پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

ڈاکٹر شکیل احمد خان

انیسویں صدی میں امریکہ کے کسی گائوں میں غبارے فروخت کرنے والاایک شخص بچوں کو راغب کرنے کے لئے مختلف رنگوں کے غباروں میں ہیلیم گیس بھر کر چھوڑ رہا تھا۔ اُس نے لال رنگ کے ایک غبارے کو چھوڑا اور غبارہ ہوا میں اُوپر اُڑنے لگا۔ پھر ایک نیلے غبارے کو چھوڑا ،  وہ بھی اوپر اڑنے لگا۔ پھر اِسی طرح ایک پیلے رنگ کے غبارے کو چھوڑا۔ قریب ہی ایک نیگرو (کالا) بچہ بھی کھڑا تھا  اس نے پوچھا، ’’ اگر تم ایک کالے رنگ کے غبارے میں بھی گیس بھر کر چھوڑوں گے تو کیا وہ بھی اِسی طرح اوپر اڑے گا ؟ ‘‘۔ غبارے والے نے بچے کو جو جواب دیا وہ آج ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اُس  نے کہا ’’ بالکل، کیو ں کہ اصل اہمیت غبارے کے رنگ کی نہیں بلکہ اس چیز کی ہے جو اس کے اندر ہے‘‘۔

Its not the colour of the baloon , but what’s inside that counts

دراصل وہ کالا بچہ خود میں اور کالے غبارے میں ایک قدرِ مشترک محسوس کرتے ہوئے یہ سمجھ رہا تھ کہ جس طرح وہ کالا نیگرو ہونے کے باعث کمتر اور حقیر ہے اسی طرح کالے رنگ کا غبارہ بھی دیگر غباروں سے کمتر اور ناکارہ ہوگا۔ کیو نکہ ان دنوں امریکہ میں کالے لوگوں کا استحصال کرنا اور انھیں حقارت سے دیکھنا عام سماجی رویہ تھا۔ لیکن غبارے والے نے سادگی میں جس حکمت کا  انکشاف کیا  اس میں اس بچے اور اس کی قوم کے لاکھوں بچوں کے لئے ایک سبق پوشیدہ تھا جواس قوم نے سمجھا۔ اورآج نتیجہ سامنے ہے۔ حال ہی میں امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ریسرچ  کے ایک ڈاٹا سروے میں افر یقی-امریکی نیگرو خواتین کو امریکا میں سب سے ذیادہ تعلیم یافتہ گروپ قرار دیا گیا ہے۔

لیکن کیا ہم بھی اس حقیقت کو سمجھ پا رہے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اوپر اٹھنے اور ترقی کرنے کے لئے ضرورت ظاہری بناوٹ، وضع قطع اور مکھوٹوں کی نہیں بلکہ باطنی خوبیوں کی ہوتی ہے۔ کسی چیز یا شخص کی قدر اس میں موجود خوبی یا صلاحیت کی بنیاد پر ہوتی ہے  نا کہ حلیے، زبانی دعوی اور کاغذی سندوں پر۔ ایک ترغیبی مقرر نے سو اور پانچ سو کے دو نئے کرارے نوٹ نکال کر سامعین سے پوچھا کہ وہ ان دونوں میں سے کون سا نوٹ لینا پسند کریں گے۔ تمام سامعین کا جواب تھا پانچ سو کا نوٹ۔ اب مقرر کے پانچ سو کے نوٹ کو مٹھی میں دبا کر تیڑھا  میڑھا کر دیا اور پھر وہی سوال دہرایا۔ اب بھی سامعین نے پانچ سو کے نوٹ کو ہی ترجیع دی۔ اب مقرر نے پانچ سو کے نوٹ کو زمین پر ڈال کر اپنے جوتے سے مسل کر گندہ کر دیا اور پھر اپنا سوال دہرایا۔ اب بھی سامعین نے ایک سو کے کرارے نوٹ کے بجائے کچلے ہوئے پانچ سو کے نوٹ کو ہی لینا پسند کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟  مقرر نے تشریح کی کہ گندہ ہونے کے باوجود پانچ سو کے نوٹ کی اندرونی خوبی ( Inner Value ) پانچ گنا زیادہ ہے اور دنیا میں اہمیت کا پیمانہ ویلیو ہے۔ ہماری اہمیت، کامیابی  اور ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے لئے کتنے  ویلیویبل و مفید ثابت ہو رہے ہیں ، کسی کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے کی ہم میں کتنی صلاحیت ہے،  نا کہ اس بات پرکہ ہم لمبے ہیں یا پست قد، گورے ہیں یا کالے، عورت ہیں یا مرد، گوشت کھاتے ہیں یا سبزی، تامل بولتے ہیں یا تیلگو ۔

اونچائیاں طے کرنے کا  دارومدار اس بات پر بھی نہیں ہوتا کہ آپ سکھ ہیں یا عیسائی، ہندو ہیں یا مسلمان، شعیہ ہیں یا سننی، دیوبندی ہیں یا بریلوی،  یا پھریہ کہ ہماری داڑھی کتنی لمبی ہے اور ہمارا پانجامہ کتنا  اونچا ، ہمارے سر پر ٹوپی ہے یا دستار۔ جسم، پہناوا، رنگ، نسل، جنس، مذہب، مسلک یہ سب ظاہری چیزیں ہیں ۔ جب کہ اہم چیز باطنی خوبی اور صلاحیت ہے۔ لہٰذا  اس دنیا میں عملًا اسے ہی قریب کیا جاتا ہے جو مفید اور کار آمد ہو۔ بیمار اسی ڈاکٹر کا انتخاب کرتا ہے جس میں بہترین صلاحیت ہو، پھر چاہے وہ دلت ہو یا براہمن۔ خربوز اور آم خریدتے وقت اسی پھل کو چنا جاتا ہے جو میٹھا اور لذیذ ہو، پھر چاہے دیکھنے میں وہ ہرا ہو یا پیلا، چھوٹا ہو یا بڑا، مقامی ہو یا امپورٹیڈ۔ کھیتی کے لیے وہی زمین خریدی جاتی ہے جس میں پانی ہو، پھر چاہے وہاں کتنا ہی جھاڑ جھنکاڑ اور ٹیلے ہوں ۔ سونے کی انگھوٹی تخفہ دی جائے تو یہ نہیں دیکھتے کہ جس ڈبی میں وہ رکھی ہے وہ مخملی ہے یا سادہ، خوبصورت ہے یا بھدی۔ یہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اصل اہمیت باطنی خوبی و صلاحیت کی ہے نا کہ ظاہری ساخت اور زبانی دعوں اور سندوں کی۔

ہمیں اور خصوصا نوجوانوں کو ان مثالوں کی معنویت کو سمجھنا ہو گا۔ اگرہمارے  اندر خوبی، صلاحیت و قابلیت کا جوہر ہوگا تو جسمانی نقص، جنسی بھید بھائو اور مذہبی تعصب کو بھی مات دی جا سکتی ہے۔ آج ضلع اجمیر کی خاتون کلکٹر کرتی ڈاگا  کا قد صرف تین فٹ ہے، دونو ں آنکھوں سے نابینا پرانجل لیہن سنگھ پاٹل کیرالہ کے ایرانکولم ضلع کی کلکٹر ہے،  ممتاز محمد قاضی ایشیا کی سب سے پہلی خاتون ڈیزیل انجن ریلوے ڈرائیور ہے اور شیخ انصار ملک کے سب سے کم عمر آئی اے ایس آفیسر۔ پس کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنی قابلیت اور ویلیو کو بڑھاتے رہنا ہو گا۔ صرف ظاہری رہن سہن اورپرجوش خطبات سے نہ تو دنیا  میں سرخروئی ممکن ہے نا آخرت میں ۔ ہمارے اکثر تعلیم یافتہ بے روزگاروں  کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ انکے پاس ظاہری ثبوت یعنی ڈگری تو ہوتی ہے لیکن اندرونی ویلیو یعنی قابلیت و اہلیت ندارد۔ با الفاظِ دیگر غبارہ تو بڑا  دلکش ہے پر اندر گیس ہی بھری نہیں ہے۔ اب یہ غبارہ  اڑے نہیں تو قصور کس کا ہے؟

 بے شک ہم  صبر آزماء دور سے گذر رہے ہیں۔ معاشی مندی، سیاسی جبر اور مذہبی تعصب کے کا سامنا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو دوگنی، تین گنی کرنا ہوگا۔ اپنی اندرونی صلاحیت اور ویلیو کو اتنا بڑھانا ہو گا کہ ہم دنیا کے لئے ناگزیر بن جائیں۔ قابلیت  پیداہو جائے توتعصب کی چٹانیں رفتار کم کر سکتی ہیں روک نہیں سکتی۔ لہٰذا  ہمارے نوجوان موجودہ سماجی اور سیاسی حالات سے ہرگز دلبر داشت نہ ہوں۔ یہ وقعتی صورتِ حال ہے جب کہ زندگی کی سچائیاں دائمی ہوتی ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوارمیں مختلف قوموں کو ان سے بھی ذیادہ  پر آزمائش حا لات سے گزرنا پڑا لیکن اپنی محنت اور قابلیت کو بنیاد بنا کر وہ ان سے ابھر آئے۔ ہم بھی ابھر سکتے ہیں، ہم بھی ابھریں گے۔ بس ضرورت ہے نئے عزم کے ساتھ قابلیت کے مشن کو شروع کرنے کی۔ بقول مجروح سلطان پوری:

دیکھ زنداں سے پرے، رنگِ چمن، جوشِ بہار

رقص کرنا ہے  تو پھر،  پائو ں کی  زنجیر   نہ دیکھ

تبصرے بند ہیں۔