کیا عوام کے لیے دقتیں پیدا کرنا ہی ترقی اور وکاس ہے؟ 

گلزارصحرائی

عوام کو ترقی و خوش حالی اور ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس‘ اور ’اچھے دن آئیں گے‘ جیسے  نعروں اور وعدوں سے لبھاکر دو ہزار چودہ میں برسرِ اقتدار آنے والی بی جے پی سرکار عرف مودی سرکار کے اب تک  کے طرزعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہےگویا اس نے عوام کو پریشان کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا تہیہ کر  رکھا ہے۔ اچھے دن آئے ضرور لیکن صرف بی جے پی لیڈروں، کارپوریٹ گھرانوں اور نفرت وتشدد کا ننگا ناچ کرنے والوں کے لیے۔ شاید ’اچھے دن‘ کا وعدہ بھی  ان لوگوں کے لیے تھا کہ ’اب تمہارے اچھے دن  آگئے  ہیں ،جوچاہو کرسکتے ہو، نہ پولیس تمہارا کچھ بگاڑ سکے گی، نہ قانون،‘ ورنہ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، ان کے طرز زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی، بلکہ انھیں تو یوں محسوس ہوتا  ہےکہ اس سے تو  پہلے والے ’برےدن‘ ہی  بہتر  تھے۔ نہ تو عوام کی غریبی دورہوئی، نہ بے روزگاری۔ اس کے جواب میں کبھی پکوڑے بیچنے کو روزگار قرار دے کر اورکبھی بھیک مانگنے کو بھی روزگار میں شامل کرکے بے روزگاری کے اعدادوشمار کم کرنے کی شرم ناک  کوشش کی گئی۔رہی سہی کسر جی ایس ٹی اور نوٹ بندی نے پوری کر دی۔ اول الذکر  نے  جہاں چھوٹے کاروباریوں کی کمر توڑ دی، وہیں مؤخرالذکر نے ملک کے عوام کو جیسے ناکردہ گناہوں کی سزا دے ڈالی۔عوام کو اچانک مشکلات سے دوچار کرنے  والا نوٹ بندی کا یہ فیصلہ کیوں کیا گیا تھا،یہ آج بھی ایک راز ہے۔اس کے جو فائدے بتائے گئے تھے، ان میں سے کوئی بھی عملاً ظہور میں نہیں آیا، نہ دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ کالادھن رکھنے والے پکڑے گئے،بلکہ کالادھن سفید ہوکر نئے نوٹوں کی شکل میں دوبارہ تجوریوں میں پہنچ  گیا۔اس فیصلے پر اپوزیشن کی جانب ہی سے نہیں ، بلکہ  ماہرین اقتصادیات کی جانب سے بھی سخت تنقید ہوئی، اور اب بھی کی جارہی ہے،مگر جذباتیت کی سیاست کرنے والوں اور جذباتی فیصلے کرنے والوں کو بھلا کسی کی تنقید سے کوئی فرق کہاں پڑتاہے۔

یہی جذباتیت اور انانیت اب شہروں کے نام بدلنے کے رجحان کے پسِ پشت نظر آرہی ہے۔جس طرح بغیر سوچے سمجھے نوٹ بندی کے فیصلے کے برے نتائج عوام  کو بھگتنے پڑے،جن کا جواب سرکار آج بھی نہیں دے پارہی ہے،اسی طرح شہروں کے ناموں کی تبدیلی عوام کے لیے مشکلوں کی ایک نئی سوغات لے کر آرہی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اتر پردیش کے شہر الٰہ آباد کا نام  اچانک پریاگ کر دینے سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،کیوں کہ آدھارکارڈ اور دوسرے دستاویزی کاموں میں دقتیں آرہی ہیں ۔غور طلب بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرتے وقت قانونی تقاضوں کو پوری طرح نظر انداز کردیا گیا، جس پر مفاد عامہ کی رٹ پرجسٹس وکرم ناتھ اورجسٹس راجیش سنگھ چوہان پر مشتمل ہائی کورٹ  لکھنٔو کی دو رکنی بنچ  نے مرکزی اور ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ وکیل ہری شنکر پانڈے نے ازخود درخواست دہندہ کی حیثیت سے بحث کرتےہوئے کہا ہےکہ جس ضلع  کا نام تبدیل کرناہوتا ہے،وہاں کےضلع مجسٹریٹ  کے لیے لازمی ہے کہ بذریعہ  اخبار عوام کو مطلع کرے اورمفاد  عامہ کے تحت اس تبدیلی کی معقول  وجہ بتائے،پھراعتراض کے لیے سہ رکنی ہائی پاور کمیٹی طے کر ے گی، تب ہی ضلع کا نام حکومت کو جائے گا۔لیکن یہاں اس ضابطے  پر عمل نہیں کیا گیا، بلکہ الٰہ آباد سرکٹ ہاؤس میں سادھو سنتوں کے سامنے یوپی کے گورنرنے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی پی بھونسلے کے سامنے تجویز پاس کردی اور گورنر نے یہ غیر قانونی اور غیر آئینی نوٹی فکیشن جاری کردیا اور الٰہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج کر دیا گیا،جس کی وجہ سے ضلع کے عوام پریشان ہورہے ہیں ،مگر عوام کو مذہبی جذبات کی افیون سے بہلانے والی حکومت کو بھلا ان کی پریشانیوں سے کیا سروکار؟

موجودہ  حکومت کے برسراقتدارہونے کے بعد اس کی طرف سے کہا گیا تھا  کہ عوام کی بھلائی کے لیے حکومت کو کچھ سخت فیصلے لینے ہوں گے،لیکن اب تک کے سخت فیصلوں میں عوام کی بھلائی کا کون ساپہلو پوشیدہ تھا، آج تک وہ عیاں نہیں ہوا۔ نوٹ بندی سے عوام کو کتنی دقتیں ہوئیں ، یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہےاور جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اور اب شہرو ں کے نام بدلنے میں عوام کی کون سی بھلائی مضمر ہے، حکومت یہ بتانے  سے قاصر ہے۔یہ بات معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتاہے کہ کسی شہر یا علاقے کا محض نام بدل دینے سے اس کی اصل حیثیت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آتا،بلکہ تعلیمی اور معاشی ترقی سے آتاہے، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور انھیں ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں ۔

ناموں کی یہ تبدیلی اس صورت میں تو اور بھی مضحکہ خیز ہوجاتی ہے جب کہ اس کی وجہ سے عوام کے لیے قانونی دقتیں بڑھنے کا احتمال ہو۔لیکن ایسا لگتاہے کہ بی جے پی  لیڈروں کو  اپنے جوش وجنوں کے آگے کچھ نہیں نظر آتا۔سمجھ میں نہیں آتاکہ پارٹی اس طرح کے ’سخت فیصلے‘ کرکے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے؟ شایدپارٹی لیڈروں کی یہی خواہش ہے کہ موجودہ حکومت کو جذباتی فیصلے کرنےوالی اور عوام کو مشکلات میں مبتلا کرنے والی حکومت کے طورپر یاد رکھا جائے۔نوٹ بندی کے بعد اب بلا وجہ شہروں کے نام کی تبدیلی پر اصرار تو یہی ظاہر کررہاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔