کیا خیبر ہمارا آخری موقع تھا؟

عزیز اعظمی 

چند دن پہلے فیس بک پر ایک فوٹو وائرل ہوا تھا جس میں کچھ  یہودی نوجوان یہ پلے کارڈ اٹھائے ٹورنٹو شہر میں مظاہرہ کر رہے تھے کہ’’ Khayber was your last chance’’   (خیبر تمہارا آخری موقع تھا۔

یہی مغروری لہجہ یہودیوں کا اس وقت بھی تھا جب غزوہ خیبر کا واقعہ پیش آیا، اور اسی طرح عسکری و اقتصادی طور پر اس وقت  بھی وہ مضبوط و مستحکم تھے جیسا کہ آج ہیں۔ وہ منصوبے اور سازشیں اس وقت بھی اسی طرح کرتے تھے جیسا کہ آج کرتے ہیں، وہ چودہ سو سال پہلے بھی  بھی مغلوب ہوئے تھے اور اب بھی ہونگے، لیکن اس وقت مسلمانوں کے حالات کچھ  مختلف تھے اور اب کچھ مختلف، ہمیں اپنا بھی جائزہ لینا ہوگا۔

جب میں نے فیس بک پر یہ پوسٹر دیکھا تو اپنے چند دوستوں سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو خیبر کیا ہے ؟؟  تو ان میں سے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ خیبر کیا ہے۔ اس وقت پلے کارڈ پر لکھے انکے یہ لفظ مجھ پر ہنس ہے رہے تھے اور طنز کررہے تھے کہ دیکھو!  یہودیوں  کی کوئی نسل غزوۃ خیبر کو آج تک نہیں بھولی، لیکن ہماری نسلیں اپنی اسلامی تاریخ اور فتوحات بھول گئیں، لیکن یہود {اسرائیل} کے نوجوانوں کو آج بھی پتہ ہے کہ خیبر کیا ہے۔ وہ اپنی تاریخ پڑھتے ہیں اور اس سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ پھر اس تاریخ کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ نہ ہم اپنی تاریخ پڑھتے ہیں اور نہ اسے جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کاش اگر آج  ہم نے بھی اپنی تاریخ کو پڑھا ہوتا، اس پر عمل کیا ہوتا، قران وحدیث کا مطالعہ کیا ہوتا اسکی آیتوں پر غور و خوض کیا ہوتا، رسول اللہ و صحابہ کرام  کے نقشہ قدم پر چل کر قرانی آیات پر تحقیق کرکے دنیا کی ترقی و ترویج  میں اہنا حصہ ڈالا ہوتا، دنیا کی ٹیکنالوجی اور ایجادات میں نمائندگی کی ہوتی، عسکری و اقتصادی طور پر خود کو مستحکم کیا ہوتا تو آج دنیا میں ہمارا مقام کچھ  اور ہوتا۔

نہ ہی مینمار ایسا ہوتا اور نہ ہی سیریا، نہ فلسطین میں کسی معذورکو جنگی میدان میں آنا پڑتا، اور نہ ہی کسی بیٹی کو گولی کھانی پڑتی،  پھر نہ کسی داڑھی پر پابندی ہوتی نا کسی حجاب پر، پھرنہ  بیت المقدس میں  کسی بستی بسانے کی ہمت ہوتی اور نہ سفارت خانہ بنانے کی حیثیت، پھر نہ کسی مسلمان کو دہشتگرد کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ملا اور کٹوا کہنے کی جرآت، پھر نہ کسی بھیڑ کو کسی کی داڑھی پکڑنے کی ہمت ہوتی اور نہ کسی کو ٹرین سے پھیکنے کی جرآت –

 لیکن افسوس کی ہم دنیاوی محاذ پر کمزور ثابت ہوئے اس دنیا کی ترقی وترویج میں نہ تو ہم نے  اپنی کوئی حصے داری ڈالی اور نہ ہی اسکی تعمیر نو میں کوئی کردار پیش کیا ، ہم ہر چیز کو پہلی نظر میں حرام و حلال کے چشمے سے دیکھتے رہے اور پھر اسکے عام ہونے پر اپنے فتوے اور جذبات کو اٹھائے اسکے پیچھے دوڑتے رہے۔ اور تقسیم در تقسیم، کمزور در کمزور ہوتے گئے،   آج دنیا ہماری تعلیمات ہمارے وسائل کو لیکر خلاء اور مریخ پر پہونچ گئی اور ہم زمین پر پڑے پڑے ہائے ہائے کرتے رہے –

اور جب دنیا نے چاروں طرف سے اپنے آپکو مضبوط کر لیا، ہمیں اپنی سوچ، اپنی مصنوعات اپنی ٹیکنالوجی کا اسیر بنا لیا، پھر یہودیوں کو یوروپ سے نکال کر اسرائیلیت کی بنیاد پر انکو خطہ عرب کا چودھری بنانے کے لئے انھیں فلسطین میں آباد کر دیا، آج اسرائیل فلسطین میں آباد ہونے کے بجائے کہیں یوروپ میں آباد ہوتا تو شاید خطہ عرب کا یہ حال نہ ہوتا جو آج ہے ،  داعش اور القائدہ کا وجود نہ ہوتا جیسا کہ فلمایا جا رہا ہے، پوری دنیا کا مسلمان دہشگرد نہ ہوتا کہ جیسا کہ پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ حالات یکسر مختلف ہوتے، لیکن اہل یوروپ کی عیاری اور مکاری نے آج دنیا کے سامنے ہماری ایسی شبیہ بنائی کہ مقتول بھی ہم، مظلوم بھی ہم، اسیر بھی ہم اور سارے فساد کی جڑ بھی ہم اور جو پوری دنیا کی فساد کی جڑ وہ سب سے امن پرست اور سب سے مہذب نہ اسکی بربریت پر کوئی سوال اٹھاتا ہے اور نہ اسکے ظلم پر کوئی آواز اٹھاتا ہے  ہندوستان سے لیکر امیریکہ تک، دنیا کے حالات اور تاریخ کے وسیع تناظر میں دیکھا جائے  تو دنیا میں طاقتور کسی قانون، ضابطے یا اخلاق کا پابند نہیں ہے۔

دنیا ایک نظام کے تحت چلتی ضرور ہے اور اس نظام میں انسانی جان و مال، عدل و انصاف، انسانیت کی تحفظ و بقا کی خاطر بڑے بڑے سلامتی ادارے، سلامتی کونسل، انسانی حقوق کی تنظمیں تو ہیں لیکن ان اداروں کی پاس داری انکے تقدس کا احترام  کہاں تک ہے اس پر دنیا بھلے ہی خاموش ہو لیکن چیختی انسانیت، تڑپتی معصومیت گواہی دیتی ہے کہ ان اداروں کا کردار محظ ایک باٹل پانی اور ایک پیکٹ کھانہ دینے کے سوا کچھ نہیں اگر ان اداروں کا کردار منصفانہ اور آمریت سے آزاد ہوتا تو دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی لیکن افسوس کہ وہ ادارے بھی انھیں کو تحفظ دیتے ہیں جو پہلے سے محفوظ ہیں، یہ ادارے محض جمہوریت کی حسین کتابوں میں درج ہیں لیکن اس پر قبضہ آمریت کا ہے، برسر اقتدار حکومتیں ملک اور دنیا کے کمزوروں پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے سلامتی اداروں کو اپنی جیب میں رکھ کر ظلم اور تشدد کی بدولت اپنا تسلط قائم رکھتی ہیں اورعالمی طاقتیں سلامی کونسل کو اپنی ٹائی کی ناٹ میں باندھ کر دنیا پر اپنا کنٹرول برقرا رکھتی ہیں، تسلط اور کنڑول کی اس پالیسی میں کمزور اور مظلوم بے موت مارا جاتا ہے –

 دنیا دور جاہلیت سے نکل کر جب مہذب اور تعلیم یافتہ ہوئی، زمین سے نکل چاند پر گئی، تلواروں اور برچھیوں سے نکل کر ایٹمی دنیا میں آئی اورغاصبانہ حملہ ناگزیر ہوگیا تو شاطرانہ انداز اپنا لیا گیا، بادشاہت کو نظام حکمرانی کا فرسودہ نظام کہ کر جمہوریی آزادی کا ایک ایسا سبز باغ دیھایا گویا کہ دنیا کی سای آزادی اور خوشحالی اسی نظام میں ہے اور اس فتنے کے تحت خط عرب پر حملہ کیا گیا  وہاں کے شہریوں کو ورغلایا گیا اور انکے مستحکم نظام کو حاکمانہ اورعامرانہ نظام کہ کر احتجاج کرایا گیا پھر انھیں آپس میں لڑاکر کمزور کیا گیا اور جب وہ تباہ و برباد ہوگئے تو انکے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا، لیبیا سے عراق تک، سیریا سے یمن تک انکی تباہی اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت سے بغاوت کر اپنی جانوں پر ظلم کیا کاش ان جذباتی لوگوں کو بھی دشمنوں کی چال اور انکے فتنے کو سمجھنے کی سمجھ ہوتی تو اس طرح بے گھر اورمظلوم نہ ہوتے۔ لیکن عربوں کی اس نا عاقبت اندیشی نے ایک ایسا فتنہ کھڑا کیا اور دشمنان اسلام کو ایسا موقع دیا جنھوں نے سیریا سے برما تک ظلم و بربریت، قتل وغارت گری، معصوم کی معصومیت، انکی مظلومیت، انکی تباہی و بربادی دیکھانے کے بجائے خود ساختہ داعش نامی دہشتگردی کو پوری دنیا میں دیکھا کر اسکے پسہ پردہ پورے خط عرب بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو عتاب کا شکار بنا دیا گیا۔

 آج میں طیب اردغان کی جیت پر اہل ترکی کو سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے باطل کو ناکام بناکر امت مسلمہ کو مزید کمزور ہونے سے بچا لیا۔ مسلم دنیا میں ترکی واحد وہ ملک ہے جو مسلمانوں کے دفعہ کے لئے ہمہ وقت کھڑا رہتا ہے اور ہماری آواز بنتا ہے۔ اللہ طیب اردغان کو سلامت رکھے اورسلطنت عثمانیہ کو زندہ رکھے جس میں قوم و ملت کی بقاء ہے۔

تبصرے بند ہیں۔