گجرات  کی رانی اوراکےّ نے بادشاہ کو غلام بنادیا

ڈاکٹر سلیم خان

رائج الوقت نظام سیاست میں حکومت کرنا وزیراعظم کا کام ہےاور پارٹی چلانا صدر کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے فی الحال وزیراعظم کونہ توحکمرانی  کے فن سے واقف ہیں اورنہ انہیں اس میں دلچسپی ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے وہ پارٹی چلاتے ہیں اور جب اس خشک کام سے اوب جاتے ہیں تو برائےتفریح غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں۔ برسرِ اقتدار جماعت کے صدرکو چونکہ وزیراعظم نے عملاً بے دست وپا کررکھا ہے اس لئےوہ کوئی  سنجیدہ ذمہ داری  ادا کرنے کے بجائے جملہ بازی کرتے ہیں۔ انہوں نے لفظِ  جملہ کو نئے قالب میں ڈھال کرفرہنگِ زعفرانیہ  میں ایک نئے محاورے کا اضافہ  کیا ہے۔ پہلے تو شاہ جی نے ۱۵ لاکھ اور اچھے دنوں کو محض ایک  سیاسی جملہ قراردے دیا جیسے تقریر میں وزن پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اب مرکزی وزیر نتن گڈکری نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اچھے دن والا مکالمہ بھی چوری کاتھا جسے اول تو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے استعمال کیا اور مگر لوگ اسے بھول بھال گئے۔ مودی جی نے اس کا استعمال اس کثرت سے کیا کہ گڈکری کے مطابق وہ ان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اس ہڈی کو نکال کر تفتیش کے لئے تجربہ گاہ میں تصدیق  کے لئے روانہ کیا جائےکہیں وہ ہڈی گئو ونش  کے کسی مویشی کی تو نہیں ہے؟

مودی جی  کے جب اچھے دن آگئے تو انہیں احمدآباد کو خیربادکہہ کر دہلی جانا پڑا۔ اپنی  تاجپوشی کے بعدانہوں نے 72 سالہ آنندی بین کو گجرات کی مہارانی بنایاجن کا تعلق پٹیل برادری سے ہے۔ ایک سال کے اندر ہی آنندی بین کے اپنے خیمہ میں ہاردک پٹیل نے الم بغاوت بلند کرکے ان کی نیند حرام کردی۔ گجرات کے اندردوسرا زلزلہ اونا میں برپا ہوا جہاں چار دلت نوجوانوں کو ایک مری ہوئی گائے کی کھال نکالتے ہوئے دیکھ کر گئو بھکتوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور وہ ان پر ایسے پل پڑے کہ مارمارکرادھ مرا کردیا۔ اونا کا فائدہ اٹھا کر امیت شاہ نے آنندی بین کو چلتا کیا اوراپنے ہم ذات  وجئے روپانی کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ گجرات کی رانی آنندی بین  یہ زہر کا پیالہ تو کسی طرح پی لیا  مگر بدلہ لینے کا انتظار کرنے لگیں جس کا موقع انہیں بہت جلد میسرآ  گیا  ۔

 وجئے روپانی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے سورت میں ایک جلسۂ عام کا اہتمام کروایا اور اس میں اپنے محسنِ اعظم امیت شاہ کو بلایا۔ شاہ بصد شوق سورت توپہنچ گئےلیکن نہیں جانتے تھے کہ کون سی رسوائی ان کی منتظر ہے۔ سرکاری سرمایہ داروں کی جانب سے منعقدہ تقریب کا مقصد  پٹیل برادری کے ارکان اسمبلی کی وزیراعلیٰ اور پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پذیرائی تھا۔ اس دوران پاٹیداروں کی جانب سےاحتجاج کےپیش نظرحفاظتی انتظامات سخت کردئیے گئے  نیزاسٹیج کے سامنے جوتوں سے تحفظ کی خاطر جالی لگا نے کا نادر طریقہ اپنایا گیا۔ منتظمین کو توقع تھی کہ  لاکھوں پٹیل شریک ہوں گے لیکن بی جے پی کے باغی رکن اسمبلی  نلن کوٹاڈیہ نے اپنے ۵۰۰ ہمنواوں کی مدد سے یہ خواب چکنا چور کردیا اور بہ مشکل تمام دس ہزار لوگ جلسہ گاہ تک  پہنچ سکے۔ اس کے باوجود چہار جانب خوشی کا ماحول تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وجئے روپانی نے بازی مارلی ہے لیکن یہ  قبل ازطوفان کی خاموشی تھی۔

 پاٹیدار سماج کے لوگ  اپنے سروں پر زعفرانی  ٹوپیاں سجا ئے امیت شاہ کے منتظر تھے۔ ان کے مائک پر آتے ہی نعرے بازی کی سونامی پھوٹ پڑی اور دیکھتے دیکھتے کرسیاں ہوامیں اچھلنے لگیں۔ امیت شاہ نے شورو غل کے درمیان صرف چار منٹ تک خطاب کیا اور وجئے روپانی تو دو منٹ سے زیادہ نہیں بول پائے۔ ۔ پولس کی لاکھ کوشش کے باوجود طوفان بدتمیزی تو نہیں تھما ہاں امیت شاہ کا خطاب درمیان میں تھم گیا اور وہ منہ لٹکائے سورت سے ’’بڑے بے آبرو ہوکر‘‘ لوٹ گئے۔ اس طرح  یہ ثابت ہوگیا کہ گجرات کا اکاّ فی الحال نریندر مودی نہیں بلکہ ہاردک پٹیل ہے۔ وہ چاہےتوکسی کے تاج سجا کراسے بادشاہ بنا دے یادھتکار کر  غلام بنا دے۔

امیت شاہ نےسورت میں اعلان کیا کہ ’’پاٹیدار گجرات کی  اور بی جے پی ترقی وتوسیع میں ریڑھ کی ہڈی تھے‘‘۔ یعنی انہوں نے بلاواسطہ تسلیم کرلیا  کہ  اب  ایسانہیں ہے۔ اپنے آقا و مالک سمراٹ نریندر کے چرنوں میں بیٹھ شاہ  نےسورت  کی ذلت کا الزام  آنندی کے سر منڈھ کر سرزنش کی  التجا کی۔ مودی جی کوچاہئے تھا کہ اپنے داس امیت شاہ سے کہتےکہ  سورت کی تقریب غیر سرکاری تھی ۔ اس کا تعلق مرکزی حکومت سے نہیں پارٹی سے تھا چونکہ تم  صدرہو  یہ تمہاراسر درد ہےمجھے اس بکھیڑے میں مت گھسیٹو میرے پاس دیگر اہم و ضروری کام ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سمراٹ  مودی میں اگر ایسےسمجھدار ہوتے تو امیت شاہ کے ہاتھوں میں پارٹی کمان کیوں تھماتے۔

 سورت کے فلاپ شو کی اولین ذمہ داری  ہاردک پٹیل پرہے جس نے پاٹیداروں کو بی جے پی کا اصلی چہرہ دکھلا کر انہیں برگشتہ کردیا۔ پٹیل سماج کوپھر سے اعتماد میں لینا وزیراعلیٰ روپانی کی ذمہ داری ہے جس میں وہ ناکام رہے اس لئے وہ دہلی طلب کئے  جانے کا سزاوار تھے کیونکہ  وہ پہلےگجرات کے صدر بھی رہ  چکے ہیں۔ روپانی کو اگر دہلی بلا کر ڈانٹ پلائی  جاتی تو الزام ہاردک پٹیل تک محدود رہتا لیکن مودی جی نے آنندی بین کو دہلی طلب کرکے خود اپنے پیر پر کلہاڑی چلادی اورسورت کی ہنگامہ  آرائی کو پارٹی کی داخلی  مہابھارت میں تبدیل کردیا۔ آنندی بین دہلی آکر لوٹ گئیں لیکن بی جے پی کا آنند پلٹ کر نہیں آیا۔ امیت شاہ کے کانوں میں اب بھی’’ امیت شاہ گو بیک‘‘ کے نعرے گونجتے ہیں اور خوابوں میں کرسیاں اور بوتلیں اچھلتی ہیں۔

 وزیراعلیٰ وجئے روپانی کے خوف کا یہ عالم ہے کہ خود اپنے علاقہ میں ایک اسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے منعقدہ تقریب سے قبل ۲۵ مشتبہ لوگوں کو حراست میں لےلیا اور زیادہ تر شرکاء کے لئے زمین پر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تاکہ نہ رہیں کرسیاں اور نہ اڑیں کرسیاں۔ چند لوگوں کے لئے تو کرسیاں بچھائیں تو انہیں آپس میں اس طرح باندھ دیا گیا کہ اٹھا کر پھینکا نہ جا سکے۔ ان انتظامات کے بعد بھی وزیراعلیٰ کا خوف نہیں گیا تو انہوں نے نہایت مختصر خطاب علاقہ کی ترقی میں نریندر بھائی کی طرح خصوصی دلچسپی لینے کا وعدہ توکیامگر  اپنے گرو امیت شاہ کا نام تک لب پر لانے کی جرأت نہ کرسکے۔ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سوراشٹر میں پٹیل ریزرویشن  تحریک کے رہنما نیلیش اروڈیہ نے کہا گجرات میں ہٹلر راج چل رہا ہے۔ پولس نے ان کے کارکنا ن کو جلسہ گاہ میں جانے سے روک دیا۔ ظاہر ہےجس تحریک رہنما کو باغی قرار دے کر ریاست بدر کردیا گیا ہے اس کے کارکنان کو احتجاج کرنے کا بجا طور پر حق ہے اور اس کو جس قدرسختی کے ساتھ کچلا جائے گا  عوام کےغم و غصہ میں اسی قدر شد ت آئے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔