مسلم سلجوقی سلطنت کے بارے میں جاوید چوہدری کے  اعتراض اور ان کی اصل حقیقت

ڈاکٹر احید حسن

سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلاً اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد مشرقی عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی اور اس نے پہلی اور دوسری صلیبی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔

طغرل بے سلجوق کا پوتا تھا جب کہ چغری بیگ اس کا بھائی تھا جن کی زیر قیادت سلجوقیوں نے غزنوی سلطنت سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ابتداء میں سلجوقیوں کو محمود غزنوی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ خوارزم تک محدود ہوگئے لیکن طغرل اورچغری کی زیرقیادت انہوں نے 1028ء اور 1029ء میں مرو اور نیشاپور پر قبضہ کر لیا۔ان کے جانشینوں نے خراسان اور بلخ میں مزید علاقے فتح کئے اور 1037ء میں غزنی پر حملہ کیا۔ 1039ء میں جنگ دندانیقان میں انہوں نے غزنوی سلطنت کے بادشاہ مسعود اول کو شکست دے دی اور مسعود سلطنت کے تمام مغربی حصے سلجوقیوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھا۔ 1055ء میں طغرل نے بنی بویہ کی شیعہ سلطنت سے بغداد چھین لیا۔

اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط   اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔

الپ ارسلان اپنے چچا طغرل بیگ کے بعد سلجوقی سلطنت کے تخت پر بیٹھا اور اس نے 1064ء میں آرمینیا اور جارجیا کو سلطنت میں شامل کر لیا۔ وہ ایک بہت بیدار مغز اور بہادر حکمران تھا ۔ مشہور مدبر نظام الملک طوسی کو اپنے باپ چغری بیگ کی سفارش پر وزیر سلطنت مقرر کیا۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ پہلے ہرات اور ماوراء النہر کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ پھر فاطمی حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ کو اپنی قلمر و میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔ بازنطنیوں نے حملہ کیا تو 26 اگست 1071ء کو ملازکرد کے مقام پر ان کو عبرتناک شکست دی۔ اور قیصر روم رومانوس چہارم کو گرفتار کر لیا۔ قیصر روم نے نہ صرف تاوان جنگ ادا کیا اور خراج دینے پر رضامند ہوا۔ بلکہ اپنی بیٹی سلطان کے بیٹے سے بیاہ دی اور آرمینیا اور جارجیا کے علاقے اس کو دے دیئے۔

سلجوقی سلطنت کے سیاسی زوال کے آغاز اور ملک بھر میں پھیلی خانہ جنگی اور طوائف الملوکی سے مسلم امہ کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے والی آخری قوت کا بھی خاتمہ ہونے لگا تو اہلیان یورپ نے اس کو بھرپور موقع جانا اور بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینے کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ اس طرح اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش 200 سال مسلمانوں پر مسلط رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز پر یورپ سے بیت المقدس کے راستے میں عیسائیوں کا سب سے اولین ٹکراؤ اناطولیہ سلجوقی مسلمانوں کی حکومت سلاجقۂ روم سے ہوا۔ عیسائیوں نے پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ اس جنگ سے قبل ہی سلجوق فاطمیوں کے ہاتھوں فلسطین گنواچکے تھے۔

سلطنت وسیع ہوتی رہی لیکن 1086ء میں سلیمان کو شام کے سلجوق حکمران تتش اول نے انطاکیہ میں قتل کر دیا اور اس کے بیٹے قلج ارسلان کو قیدی بنا لیا۔ 1092ء میں ملک شاہ کی وفات کے بعد قلج ارسلان رہائی پا گیا اور اپنے والد کی سلطنت کو بحال کرتے ہوئے تمام علاقوں کو دوبارہ فتح کیا۔ بالآخر اسے 1097ء میں صلیبیوں کے ہاتھوں شکست ہو گئی جو فلسطین کو فتح کرنے کے لیے اناطولیہ کے راستے جا رہے تھے۔ حالانکہ قلج ارسلان نے صلیبیوں کو کئی جنگوں میں شکست دی اور ان کے ابتدائی لشکروں کو نیست و نابود کیا لیکن لاکھوں کے عظیم لشکروں کو شکست دینا اس کے بس کی بات نہ تھی لیکن قلج کی مزاحمت قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی ہمت و شجاعت کی علامت ہے اور اسی وجہ سے ترک قلج ارسلان کا نام بہت احترام سے یاد کرتے ہیں۔

1194ء میں سلجوقی سلطنت کے آخری چشم و چراغ طغرل سوم کی وفات کے بعد سلاجقہ روم اس خاندان کے واحد نمائندے کے طور پر بچے۔ غیاث الدین کیخسرو اول نے 1205ء میں قونیہ کو دوبارہ فتح کرکے خود کو سلطان قرار دیا۔ کیخسرو اور اس کے دو صاحبزادے عز الدین کیقاؤس اور عز الدین کیقباد اول کے دور میں سلاجقہ روم اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ کیخسرو کی سب سے بڑی کامیابی 1207ء میں بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع انطالیہ کی بندرگاہ پر قبضہ تھا۔ کیخسرو نے شمال میں سنوپ اور طربزون بھی فتح کیے لیکن 1218ء میں حلب میں صلاح الدین کے حق میں اسے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ کیقباد نے 1221ء سے 1225ء کے دوران بحیرۂ روم کے ساحلوں سے بازنطینیوں کا خاتمہ کر دیا۔ 1225ء میں اس نے بحیرۂ اسود کے پار کریمیا کی جانب بھی ایک مہم بھیجی اور فتح حاصل کی۔

نظامیہ یونیورسٹی سلجوقی سلطنت کے تحت ایران، عراق میں 1065 عیسوی میں قائم ہوئی۔ 1065 عیسوی میں خواجہ نظام الملک طوسیٰ نے نظامیہ طریقہ تعلیم کا آغازکیا۔ یہ تعلیمی نظام کا ایک منفرد سلسلہ تھا جو ایران کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا عراق کے شہر بغداد بھیج دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام تعلیم جامعہ فاطمتہ الزہرا کے مقابلے یا اس کو کم کرنے کے تصور کے ساتھ شروع ہوا۔ نظامیہ نظام تعلیم بہت مربوط طور پر شروع کیا گیا۔ اس یونیورسٹی کے نصاب میں اسلامی قوانین کے علاوہ 80 فیصد تک حصہ موجود رہا۔

سلجوقی سلطان ملک شاہ کا عہد سیاسی عروج، علمی ترقی اور دینی عظمت کے لحاظ سے بہت اہم تھا۔ اس کے عہد میں نہ صرف پورے دمشق کو سلجوقی حکومت میں شامل کر لیا گیا بلکہ ترکستان کو فتح کرکے خاقان چین سے بھی خراج وصول کیا گیا اور اسلامی جھنڈا ساحل شام تک لہرایا۔ اس کے عہد میں ہر جگہ فارغ البالی اور امن و عافیت تھی۔ تجارت اور صنعت کو فروغ حاصل تھا۔ راستے محفوظ تھا اور اس کا عہد ہر اعتبار سے سنہری کہلانے کا مستحق تھا۔ علمی ترقی، دینی عظمت، معاشی خوشحالی اور تمدنی عروج کسی جگہ کمی نہ تھی۔ وہ بلا کا شجاع اور بہادر تھا اور جہاں رخ کیا وہاں کامیابی حاصل کی۔ ہر دشمن کو زیر کیا اور سلجوقی حکومت کو وسعت دی۔

سلجوقی سلطان الپ ارسلان نے نظام الملک کی صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے وزارت کا منصب اس کے سپرد کر دیا۔ اس نے الپ ارسلان کے عہد میں ایسے جوہر دکھائے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ہزاروں شمعیں روشن ہوگئیں۔ اس نے ملک کو گوشے گوشے میں مدارس کا جال بچھا دیا اور سب سے بڑا اور اہم مدرسہ بغداد کا مدرسہ نظامیہ تھا جس کی تعمیر پر بے پناہ روپیہ صرف کیا گیا۔ اس کے علمی و ادبی کارناموں کی طویل فہرست کے ساتھ مذہبی اور دینی خدمات بھی بے شمار ہیں اور رفاہ عامہ کے کارنامے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔ اس کی تحریر کردہ کتاب "سیاست نامہ” کو انتہائی شہرت حاصل ہوئی اور اس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ یورپ کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔

سلجوق سلطنت کے دوران عمر خیام جیسے عظیم ماہر فلکیات اور امام غزالی جیسے عظیم فلسفہ پیدا ہوئے اور فارسی زبان نے ترقی کی اور تاریخ نویسی کی زبان قرار پائی۔ اسی دور میں اصفہان کی عظیم مسجد تعمیر کی گئی۔ انہی کے زیر سایہ  نظام الملک قرون وسطی کے عظیم ترین مسلم مدبرین میں سے ایک کے طور پہ سامنے آیا۔نظام الملک نے اپنی مشہور تصنیف "سیاست نامہ” میں سلطنت کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک جدید نظریے کی بنیاد رکھی اور سلطان کو نئے معنی سے مدلل کرنے کی کوشش کی۔ مصنف نے سلطنت کی ابتدا اور سلطان کے معنی پر بحث کی ہے۔یہ سلجوقی سلطنت کی وہ علمی کاروائیاں تھیں جن کی پوری دنیا معترف ہے سوا ہمارے لنڈے کے کچھ جاوید چودھری جیسے سیکولر دانشوروں کے۔

سلجوق سلطان الپ ارسلان نے اپنے مسلم ترک سرداروں کو اجازت دی تھی کہ وہ بازنطینی اناطولیہ یعنی عیسائی ترکی میں عیسائیوں کے خلاف جہاد کرکے اپنی الگ مسلم مرکزی سلجوق سلطنت کی وفادار ریاستیں قائم کریں۔ اس کا اثر تھا کہ موجودہ ترکی کا اکثر علاقہ قیصر روم کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے پاس آگیا۔ یہ سلطان کا عظیم کارنامہ تھا جس نے بعد میں سلطنت عثمانیہ اور موجودہ مسلم ترکی کے قیام کی راہ ہموار کی۔ لیکن مسلم تاریخ کے حقائق چھپانے والے سیکولر مصنفین اور دانشور کبھی یہ بیان نہیں کریں گے۔ صرف یہ بتائیں گے کہ کس طرح مسلمان اور سلجوق آپس میں لڑتے تھے۔نور الدین زنگی اوغوز ترک نسل سے تعلق رکھنے والا سلجوقیوں کے اتابکین سے ہی تھا جس نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے لیے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کرانے کی راہ ہموار کی اور شام اور مصر کو یورپی صلیبی عیسائیوں کی قتل و غارت اور قبضے  سے محفوظ کیا۔
جاوید چوہدری جیسے اسلامی تاریخ کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والے مؤرخین اور دانشور یہ تو بتاتے ہیں کہ سلجوق دیگر مسلمانوں کے ساتھ گتھم گتھا تھے لیکن وہ عوام کی نظر سے یہ حقیقت چھپا لیتے ہیں کہ یہی سلجوقی سلطنت ہی وہی سلطنت تھی جس نے مشرقی عالم اسلام کو تین سو سال بعد ایک مرکز پہ جمع کیا، یہی وہ مسلم سلطنت تھی جس نے عالم اسلام کی عظیم ترین سلطنت خلافت عثمانیہ اور موجودہ ترکی کے قیام کی راہ ہموار کی اور موجودہ ایشیائے کوچک اور ترکی کو مسلم حیثیت دی، بغداد کی خلافت عباسیہ کو بنی بویہ کے قبضے سے آزاد کرایا اور مشرقی عالم اسلام میں سائنس اور علم و دانش کو اس انداز میں ترقی دی جس کا نتیجہ اسلامی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات جیسا کہ عمر خیام، امام غزالی اور نظام الملک جیسی شخصیات کے ظہور پذیر ہونے کی صورت میں ہوا۔

جاوید چودھری جیسے نام نہاد دانشور جو اسلامی تاریخ پہ جھوٹ الزام لگاتے ہیں، یہ بھی کبھی آپ کو نہیں بتائیں گے۔ یہی وہ سلطنت تھی جس نے آرمینیا، جارجیا اور کریمیا میں اسلام کو دوبارہ متعارف کرایا۔ لیکن یہ بات بھی جاوید چوہدری جیسے نام نہاد دانشور  کبھی نہیں بیان کریں گے۔ یہ صرف آپ کو یہ بتائیں گے کہ باہمی جنگیں تھی( جو کہ تمام انسانی تاریخ میں دنیا کے ہر خاندان اور سلطنت میں موجود رہی ہیں اور صرف اسلامی تاریخ سے مخصوص نہیں، لیکن یہ ساری تاریخ بھلا کر صرف اسلامی تاریخ پہ اپنی سوچ کا گند ڈالنے کی کوشش کریں گے )، نہ ترقی تھی، نہ علم تھا، نہ سائنس تھی۔ ایسے نام نہاد کالم نگاروں پہ اندھا دھند یقین مت کیجئے۔ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور اس تاریخ کو جاننے کی کوشش کریں جو آپ کو موجودہ مصنفین اور کالم نگاروں کی جگہ مستند تاریخی ذرائع سے میسر ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ پہ لگائے جانے والے اعتراضات کا ثبوت مستند تاریخی ذرائع سے لازمی طلب کیجئے ورنہ آپ ہمیشہ تاریخ کے بارے میں ان مصنفین کی دھوکا دہی کا شکار رہیں گے۔

حوالہ جات:

https://www.britannica.com/topic/Seljuq
http://islamichistory.org/the-seljuk-turks/
Canby, Sheila R.; Beyazit, Deniz; Rugiadi, Martina; Peacock, A. C. S. (2016-04-27). Court and Cosmos: The Great Age of the Seljuqs. Metropolitan Museum of Art. ISBN 9781588395894.
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%AC%D9%88%D9%82%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA
Princeton, University. "Dhu’l Qa’da 463/ August 1071 The Battle of Malazkirt (Manzikert)”. Retrieved 2007-09-08.
Andre Wink, Al-Hind: The Making of the Indo-Islamic World, Vol.2, 16.
https://www.google.com/amp/s/www.express.pk/story/544675/%3famp=1?espv=1

تبصرے بند ہیں۔