راہل گاندھی؛ ناکام سیاست کی طرف قدم؟! 

 ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)

        راہل گاندھی یوپی انتخابات کے پیش نظر کانگریس کے تن مردہ میں روح پھونکنے کی کوشش میں آج کل ’ کسان یاترا ‘ کر رہے ہیں جو تقریباً ایک مہینے تک چلنے والی ہے۔ اس یاترا کے دوران راہل گاندھی ایودھیا بھی پہنچے اور وہاں ہنومان گڑھی کے مندر میں بھی گئے اور وہاں کے مہنت سے ملاقات بھی کی تاہم وہاں سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع اس متنازعہ مقام پر وہ نہیں گئے جو ملک کی سیاست کا سب سے متحرک اور انقلابی نکتہ رہا ہے۔ یوپی میں کانگریس کی انتہائی خستہ حالات کے دوران بھی کانگریس اعلی قیادت یہیں سے منتخب ہوتی آئی ہے، راہل گاندھی اور ان کی والدہ کانگریس صدر سونیا گاندھی دونوں بھی فی الحال یوپی ہی سے رکن لوک سبھا ہیں، ایک خاص بات اور کہ 1990 میں راجیو گاندھی کے بعد اور خاص طور سے 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس ہائی کمانڈ ( نہرو، گاندھی خاندان ) کا کوئی بھی شخص کبھی بھی ایودھیا نہیں گیا، اب 26 سال بعد راہل گاندھی نے اس کی شروعات کی ہے اور یہ دراصل وہی چال ہے جو راجیو گاندھی نے چلی تھی، یوں توبابری مسجد کا مسئلہ پرانا ہے لیکن 1883 کے بعد ہندوؤں کی مسجد سے قریب رام مندر تعمیر کرنے کی عرضیوں کی فیض آباد سب جج، ڈسٹرکٹ جج اور کمشنر آف اودھ کی عدالتوں میں برخاستگی کے بعدبالکل ختم یا خاموش ہو گیا تھا اور 1936 میں انگریزوں نے بابری مسجد اور اس کے اطراف کی پوری جگہ قانونی طور پر سنی سینٹرل وقف بورڈ کے حوالے کردی تھی۔ لیکن آزادی کے فوراً بعد یعنی 1949 میں مسجد میں چوری چھپے مورتیاں رکھ دی گئیں جس کے بعد حکومت نے مسجد کو بند کردیا تھا لیکن 1986 میں عدالتی حکم کے بعد مسجد کا تالہ کھلوادیا گیا اور وہاں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ 1986 میں بابری مسجد کا تالہ کھلوانے میں راجیو گاندھی کا بہت اہم رول تھا۔ اور اس وقت کے حالات بھی یہی بتاتے ہیں کہ بابری مسجد کا تالا کھولنے کے لئے فیض آباد سیشن کورٹ میں ایک اپلیکیشن ڈالی گئی تھی جس کے دوسرے ہی دن ڈسٹرکٹ و سیشن جج نے مسجد کا تالا کھولنے کا حکم صادر کردیایہ اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ہوا کہ لوگ حیران رہ گئے لیکن اس طرز عمل نے بہت سے سوالات اٹھا ئے مثلاً حکومت اس پر کیسے رضا مند ہو گئی ؟فیض آباد ضلع کورٹ نے اس اپلیکشن کو کیسے قبول کرلیا اور اتنی جلدی کیسے فیصلہ صادر فرمادیا جبکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی عرضیاں کورٹ میں داخل کی گئی تھیں ؟اسی طرح وہاں آن کی آن میں سارے انتظامات کیسے ہو گئے ؟اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب منصوبہ بند تھا اور ایسا صوبائی اور مرکزی حکومت کی شمولیت و حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتاتھا اور اس وقت ریاست میں ویر بہادر سنگھ اور مرکز میں راجیو گاندھی دونوں کی کانگریسی حکومت بر سرقتدار تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد 1989 میں راجیو گاندھی حکومت نے وی ایچ پی کو ایودھیا میں رام مندرکا شیلا نیاس کرنے کی بھی اجازت دیدی تھی۔ یعنی خود کانگریس اور راجیو گاندھی نے بابری مسجد کی موجودگی میں ہی رام مندر کی تعمیر شروع کرنے (شیلا نیاسinauguration، سنگ بنیاد) کی اجازت دی تھی جسکا مطلب یہ ہوا کہ مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کوکانگریس حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ تو کیا رام مندر کی تعمیر بابری مسجد کی موجودگی میں ممکن تھی؟ اسی طرح راجیو گاندھی نے 1989 کے پارلمانی انتخابات کی مہم کا آغاز بھی ایودھیا ہی سے کیا تھا اور یہی نہیں بلکہ رام راجیہ کے قیام کا وعدہ یا عہد بھی کیا تھا۔ اور راجیو گاندھی کی اسی سیاست نے بابری مسجد مسماری کی راہ صاف کی جس پر بی جے پی اور سنگھ پریوار بلا روک ٹوک چل کر زبردست سیاسی فوائد بٹورنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس میں راجیو گاندھی کی نیت کیا تھی یعنی انہوں نے یہ سب کچھ واقعی بابری مسجد مسمار کروانے اور اس کی جگہ رام مندر بنوانے کے لئے کیا تھا ایسا نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات طئے ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ سیاسی فوائد کے حصول کے لئے کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ راجیو گاندھی نے یہ سب کچھ دراصل شاہ بانو کیس میں مسلم پرسنل کی حمایت کے بعد ’مسلم حمایت یا مسلم اپیزمنٹ ‘ کے الزامات کے چلتے ہندو ووٹ بنک کو مضبوط کر نے اوران کے خلاف وی پی سنگھ کی سیاست جس میں بوفورس معاملہ اہم تھا سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر انہیں ’ہندوتوا‘ یا رام مندر میں الجھانے کے لئے کیا تھا۔ لیکن ان دونوں معاملات میں ہوا اس کے الٹ کہ ایک طرف ایودھیا کے معاملہ میں راجیو گاندھی کی رام مندر سیاست کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دوسری تنظیموں نے ہائی جیک کرلیا، مسلم ووٹ بنک کی رعایت کی وجہ سے راجیو گاندھی اس اشو کو لے کر کھل کر مسلم مخالفت نہیں کر سکے جبکہ بی جے پی نے اس اشو کو کانگریس سے ہتھیا کر پوری طرح مسلم مخالف پالسی اپنائی اور لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا رتھ یاترا نکال کے اسے پورے ملک میں پھیلا دیا۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کا ہندو ووٹ بنک بڑے پیمانے پر موبیلائز بھی ہواور اس کے برعکس کانگریس کا روایتی ہندو ووٹ بنک اس سے کٹتا بھی چلا گیا جو اب کانگریس کی تاریخ کی بد ترین شکست پر منتج ہوا۔ دوسری طرف وی پی سنگھ کے معاملہ میں بھی انہیں ناکامی کا منھ ہی دیکھنا پڑا 1989 کے لوک سبھا انتخابات میں راجیو گاندھی کی کانگریس ہاری اور وی پی سنگھ کی پارٹی ان سے زیادہ سیٹوں کے ساتھکامیاب ہوئی، گوکہ وی پی سنگھ بھی پوری اکثریت کے ساتھ کامیاب نہیں ہوسکے لیکن وہ اتحادی حکومت بنانے میں ضرور کامیاب ہوئے، جسے دیگر کانگریس مخالف پارٹیوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن اڈوانی جی کی رتھ یاترا کے ایودھیا پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے اڈوانی جی کو امن و امان میں خلل پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر نے کے الزام میں گرفتار کروالیا جس کے بعد بی جے پی نے ان کی حکومت کی حمایت واپس لے لی اورانہیں وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، انہوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپنی ہار قبول کر تے ہوئے یہ کہہ کر راجیو گاندھی کی رام مندر یا ایودھیا کی سیاست کے منھ پر زوردار طمانچہ رسید کیاتھا کہ ’انہوں سیکولرازم کا ساتھ دیا اور انہوں نے اعلیٰ اخلاقی مقام حاصل کرلیا ہے، بابری مسجد کو اقتدار کی قیمت پر بچا لیا اور ان بنیادی اقدارکو برقرار رکھا جو اس (رام مندر تحریک اور اڈوانی کی رتھ یاتراکے ) دوران چیلنج کئے گئے تھے۔ ‘

       اب ایودھیا جا کر کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اپنے والد کی اسی سیاست کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر چل کر ان کے والد کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔ حالانکہ راہل گاندھی نے اسی دن شام میں کچھوچھہ شریف درگاہ پر حاضری لگا کر اپنی ایودھیا وزٹ کومسلمانوں سے بیلنس کر نے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ چال دراصل ہندو ووٹ بنک کو لبھانے یا ہندوتوا سیاست کو اپنانے یا مسلم نوازی کے الزام سے اپنی پارٹی کو دور رکھنے کی کوشش ہے کہ پچھلے لوک سبھا انتخابات کے بعد یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ کانگریس ہندوتوا سے دوری یا مسلم نوازی کی وجہ سے ہاری، خود کانگریس کے ایک سینئر اور ذمہ دار لیڈراور لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی شرمناک ہار کا تجزیہ کرنے اور اس کے اسباب و عوامل کا پتہ لگانے والی کمیٹی کے صدرجناب اے کے انٹونی صاحب نے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’ کانگریس کو اقلیت نوازی لے ڈوبی، اکثریتی فرقہ کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ کانگریس اقلیت نواز پارٹی ہے ہر وقت اقلیتوں کی بات کرتی ہے اس کا سیکولرازم محض دکھاوا ہے اور حالیہ انتخابات میں اکثریتی فرقہ نے اسی احساس کا اظہار کانگریس کے خلاف ووٹ دے کر کیا ‘ گوکہ انٹونی نے اپنے بیان میں واضح طور پر مسلمان نہیں کہا بلکہ اقلیت کہا لیکن سب جانتے ہیں کہ ملک میں اقلیت کا مطلب مسلمان ہی ہے۔ اور صرف انٹونی ہی نہی بلکہ کانگریس کے اہم لیڈران کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کیونکہ اس وقت یہ بات بھی کافی مشہور ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے کانگریس کی حمایت میں علی الاعلان سامنے آنے سے ہندوؤں نے اسے ووٹ نہیں دیا۔ اس وقت یہ مشورے بھی دئے گئے تھے کہ کانگریس نے سیکولرازم کے ساتھ ساتھ ’ہندتوا‘ یا’ سیکولر ہندوتوا ‘یا ’نرم ہندوتوا‘ کی سیاست کرنی چاہئے، اور شاید راہل گاندھی نے اس کی شروعات یوپی سے اور وہ بھی ایودھیا سے کردی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ بھی مسئلہ وہی ہے جو ان کے والد کے ساتھ تھا یعنی وہ سیاسی طور مسلمانوں سے ناراضی مول نہیں لے سکتے اور اسی لئے ہندوتوا کی سیاست اس شدت سے نہیں کرسکتے جس شدت سے بی جے پی یا دوسری شدت پسند ہندو سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔ ان کے ولد نے جب یہ سیاست کی تھی تو اس سے بی جے پی کا فائدہ ہوا تھا یعنی یہ ان کے لئے ناکام سیاست ٹھہری تھی اب دیکھنا ہے کہ راہل گاندھی اس ناکام سیاست کو اپناکر کیا کر پاتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔