ما بعد جدیدیت کا چیلنج اور تحریکِ اسلامی (4/4)

انجینیئرسید سعادت اللہ حسینی

ٹھیک یہی رد عمل پوسٹ ماڈرن ازم کے سلسلہ میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ان فکری چیلنجز کا مقابلہ کرناہے جو مابعد جدیدیت نے پیش کیے ہیں اور دوسری طرف تحریک کی دعوت، اس کے مباحث اور طریق کار میں ان کیفیتوں، مزاجوں اور رویوں کا لحاظ رکھنا ہے جو مابعد جدیدیت نے پیدا کیے ہیں۔

        (1) تحریک اسلامی کا مقابلہ آج بھی ماڈرن ازم کے فلسفوں سے ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم کی طاقتور تحریک کے باوجود اب بھی عقلیت کا فریب پوری طرح بے نقاب نہیں ہوپایا ہے۔ سیاسی سطح پر عالمی استعماری قوتیں تحریک کی اصل حریف ہیں اور وہ آج بھی جدیدیت ہی کی مظہر ہیں۔ اسلامی دنیا میں اسلامی تحریکوں کو کچلنے والے تمام حکم راں ماڈرن ازم پروجکٹ ہی کے علم بردار ہیں۔ اس تناظر میں پوسٹ ماڈرنسٹ ہمارے اہم حلیف ثابت ہو سکتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین مغرب اورمغربی تہذیب  کے گلیمر، سرمایہ دارانہ معیشت کی چکاچوند اور مغربی افکار اور عقلیت کے سحر کو توڑنے میں ہمارے معاون بن سکتے ہیں۔ تحریک اسلامی کو بڑا چیلنج اُن قوتوں سے درپیش ہے، جو تحریک کو رجعت پسندی قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے مقابلہ میں جمہوریت، مساوات مردوزن وغیرہ کے مغربی تصورات کو اسلامی معاشروں کے لیے راہ نجات قرار دیتے ہیں۔ اور پوسٹ ماڈرنسٹ بڑے زور و شور سے ان ’عظیم بیانات‘ کی رد تشکیل میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس معاملہ میں پوسٹ ماڈرنسٹ ہمارے حلیف ثابت ہوسکتے ہیں۔ مابعد جدید مفکرین نے جدید مغرب کے ’عظیم بیانات‘ پر جو سوالات کھڑے کیے ہیں ہمیں ان کا  موثر استعمال کرنا چاہیے اور جدیدیت اور جدید مغرب کو شکست دینی چاہئے۔

        (2) پوسٹ ماڈرن ازم نے مذہب روحانیت اور روایات (Traditions) کا احیا کیا ہے اور مذہب کی طرف واپسی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ اگرچہ پوسٹ ماڈرنسٹ مذہب کوآفاقی سچائی کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں، لیکن اگر روحانی سکون کے لیے کوئی مذہب اختیار کرتا ہے یا کوئی معاشرہ اپنے لیے مذہبی قانون پسند کرتا ہے تو پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین اسے قابل اعتراض نہیں سمجھتے۔ یہ صورت حال بھی تحریک کے لیے سازگار ہے۔ (3)اس وقت دنیا بھر میں ملے جلے معاشرے (Plural societies) وجود میں آرہے ہیں۔ ان معاشروں میں اہل اسلام کے لیے ایک بڑا مسئلہ اپنی اسلامی شناخت اور تشخّص کے تحفّظ کا مسئلہ ہے۔ پوسٹ ماڈرن افکار یہاں بھی تحریک کے لیے معاون بنتے ہیں۔ مثلاً یکساں سول کوڈ کا تصور ماڈرن ازم کا تصورہے، جبکہ پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین کے نقطہ نظر سے ایک ہی ملک میں اپنی اپنی پسند کے علیٰحدہ علیٰحدہ قوانین کی نہ صرف گنجائش ہے، بلکہ یہ تکثیریت قابلِ تحسین ہے۔ میر اخیال ہے کہ غالباً تحریک اسلامی بہت آسانی سے مابعد جدیدیت کے علم برداروں کو اسلام کے ’ملت سسٹم‘ کا قائل کرسکتی ہے جس میں ہرمذہبی ملت کو اپنے مذہبی قوانین کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا حق حاصل رہتا ہے۔

        (4) مابعد جدید مفکرین کے ساتھ اس تال میل کے ساتھ ساتھ، تحریک اسلامی کو سچائی اور قدروں کی اضافت کے نظریہ کو پرزور طریقہ سے چیلنج کرنا چاہیے۔ ان مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالات پر اسلام کا متوازن موقف گزشتہ سطور میں واضح کیا جاچکا ہے۔ یہ موقف پوسٹ ماڈرن ازم کے اندرونی تضاد سے بھی پاک ہے اور ماڈرن ازم کی ان الجھنوں کو بھی نہایت خوبصورتی سے حل کرتا ہے جن کے حل کے لیے پوسٹ ماڈرن ازم کی تحریک برپا ہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ موقف پرزور طریقہ سے دنیا کے سامنے لایا جائے۔

        (5) اس وقت دنیا بھر کے مذہبی اور نظریاتی فلسفے اپنے پیغام اور طرز پیش کش کو مابعد جدید ذہن کے حسب حال بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیتھولک چرچ نے تو اس کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی ہے۔ اور عیسائی مطالعات میں PostModern Evangelism باقاعدہ ایک ڈسپلن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ 33؎  مارکسزم کی نئی پیشکش نیومارکسزم کی صور ت میں سامنے آرہی ہے۔ اسلام کے داعیوں کو بھی اپنی پیش کش میں بدلے ہوئے ذہن کا لحاظ رکھنا ہوگا۔

        ابھی تک ہمارا مخاطب جدید دور کا وہ قاری تھا جس کے اپنے نظریات اور خیالات تھے۔ ہمارا ہدف یہ تھاکہ اس کے نظریات اور خیالات کو غلط ثابت کیا جائے اور اس کے مقابلہ میں اپنی دعوت کی معقولیت ثابت کی جائے۔ اب ہماراسامنا ایک ایسے ذہن سے ہے جو کسی نظریہ اور خیال کی ضرورت کا ہی قائل نہیں ہے۔ وہ بیک وقت ہماری دعوت اور ہمارے مخالف کی دعوت دونوں کوصحیح اور دونوں کو غلط سمجھتا ہے۔ وہ نظریہ اور فکر کے معاملہ میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ وہ مذہب کے ساتھ ساتھ فکر اور نظریہ کو بھی انسان کا انفرادی معاملہ سمجھتا ہے جس پر بحث کرنے اور لڑنے کی کوئی ضرورت ہے نہ جواز۔ یہ بدلی ہوئی صورت حال علمی وفکری مباحث کے پورے منظر نامہ کو بدل کر رکھتی ہے۔ اور اس کا لحاظ کیے بغیر ہم اپنی حکمت عملی کا صحیح طور پر تعین نہیں کرسکتے۔

        (6) مابعد جدیدیت نے معقولیات اور علمی دلائل کی اہمیت اس قدر گھٹادی ہے کہ فلسفہ، سماجیات، تہذیبی مطالعات وغیرہ میں باتوں کی پیشکش کے بالکل نئے طریقے وجود میں آچکے ہیں۔ معقولات کے مقابلہ میں کہانیاں، قصے اور داستانیں، عقل کے مقابلہ میں جذباتی اپیل اور منظم اور مربوط بحث کے مقابلہ میں ہلکی پھلکی اپیلیں مابعد جدیدذہن سے زیادہ قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعدیؒ اور رومیؒ اس وقت اسلامی دنیا سے زیادہ مغربی دنیا میں مقبول ہیں۔ ہمیں اپنی دعوت کی پیش کش میں اس تبدیلی کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اورایسے مصنفین تیار کرنے ہوں گے جن کے مقدمات مابعد جدید ذہن کو اپیل کر سکیں۔

        (7) معلومات اور اطلاعات کی اُس غیر معمولی اہمیت کا جسے مابعد جدید عہد میں طاقت کے سب سے بڑے سرچشمہ کا مقام مل چکا ہے، تقاضہ ہے کہ تحریک اسلامی اس محاذ پر توجہ دے۔ کہا جارہا ہے کہ مابعد جدید دور میں سب سے بڑی قوت معلومات کی قوت ہی ہے۔ لیوتارنے لسانی کھیلوں کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ نئے دور میں معلومات کی ہر چال طاقت کی ایک وضع کی حامل ہے34؎  اور بین ملکی طاقت کے کھیل میں کمپیوٹر زائدہ معلومات کا بڑا حصہ ہوگا اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ قوموں اور ملکوں کی آئندہ رقابتیں اور دشمنیاں معلومات کے ذخیروں پر قدرت کے لیے ہوں گی یعنی معلومات گری ملک گری کی طرح عالمی سطح پر ہوس کا درجہ اختیار کرلے گی۔ 35؎اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ تقریباً ہر ملک اپنی معلوماتی پالیسی (Knowledge Policy) وضع کر رہا ہے اور معلومات کے انتظام (Information Management) کو غیر معمولی اہمیت دے رہا ہے۔ اس تناظر میں تحریک اسلامی بھی معلومات سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ اسے معلومات اور ڈاٹا  کے جمع و انتظام اور استعمال پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور اپنی نالج پالیسی وضع کرنی ہوگی۔

 (8)۔ جہاں تک تحریک کے جماعتی ڈھانچہ کا سوال ہے مابعد جدیدیت کے بعض طالب علموں کا خیال ہے کہ یہ جدیددور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے اور پوسٹ ماڈرن عہد کی کیفیتوں کا ساتھ دینے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔ یہ ایک انتہا پسندانہ نقطۂ نظر ہے۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی تنظیمیں مخصوص ’ہائرار کی‘ کے ساتھ کامیابی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمارے تنظیمی سانچہ میں بعض بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ علم انتظام (Management Science)  کے تصورات میں پوسٹ ماڈرن افکار نے بڑی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ مرکزیت، اتھاریٹی کا ارتکاز، سرخ  فیتہ شاہی ,ضابطوں کی سخت گیری، فیصلہ سازی اور مشاورت کے عمل کی مخصوص اداروں تک محدودیت، جواب دہی اور باز پرس کی میکانکیت وغیرہ جیسے امور، جو نوآبادیاتی علم انتظام کی نمایاں خصوصیات تھیں اب دنیا بھر میں رد کی جارہی ہیں۔ اور مابعد جدید ذہن نہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، نہ اس سیٹ اپ میں کام کرنے کے لیے۔ تحریک اسلامی کو اس تبدلی کا بھی نوٹس لینا ہوگا۔

خلاصۂ بحث

        اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ  پوسٹ ماڈرن ازم، ماڈرن ازم کا ایک منفی رد عمل ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا مظہر ہے جس میں مسلسل کئی نظریات کی ناکامی اور ابطال کے بعد ہمارے عہد کا پڑھا لکھا انسان بھٹک رہا ہے۔ افکار، نظریات، اور فلسفوں کی عالیشان عمارتیں اس بری طریقہ سے زمین بوس ہوگئیں کہ نئے زمانہ کے فلسفیوں نے عافیت اسی میں محسوس کی کہ سوچنا ہی چھوڑ دیا جائے۔ فکر وخیال اور سچائی کے تصورات ہی کو واہمہ قرار دیا جائے۔ نظریہ اور آئیڈیالوجی کو ایک ناپسندیدہ شئے باور کیا جائے اور حیات انسانی کو حالات اور افراتفری کے حوالے کر کے پوسٹ ماڈرن جنت میں چین کی بانسری بجائی جائے۔ تمام جھوٹے خدائوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد پوسٹ ماڈرن ازم دراصل لاالہ کا اعلان ہے۔ الااللہ کا اعلان باقی ہے اور ان شاء اللہ موجودہ کیفیت کا لازمی اورمنطقی انجام ہوگا۔

حواشی و مراجع

1؎    Nasr Seyyed Hossein (1993) A Young Muslim’s Guide to the Modern World Cambridge :Cambridge University Press   p.156

2؎    بیکن کے افکار کے مطالعہ کے لئے دیکھیے اس کی کتاب:

Bacon Francis (1863) Novum Organum Tr. James Spedding, Robert Leslie Ellis, and Douglas Denon Heath, Boston : laggard and Thompson [As available in online library http://www.constitution.org/bacon/textnote.htm]

3؎    ڈیکارٹ کے خیالات کے لئے دیکھیے:

Descartes Rene (1983) Principles of Philosophy Trans. V. R. Miller and R. P. Miller. Dordrecht: D. Reidel

4؎    تھامس ہوبس کے افکار کی تفصیل کے لئے  دیکھیے اس کی کتاب :

Hobbes Thomas (2007) Leviathan online available at eBooks@Adelaide, http://etext.library. adelaide. edu.au/h/hobbes/thomas/h681/. updated Mon Mar 12 20:24:47 2007

5؎    Electronic Library http://elab.eserver.org/hfI0242.html

6؎    والٹییر کے خیالات کے لیے  ملاحظہ فرمائیے:

Voltaire Francois (1961) Philosophical Letters Translated by Ernest N. Dilworth, New York: Macmillan

7؎    مانٹیسکیو کے نظریات کے لئے ملاحظہ کیجیے:

Montesquieu Baron de (1914), Secondat, Charles de, The Spirit of Laws Tr. by Thomas Nugent, London : G. Bell & Sons [As available at http://www.constitution.org/cm/sol.htm]

8؎    روسو کے تصورات کے لیئے دیکھیے:

Rosseau Jean-Jacques (2004) Emile Tr. By Barbara Foxley online available at http://www.gutenberg.org/etext/5427

9؎    آدم اسمتھ کی معاشی فکر کے مطالعہ کے لئے  دیکھئے اس کی کتاب:

Smith Adam (2007) An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations online available at

http://metalibri.incubadora.fapesp.br/ portal/authors/ AnInquiryIntoTheNatureAndCausesOf TheWealthOfNations#books

10؎  مارکسی فکر کے لئے کمیونسٹ مینی فیسٹو سب سے مستند سر چشمہ مانا جاتا ہے۔

Marxm Karl and Eagesl Frederick(2006) The Communist Manifesto available at http://www.anu.edu. au/polsci/marx/classics/manifesto.html

11؎  اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے:

Bauman, Zygmunt (2000) Liquid Modernity. Cambridge: Polity Press

12؎  Lyotard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A

Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p.xxiv

13؎  Anderson, Walter Truett (1995) The Truth About

Truth: De-confusing and Re-constructing the Postmodern World. New York: Penguin p 239-44.

14؎  حوالہ سابق، ص111

15؎  Lyotard, J.-F (1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi

(trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 8

16؎  حوالہ سابق   p. xxiii

17؎  Sardar, Ziauddin  (1998) Postmodernism and the

Other, the New Imperialism of Western Culture, London: Pluto Press p. 23

18؎  Charles Upton (2001) The System of Antichrist

Truth & Falsehood in Postmodernism & the New Age Sophia: Perennis p.45

19؎  اس موضوع پر امام غزالی نے جو بحث کی ہے اس کے لئے ملاحظہ فر مائیے:

Ghazali Abu Hamid Muhammad (2000) "The Incoherence of the Philosophers” (Tr. of Tahafatul Falasafa by Michael E. Marmura),  Provo: Brigham Young University Press

20؎  الغزالی، ابو حامد محمد (1965) معیارالعلم، تحقیق الدکتور سلیمان دنیا، قاہرہ :

        دارالمعارف، ص   42۔ 60

21؎  www.ghazali.org/site/dissert.htm

22؎  مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (2007) دین حق، نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص22

23؎  اقبال، ڈاکٹر شیخ محمد (2001) کلیات اقبال، نئی دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص421

24؎  حوالہ سابق   صفحہ 411

25؎  ندوی، علامہ سید سلیمان (1991) سیرت النبی، جلد چہارم، لاہور : الفیصل ناشران کتب، ص84

26؎  Sardar,Ziauddin

http://www.islamonline.net/english/Contemporary/ 2002/05/article20.shtml

27؎  مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (2007) دین حق، نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص10

28؎  اقبال، ڈاکٹر شیخ محمد (2001) کلیات اقبال، نئی دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص410

29؎  Stephens Mitchel (2007) We are all Postmodern

ـNow, at journalism.nyu.edu/faculty/files/ stephens- postmodern.pdf

30؎  لادینیت کے خاتمہ کی بحث کے لئے  دیکھیے ایک دلچسپ کتاب:

Peter L. Berger (1999) The Desecularization of the World, Resurgent Religion and World Politics; Michigan:  William B. Eerdmans Publishing Co.

31؎  Anderson Walter Truett (1991) Postmodern Politics

in ‘In Context’#30 (Reclaiming Politics) Fall/Winter 1991, Langley p.32

32؎  گوپی چند نارنگ، (2004) ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، نئی دہلی:

         قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص 530

33؎  http://www.gettysburgsem.org/mhoffman/ other/

        pomoevangelism.htm

34؎  Lyotard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A

Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 9-11

35؎  گوپی چند نارنگ، حوالہ سابق

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔