’العالمین‘ کے صیغےکی جدید سائنس کی روشنی میں ایک جھلک

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

قرآن کریم کی ہر آیت کی تفسیر قیامت تک کے لئے ہے  اور یہ قرآن پاک  کاحسن اعجاز ہے۔ دنیا ترقی کرتی جائے گی، سائنسز بڑھتی جائيں گی اور قرآن مجید کی آیات انسانی تجربات کی روشنی میں بھی ثابت ہوتی جائيں گی۔ قرآن کریم کی بے شمار آیات کا ایک پہلو سائنسی بھی ہے۔ اللہ کریم نے قرآن کریم میں اپنے لئے ارشاد فرمایا؛

الحمد للہ رب العالمین۔

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہيں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے یہ ہی کلمہ اپنے محبوب ﷺ کے لئے ارشاد فرمایا؛

و ما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین۔

اور ہم نے آپ کو نہ بھیجا مگر رحمت تمام جہانوں کے لئے۔

محترم قارئین! عربی گرائمر کے اعتبار سے العالمین جمع کا صیغہ ہے اور عربی میں جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے۔ کل جہان کتنے ہيں ہميں نہیں معلوم۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنے بھی جہان ہيں ان سب کا مالک اللہ کریم ہے اور رسول اللہ ﷺ ان تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔

دنیا ، جس کائنات میں ہم موجود ہیں یہ ان جہانوں میں سے ایک جہان ہے۔ ایک جہان عالم ارواح کا ہے، ایک قیامت اور بعد کا بھی ہو گا۔ بہرحال دنیا، کائنات، یونیورس ایک جہان ہے۔ ہم اللہ کریم کی شان ربوبیت اور رسول اللہ ﷺ کی شان رحمت کو مکمل طور پر کبھی سمجھ نہیں سکتے۔ لیکن سائنس کی روشنی میں صرف اس ایک جہان کو دیکھتے  ہیں جس میں ہم موجود ہیں۔ امید ہے اس سے شان ربوبیت اور شان رسالت کی کچھ معرفت نصیب ہو گی۔ ان شاء اللہ۔

اصل بحث کی طرف جانے سے قبل خلا کے فاصلے کو ناپنے کا عمومی فارمولا نوری سال کو مد نظر رکھ لیں۔ نوری سال / light year کی وضاحت یہ ہے کہ روشنی ایک سال میں جس قدر فاصلہ طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے۔ اور روشنی کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے سورج کی روشنی زمین پر پہنچنے میں آٹھ منٹ انیس سیکنڈ لگتے ہيں۔ مختصر یہ کہ روشنی ایک سال میں ساٹھ کھرب میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔

قارئين! ہم جس دنیا میں موجود ہيں، اسے سائنس کی روشنی ميں یونیورس کہا جاتا ہے۔ اس یونیورس میں ہم ایک سولر سسٹم کے ایک سیارے جس کا نام زمین ہے، اس پر موجود ہیں۔مندرجہ بالا آیت کو سائنس کی روشنی میں دیکھنے کے لئے کائنات کا مختصر سا تعارف پیش ہے۔ اس کائنات / یونیورس میں ہماری زمین کا ایڈریس اس طرح بنتا ہے؛

The Earth, The Solar System, Orion Arm, The Milky Way, The Local Group, The Virgo Supercluster, The Universe.

زمین، نظام شمسی، اورین آرم، ملکی وے، لوکل گروپ، ورگو سوپر کلسٹر، کائنات۔

قارئین! کائنات میں یہ ہماری زمین کا ایڈریس ہے۔ اس ایڈریس کی کچھ وضاحت کرتا ہوں۔ زمین جس پر ہم موجود ہیں۔ سولر سسٹم یا نظام شمسی؛ نظام شمسی میں کل آٹھ سیارے ہیں۔ ہماری زمین ان سیاروں میں سورج سے تیسرےنمبر پر ہے۔ ہمارا نظام شمسی ہماری کہکشاں کے اوریئن آرم میں واقع ہے۔ اوریئن آرم؛ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یہ اوریئن آرم ہماری کہکشاں کے مختلف حصوں میں سے ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس کی لمبائي تقریبا 10 ہزار نوری سال ہے۔ یہ ہماری کہکشاں نہيں بلکہ کہکشاں کے بہت سے بڑے حصوں میں سے ایک چھوٹا سا حصہ اور ایک بازو ہے، اس کے علاوہ ہماری کہکشاں کے مزید حصے یا بازو بھی ہیں۔ یہ اورئین آرم ملکی وے میں موجود ہے،  ملکی وے ہماری کہکشاں ہے۔

ملکی وے؛ یہ ہماری کہکشاں چار چکردار بازوں پر مشتمل ہے۔ اس کہکشاں کا پھیلاؤ یا قطر تقریبا ایک لاکھ نوری سال ہے، جبکہ موٹائی ایک ہزّار نوری سال ہے۔ اور ایک نوری سال ساٹھ کھرب میل پر مشتمل ہوتا ہے۔ تو اندازہ کریں کہ صرف ہماری ایک کہکشاں کس قدر بڑی ہے۔ اندازے کے مطابق ہمارے کہکشاں میں 200 سے 400 ارب ستارے ہیں۔ کہکشاں کے ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ ہمارا سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے ایک چکر 24 کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ ہمارا سورج زمین سے قریب ترین ستارہ ہے جو ہم سے 8.3 نوری منٹ کے فاصلے پر موجود ہے۔ سورج کے بعد ہماری زمین سے قریب ترین ستارہ پروگزیما سنچری ہے جو ہم سے 4.9 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اندازہ کریں کہ صرف ہماری کہکشاں میں موجود باقی دو سو سے چار سو کھرب ستاروں کا عالم کیا ہو گا۔

قارئین! ہماری یہ اتنی بڑی کہکشاں لوکل گروپ میں موجود ہے۔ مختصر الفاظ میں لوکل گروپ  کہکشاؤں کا ایک ایسا گروپ ہے جس میں ہماری  کہکشاں (ملکی وے) بھی موجود ہے۔ اس گروہ میں تیس (30) کہکشائيں بتائي جاتی ہیں۔ ان میں بونی (یعنی چھوٹی) کہکشائيں بھی ہيں۔ بونی کہکشاں اس کہکشاں کو کہتے ہیں جس میں صرف چند ارب ستارے ہوتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ کائنات کا وہ حصہ جسے لوکل گروپ کہا جاتا ہے جس میں صرف تیس کہکشائيں موجود ہیں وہ کتنا بڑا ہے۔ انسانی عقل مکمل سمجھنے سے ہی قاصر ہے۔

قارئین! لوکل گروپ ورگو سوپر کلسٹر میں واقع ہے۔ ورگو سوپر کلسٹر کائنات کا وہ حصہ ہے جس میں لوکل گروپ موجود ہے۔ اس میں تقریبا سو کہکشاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کا حجم ایک کروڑ دس لاکھ نوری سال ہے۔ یہ کائنات کا صرف ایک حصہ ہے۔ مشاہداتی کائنات (observable universe)   یعنی کائنات کا وہ حصہ جسے زمین سے سائنسی ذرائع سے دیکھا جا سکتا ہے اور ابھی تک دیکھا گیا ہے، جس کے بارے میں ہم صرف اتنا سا جانتے ہیں کہ یہ کائنات کا حصہ ہے۔ اس مشاہداتی کائنات میں ورگو سوپر کلسٹر جیسے ایک کروڑ سوپر کلسٹر موجود ہیں۔ یہ ایک کروڑ سوپر کلسٹر کائنات کا وہ حصہ ہے جسے ہم صرف جانتے ہیں۔ باقی کائنات کتنی ہو گی۔ اللہ اعلم

زمین کے مکمل ایڈریس میں آخری چیز کائنات ہے۔ اور کائنات کیا ہے اس کا اندازہ کرنا انسان کے لئے ناممکن ہے۔ آج تک کائنات کا وہ حصہ جس کو ہم صرف دیکھنے کی حد تک جانتے ہیں، جس کی مختصر تفصیل اوپر پیش کی ہے۔ اس کا اندازہ ہی ناممکن ہے۔ اب باقی کائنات کتنی بڑی ہو گی یہ کون جان سکتا ہے۔ بہرحال قرآن کریم میں کائنات کے بارے میں سورۃ فاطر کی پہلی آیت میں ارشاد ہے ؛

يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo

(اللہ کریم) خلق (یعنی تخلیق) میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ فرماتا رہتا ہے، بے شک اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔

کائنات کے پھیلنے کے اسی نظریے کو سائنس اس طرح بیان کرتی ہے؛ اس سلسلہ میں ایک نظریہ عظیم دھماکا ( بگ بینگ ) کا ہے۔ یعنی کائنات ایک ماقبل کائنات ایٹم  یا  ماقبل آتشیں گولے کے ایک عظیم دھماکے سے پھٹ جانے سے وجود میں آئی۔ دھماکے سے قدیم مادہ ہر سمت بکھر گیا، وہی کائنات ہے۔ چونکہ دھماکا سے مادہ بکھر گیا تو وہ یقینا  مسلسل پھیل رہا ہے۔ اس نظریے کی طرف بھی قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا؛

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَاo وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّo أَفَلَا يُؤْمِنُونَo

اور کیا  کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ (جملہ کائنات) آسمان اور زمین سب ایک اکائی تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکر حیات کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ ان حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہيں لاتے۔

مندرجہ بالا بحث بہت مختصر ہے۔کائنات کا اندازہ لگانا کسی اعتبار سے ممکن نہیں ہے۔ اور یہ العالمین میں سے صرف ایک جہان ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کے ایک ایٹم سے شروع ہو کر نجانے کہاں تک پھیل رہا ہے۔

ہم صرف اس مشاہداتی کائنات جس کو ہم دیکھ سکتے ہيں، اسی کا اندازہ نہيں کر سکتے۔ اور پھر یہ ساری کائنات۔ اللہ اکبر۔ اس کائنات کے علاوہ نجانے کیا ہو گا۔ جنت و دوزخ کا عالم کیا ہو گا۔ آسمانوں اور پھر سدرۃ المنتہی، عرش کا عالم کیا ہو گا۔ مندرجہ بالا تو صرف عالم مکاں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اس کے بعد عالم لامکاں کتنا عظیم ہو گا۔ لامکاں تو انسانی عقل سے ہی ماوری ہے۔

ہم اللہ تعالی کے بیان کردہ العالمین کے ایک کلمہ کو کیا سمجھ سکتے ہيں۔ اللہ کریم کا کرم ہے جسے چاہے جتنی معرفت نصیب فرما دے۔ وہ خود العالمین تمام جہانوں کا مالک ہے اور اس نے اپنے پیارے  محبوب ﷺ کو العالمین کے لئے رحمت بنایا ہے۔ اب کل کتنے عالم ہیں یہ اللہ کریم ہی جانتا ہے۔ لیکن مندرجہ بالا سطور سے ہم اپنی عقل و بساط کے مطابق اللہ کریم کی ربوبیت اور آقا کریم ﷺ کی رحمت کے کسی نقطے کے کسی حصے کو کسی قدر سمجھنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی اور اپنے پیارے محبوب ﷺ کی معرفت نصیب فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔