تعمیرکردہ قلعہ فتح کرنے کے لیے یہاں کے راجا سامودِری نے بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت سے فوجی امداد کی درخواست کی۔ اس بنا پر عادل شاہی سلطنت کے ہزاروں کی تعداد میں سپاہی کالی کٹ آپہنچے۔ ۱۵۷۱ ؁ ء میں چالیام کے قلعہ پر فتح پانے کے بعد بیجاپور سے آئے فوجی اپنے خاندان سمیت یہیں مستقل قیام پذیر ہوگئے۔ ان کی مادری زبان دکنی اُردو تھی۔ اور تقریباً یہیں سے کیرالا میں اُردو کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان سپاہیوں کی بدولت اس زبان کے الفاظ ملیالم زبان میں شامل ہوتے چلے گئے اور آج بھی ملیالم زبان میں اُردو کے کئی الفاظ مستعمل ہے۔

 حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دور میں کیرالا میں اُردو زبان کی ترقی وترویج اعلیٰ پیمانے پر ہوئی ہے۔ ۱۷۵۷؁ ء میں پالگھاٹ کے حکمران سروپ کے گورنر اٹی کومبی اچھن کی فوجی امداد کی درخواست پر پہلی بار میسور فوج ملابار پہنچی۔ بعدازاں  ۱۷۶۶ ؁ ء میں حیدر علی نے ملابار پر حملہ کرکے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اور ۱۷۷۳ ؁ ء میں اپنی حکومت قائم کی۔ اور اس طرح کیرلا میں اُردو چاروں طرف پھیلی گئی۔ اُردو بولنے والے فوجی اپنے اہل وعیال سمیت کیرالا کے مختلف مقامات پر بس گئے تھے۔

  حیدر علی کے بعد ٹیپو سلطان ملابار کا حاکم ہوا۔ اس دور میں ملیالم اور عربی کے ساتھ ساتھ چند دینی مدارس میں اُردو کی تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ آہستہ آہستہ اُردو ادبی زبان کی حیثیت سے کیرالا میں پھلنے پھولنے لگی۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ زبان کی ترویج وترقی میں اخبار اور رسائل اہم رول ادا کرتے ہیں۔ مگر کیرالا سے کوئی اُردو اخبار یا رسالہ شایع نہیں ہوتا تھا۔ اُردو کے شیدائی میسور، بنگلور، حیدرآباد اور بمبئی سے شایع ہونے والے رسائل منگواکر پڑھا کرتے تھے۔

  جنوبی ہند کی اُردو صحافت پر نظر ڈالیں تو اُردو صحافت کا باقاعدہ آغاز  ۱۸۴۱ ؁ ء میں ’جامع الاخبار‘ کے اجرا سے ہوتا ہے۔ لیکن مولوی نصیرالدین ہاشمی کا کہنا یہ ہے کہ جنوبی ہند کا پہلا اُردو اخبار غالباً ’عمدۃ الاخبار‘ ہوگا۔ جس کا اجرا  ۱۷۹۶ ؁ ء  اور  ۱۸۰۲ ؁ ء  کے درمیاں ہوا تھا۔ مدراس یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر عبد الحق اپنے ایک تحقیقی مقالے میں ۱۸۴۸ ؁ ء میں شایع کیا گیا ’اعظم الاخبار‘ کو جنوبی ہند کا پہلا اُردو اخبار بتایا ہے۔

  اس موضوع پر جب عمیق سے تحقیق کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اُردو کا پہلا اخبار ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں شایع ہوا تھا۔ اس کا اجرا  ۱۷۹۴ ؁ ء میں ہوا۔ اس اخبار کا نام ’فوجی اخبار‘ تھا۔ یہ ہفتہ وار اُردو اخبار ٹیپو سلطان اپنی فوج کے لیے شائع کیا کرتے تھے۔ اس میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے والے اُردو اور فارسی کے اشعار بھی شایع کیے جاتے تھے۔ یہ اخبار کیرالا کے شاہی افواج کے ہاتھوں سے بھی گزرتا تھا۔ ملابار میں عوام کی دیکھ بھال کرنے اور چنگی وصول کرنے کی ذمّہ داری کونڈوٹی کے شاہ تھنگل کو سونپی گئی تھی۔ یہ بمبئی کے قریبی علاقے کلیان سے آئے ہوئے تھے۔ جو عربی، فارسی اور اُردو سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان اپنے سپاہیوں میں تقسیم کرنے کے لیے ’فوجی اخبار‘ شاہ تھنگل کے پاس بھجوایا کرتے تھے۔        کیرالا میں اُردو اخبار کی ابتدا دراصل یہیں شروع ہوتی ہے۔ ٹیپو سلطان کے بعد یہ ریاست انگریزوں کے قبضہ میں آئی۔ اس وقت یہاں اُردو اپنے عروج پرپہنچ رہی تھی۔ کیرالا میں خلافت کمیٹی کے رہنما الہلال، خلافت اور زمیندار جیسے اخبارات ورسائل منگواکر پڑھتے تھے۔ اور اسی کے ذریعے خلافت تحریک چلائی گئی اور لوگوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا گیا۔

۱۹۲۱ ؁ ء میں موپلا مسلمانوں کی شورش ملابار کی تاریخ کا سب سے اہم باب ہے۔ اس شورش کو انگریزوں نے بری طرح کچل کررکھ دیا تھا۔ یہاں کے دردناک حالات سے متاثر ہوکر پنجاب میں مقیم مشہور سنحی اور مال دار شخص مولانا عبد القادر قصوری نے اپنے ادارے ’جمعیت دعوت تبلیغ اسلام‘ کے زیر اہتمام کالی کٹ میں ایک یتیم خانہ قائم کیا۔ جو کہ کیرالا کا پہلا یتیم خانہ ہے۔ یتیم خانہ کے معتمد محی الدین قصوری (مولانا عبدالقادر قصوری کے فرزند) نے کیرالا کے حالات پر اخبار ’زمیندار‘ میں کئی مضامین لکھے۔ ملیالی لوگوں میں اُردو لکھنے والا کوئی نہ تھا۔ یہاں کے پہلے ملیالی اُردو قلمکار وکّم عبدالقادر مولوی صاحب تھے۔ ۵؍ فروری  ۱۹۲۳ ؁ ء  کے زمیندار اخبار میں مولوی صاحب کا مضمون ’مُسلمانِ ملابار کی دردناک فریاد‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔ مولوی صاحب کیرالا سے شائع ہونے والے ملیالم اخبار ’مُسلم‘ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ انہیں کی پیروی میں ملیالیوں میں اُردو مضامین لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ کیرالا میں اُردو صحافت تحریر کے حوالے سے باقاعدہ پہلی مرتبہ شروع ہوئی۔ اگست  ۱۹۳۱ ؁ ء میں ’زمیندار‘ اخبار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان نے پہلی بار ملابار کا دورہ کیا۔ ان دنوں تَلاشیری اُردو کا گہوارہ بن رہا تھا۔ تلاشیری کے مشہور سیاسی رہنما حاجی سیٹھ عبد الستار اور ان کے رفقائے کار کو ظفر علی خان نے اُردو کی ترویج واشاعت کے لیے ایک انجمن کی بنیاد ڈالنے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ چنانچہ  ۵؍ ستمبر  ۱۹۳۱ ؁ ء میں ’انجمن اصلاح اللسان‘ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کی زیر نگرانی ’چمن‘ نامی قلمی جریدہ بھی شایع ہونے لگا۔ جو صرف انجمن کی حد تک محدود تھا۔

  مولانا ظفر علی خان کے اصرار پر انجمن اصلاح اللسان کے تحت اعلاپائے کا ایک اُردو رسالہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انجمن اصلاح اللسان کے درخواست پر اس رسالے میں اشاعت کے لیے ’نارجیلستان‘ کے عنوان سے ایک نظم مولانا ظفر خان نے لکھ کر بھجوائی۔ اسی عنوان سے یہ رسالہ شایع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح کیرالا کا پہلا اُردو ادبی رسالہ ’نارجیلستان‘ اپریل  ۱۹۳۸؁ ء میں تلاشیری سے شایع ہوا۔ جس کے مالک سیٹھ عبد الکریم اختراور ایڈیٹر  سید ہارون صاحب تھے۔ نارجیلستان کے شایع ہونے سے تین سال قبل سیٹھ عبدالکریم اختر کا ایک مضمون ’ملابار اور اُردو زبان‘کے عنوان سے  ۵؍ اگست  ۱۹۳۵ ؁ ء کے ’الجمعیۃ‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ اخبار دہلی سے شائع ہوا تھا۔ نارجیلستان پانچ شمارے شائع ہونے کے بعد بند ہوگیا۔ اس کے بند ہو جانے سے کیرالا میں اُردو کے اشاعت پر بظاہر کوئی پر اثر نہیں پڑا۔ یہاں اُردو آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہی تھی۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں جب ’انجمن ترقی اُردو‘ کی شاخ قائم ہوئی تو کیرالا میں بھی ’انجمن ترقی اُردو‘ کی شاخ قائم کرنے کے لیے کوشش کی گئیں۔ اسی سلسلے میں  ۷؍  نومبر  ۱۹۴۳ ؁ ء کو کالی کٹ کے ٹاؤن ہال میں محبان اُردو کی جانب سے ایک اُردو کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے افتتاح کے لیے بابا اُردو مولوی عبد الحق کیرالا تشریف لائے تھے۔ اسی کانفرنس میں ’انجمن ترقی اُردو‘ ملابار شاخ کی بنیاد پڑی۔ لہٰذا انجمن کا ترجمان ’ہماری زبان‘ کیرالا میں بھی پہنچنے لگا۔ اس میں کیرلا کے تعلق سے مضامین شائع ہونے شروع ہوئے۔ کیرلا کے اوّلین موپلا اُردو شاعر سید محمد سرورؔ صاحب کیرالا کے تعلق سے مضامین لکھتے رہے۔

تقسیم ہند کے بعد اُردو پر جو مصیبت آن پڑی تھی اس کا اثر کیرالا پر بھی ہوا۔ چنانچہ یہاں پر بھی اُردو کی حالت بگڑنے لگی۔ ولاپٹنم عبداللہ، اسحٰق فقر اور ایس۔ ایم۔ سرورؔ وغیرہ کی کوششوں نے کیرالا میں بے جان ہوئی اُردو میں نئی روح پھونکیں۔ ان محبان اُردو کی بدولت  ۱۹۷۰ ؁ ء اور ۱۹۷۲ ؁ ء میں کیرالا کے سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں میں اُردو کی تعلیم کا انتظام شروع ہوا۔

  ۱۶؍ فروری  ۱۹۷۴ ؁ ء کو کیرالا کی واحد اُردو اساتذہ کی انجمن ’کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن‘ قائم ہوئی۔ جون  ۱۹۸۴ ؁ سے کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن کے ترجمان ’اُردو بلیٹن‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔ یہ سہ ماہی جریدہ تادم تحریر باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ تادم حال ’اُردو بلیٹن‘ کے ۶۲ شمارے شائع چکے ہیں۔ اس وقت اُردو بلیٹن کے ایڈیٹر کی ذمّہ داری مجھ خاکسار پر عاید ہے۔

  تلاشیری میں اُردو کے نیم مردہ جسم میں جان ڈالنے کے لیے انجمن اصلاح اللسان کی از سرِ نو تشکیل عمل میں آئی۔ اس کے زیر اہتمام اگست  ۱۹۸۸؁ ء کی ماہ نامہ نارجیلستان دوبارہ شایع کیا گیا۔ ایڈیٹر اسحٰق فقیر صاحب تھے۔ بدقسمتی سے اس کے ۹؍ شمارے شایع ہونے کے بعد یہ پھر سے بند ہوگیا۔

  اُردو کے ایک  جیالے کے۔ ٹی۔ سی۔ بیران صاحب نے  ۱۹۷۱ ؁ ء میں کالی کٹ کے چینامنگلور مقام پر اُردو کی ترقی وترویج کے لیے ’کیرالا اُردو پرچار سمیتی‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اسی کے زیر اہتمام جنوری  ۱۹۹۳ ؁ ء میں ’ملباری آواز‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار شائع کیا۔ ۲۱ شمارے شائع ہونے کے بعد ’ملباری آواز‘ نے بھی دم توڑ دیا۔ اس کے مالک ومدیر کے۔ ٹی۔ سی۔ بیران صاحب ہی تھے۔

    کیرالا کے ضلع ملاپرم کے ایک قصبے پُنرپہ سے بچوں کا ایک ماہ نامہ ’جھلک‘ کے عنوان سے شایع ہو رہا ہے۔ جھلک کے مالک جناب کُنجی محمد کوری منِّل اور اس کے مدیر کے فرائض ناچیز انجا دے رہا ہے۔ حالانکہ یہ رسالہ کل ۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اور گذشتہ جولائی  ۲۰۱۰ ؁ء سے باقاعدہ شائع ہورہاہے۔

کیرالا کے بیش تر دینی ادارے بعنوان اردو سالنامہ، خصوصی ضمیمہ، قلمی رسالہ اور قلمی جریدہ وغیرہ شائع کرتے ہیں۔ ملاپرم چماڈ کا دارالہدٰی اسلامک یونیورسٹی، کالی کٹ کے مرکز الثقافۃ السنّیۃ، پرنتھل منّا کے شانتاپورم اسلامیہ یونیورسٹی، یڈونّا میں جامعہ ندویہ، منجیری کے ویٹے کاڈ اسلامیہ کالج جیسے ادارے قابل ذکر ہیں۔

کیرالا میں اُردو صحافت کی کوئی جامع تاریخ تو نہیں ہے لیکن جنوبی ہند میں اُردو صحافت کی تاریخ میں کیرالا کا اپنا الگ مقام ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. Syed Salman Ahmed کہتے ہیں

    محترمی سلام اللہ علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
    آپ کا مضمون "کیرالا میں اردو صحافت” کے عنوان سے پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے کہ کیرالا میں بیٹھ کر کوئی شخص اتنی شستہ دہلوی انداز کی اردو لکھ سکتا ہے، آپ کے قلم کی روانی وجَولانی دونوں ہی قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید ہیں، میں شخصی طور پر آپ کی تحریر سے بہت متاثر ہوا، مجھے امید ہے کہ آپ کے ہاتھوں اردو کی ترقّی ایماء ومنشائے غیبی ہے.
    کیا آپ کے جملہ اردو اخبار ورسالے اپنے یوپی کے پتے پر منگوا سکتا ہوں اور ان کا سالانہ زرِ تعاون کتنا ہوگا، تحریر فرمادیں.
    والسلام
    یکے محبِّ اردو
    سید سلمان احمد

  2. عبدالرشید الرحمانی پیناڈ کہتے ہیں

    محترمی و مکرمی السلام اللہ علیکم ورحمتہ وبرکاتہ

    شمس الدین صاحب! آپ کا مضمون "کیرالا میں اردو صحافت” کے عنوان سے پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، آپ نے پوری دنیامیں کیرلا کا نام روشن کردیا۔
    ، آپ کے قلم کی روانی وجَولانی کا یہ نتیجہ ہے کہ اہل اردو حضرات بھی ایک ملیالی کے مضامین شوق سے پڑھتے ہیں۔ دعا گو ہوں کہ آپ کو اور اہل وعیال کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ خوش رکھے آمین

    یکے از محبان اردو (کیرلا)
    عبدالرشید الرحمانی پیناڈ
    رحمانیہ عربی کالج، کڈمیری، کالی کٹ

تبصرے بند ہیں۔