کیا دفعہ 324 کی تلوار چلے گی؟

حفیظ نعمانی

            یہ بات آج کی نہیں کہ اترپردیش کانگریس کے صدر مسٹر راج ببر نے کہہ دیا کہ اگر ہماری حکومت بنی تو کسانوں کے تمام قرض معاف کردئے جائیں گے اور بجلی کا بل آدھا کردیا جائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن کانگریس کے ہر الیکشن کے انتخابی منشور اور اس کی پانچ سال کی کارکردگی کو دیکھے گا تو اسے ایک گھنٹہ نہیں لگے گا کہ وہ اس کا رجسٹریشن کینسل کردے گا۔

            اترپردیش کی حکومت کو ساڑھے چارسال سے زیادہ اور مرکزی حکومت کو دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں،  اگر الیکشن کمیشن دونوں کا جائزہ لے تو آئین کی دفعہ 324کے تحت دونوں کا رجسٹریشن ختم کردے گا،  اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دفعہ 324ہر قانون داں کے سامنے ہوگی لیکن آزادی کے 70 برس کے بعد پہلی بار ہائی کورٹ نے اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے،  اترپردیش کی حکومت نے تو اگر سب نہیں تو زیادہ تر دعوے پورا کرلیے اور اعلان کردیا کہ اس نے ہر وعدہ پورا کردیا۔ اب اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا کہ منشور کے مطابق کام ہوا یا نہیں؟

            رہی مرکزی حکومت تو اس کی تو کاپی کا ہر ورق سادہ ہے،  سوائے اس کے وہ ہندتو کو بڑھاوا دے گی،  بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ دن دن کے اندر وہ چار لاکھ کروڑ بلیک منی جو دوسرے ملکوں میں پڑی ہے اسے واپس لے آئے گی اور عوام میں بانٹ دے گی،  یہ ایسا وعدہ تھا جس پر ہر جاہل گنوار اور کم عقل آدمی نے بھروسہ کرلیا تھا اور ہر سمجھ دار آدمی نے یہ سمجھا تھا کہ یہ ووٹ لینے کا حربہ ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ مہنگائی ختم ہوجائے گی اور اچھے دن آئیں گے۔ اس پر سب نے یقین کرلیا تھا کہ چیزوں کو ذخیرہ کرنا اورمہنگا کرکے فروخت کرنا جن کے ہاتھ میں ہے وہ سب بی جے پی کے لوگ ہیں،  ایک بہت اہم وعدہ کیا تھا کہ پارلیمنٹ میں جتنے داغی ممبر ہیں وہ سب ایک سال کے اندر جیل میں ہوں گے اور ایسے کسی آدمی کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا جس پر قانون کی نظر ہو۔ لیکن اس کا تو بالکل ہی الٹا ہوا کہ بی جے پی کے قومی صدر وہ ہیں جو ضمانت پر ہیں اوریوپی کے صدر گیارہ مقدموں میں ماخوذ ہیں۔

            ایک بہت اہم بات یہ کہی تھی کہ ملک کو پاک صاف رکھنا ہوگا اور اس کے لیے وزیر اعظم نے خود بھی جھاڑو لگائی اور ہر کسی کو جھاڑو تھما دی اورا علان کردیا کہ اگر ہم نہ چاہیں تو دنیا کا کوئی ملک نہیں ہے جو ہمارے ملک کو گندہ کردے۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم نے ماں گنگا سے اپنے جذباتی رشتہ کا ذکر کیا،  اس کا جو صفائی بجٹ ہے اس میں دوسو کروڑ کا اضافہ کیا اور وہ جو اپنا سوٹ ساڑھے چار کروڑ روپے میں نیلام کیا تھا وہ ساری رقم بھی ماں گنگا کی صفائی کے لیے دے دی۔

            حکومت کے سربراہ وزیر اعظم مودی صاحب نے ایسے گائوں کو جو بد حال ہیں ا ن کے بارے میں فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ کا ہرممبر ہر سال ایک گائوں کو گود لے گا اور اسے بنا سنوار کر انسانوں کے لیے سبق بنا دے گا۔ اور خود بھی بنارس کے ایک پچھڑے ہوئے گائوں کو گود لے لیا،  جس کی وجہ سے گائوں کا ہر بڑا چھوٹا سمجھنے لگا کہ اب تو وہ وزیر اعظم کا لے پالک ہے،  لیکن پھر وزیر اعظم نے اسے پلٹ کر نہیں دیکھا اور چار مہینے پہلے ایک ٹی وی چینل نے دکھایا تھا کہ وہ گائوں پہلے سے اور بد تر ہوگیا ہے۔

            آج دنیا میں سابق وزیر اعلیٰ بنارسی داس نہیں ہیں،  وہ 1979ء میں جنتا پارٹی کی حکومت میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ بریلی میں ایک نئی عدالت کی عمارت کا افتتاح کرنے گئے تھے،  بریلی کے وکیلوں نے انھیں گھیر لیا اور سوالوں کی جھڑی لگا دی کہ آپ نے یہ وعدہ کیا تھا اوروہ وعدہ کیا تھا،  شری بنارسی داس نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ الیکشن کے وعدے پورے کرنے کے لیے نہیں ہوتے وہ صرف ووٹ لینے کے لیے ہوتے ہیں،  اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب جب دہلی کا الیکشن ہوا ہمیشہ بی جے پی نے وعدہ کیا کہ ہماری حکومت آئی تو ہم دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دیں گے،  یہ  اتفاق کی بات ہے کہ 2014ء میں مرکزی حکومت بی جے پی کی بن گئی اور 2015ء میں عام آدمی پارٹی نے دہلی میں حکومت بنا لی،  اب وزیر اعظم نریندر مودی کے اوپر فرض ہے کہ وہ دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دلائیں،  لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہ دہلی کو دشمن کی طرح برباد کررہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کیجریوال دہلی کی بہتری کے لیے جو کام کررہے ہیں اس کے بارے میں حکم دیا جاتا ہے وہ مرکزی حکومت کے نمائندہ کو منظور نہیں اور لیفٹیننٹ گورنر اس کی اجازت اس لیے نہیں دیتے کہ اگر یہ کام ہوگیا تو کیجریوال کی جے جے کار ہوجائے گی،  اس وقت الیکشن کمیشن دفعہ 324کی روشنی میں دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دے اور اگر حکومت رکاوٹ ڈالے تو سپریم کورٹ سے فیصلہ کرائے۔

            حیرت کی بات ہے کہ ستر (70) برس ہوگئے آج تک کسی نے دفعہ 324کو لے کر عدالتوں سے فریاد نہیں کی جس کا جتنا جی چاہے وہ جھوٹے وعدے کرے اور کوئی جائزہ نہ لے کہ یہ کیسے کروگے؟ لیکن الیکشن کمیشن جیسے قومی پارٹی یا علاقائی پارٹی کے فیصلے کرتا ہے اس طرح یہ نہیں کرسکتا کہ الیکشن سے پہلے انتخابی منشور الیکشن کمیشن کو دکھائے اور بتائے کہ جو وعدے کیے ہیں وہ کس کس طرح پورا کریں گے؟ اور کتنی مدت میں کون کون سا کام کرلیا جائے گا؟ اور اگر کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کئے تو کیا سزادی جائے گی؟ اسے تو ضروری کردیا جائے کہ ہر انتخابی منشور الیکشن کمیشن کو دکھایا جائے اور دوسری پارٹیوں کو موقع دیا جائے کہ وہ معلوم کریں کہ جو کہہ رہے وہ کیسے پورا ہوگا؟ کانگریس سے لے کر سب سے نئی پارٹی آوازِ پنجاب تک ہر کسی کو پابند کیا جائے کہ وہ انتخابی منشور کی ایک کاپی چھپنے سے پہلے الیکشن کمیشن کو دکھائے اور بتائے کہ وہ کیسے کرے گی؟ اور کتنے دنوں میں کرے گی؟ ہر پارٹی نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ چار سال تک سوتی رہتی ہیں اور آخری سال میں دس روپے کا کام سو روپے میں کراتی ہیں۔ اس لیے یہ ضرور معلوم کریں کہ کون سا کام کب تک پورا کرلیا جائے گا؟ اور اسے کرکے اس کی تفصیل داخل کی جائے ورنہ دفعہ 324سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔