کیا لالو اندر سے کالو ہیں؟

حفیظ نعمانی

بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور ریلوے کے انتہائی مقبول سابق وزیر لالو یادو نہ جانے کتنے ہندوستانیوں کے آئیڈیل تھے اور کتنے تھے جو اُن سے حسن ِ ظن رکھتے تھے۔ جن میں خود ہم بھی ہیں ۔ سب سے پہلی بار جب چارہ گھوٹالے میں ان کا نام آیا اور انہوں نے کہا کہ اس گھوٹالے کا تو ہم نے ہی بھانڈا پھوڑا تھا اور اس کا الزام ہمارے اوپر ہی لگایا جارہا ہے؟ تو ہمیں بھی یقین آگیا تھا کہ لالو یادو سے انتقام لیا جارہا ہے۔ اور یقین تھا کہ لالو یادو جیسا کسان جانوروں کے چارہ میں ہیرپھیر کر ہی نہیں سکتا۔

وقت گذرتا گیا اور لالو نہ ریلوے کے وزیر رہے اور نہ بہار کے وزیر اعلیٰ۔ اور انہوں نے اپنی تعلیم کے نام سے صفر پتنی رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ بنایا تو ہمیں بہت برا لگا اور خیال ہوا کہ یہ تو وہی ہوا کہ پارٹی اپنی ذاتی جائیداد ہے اگر شوہر نہ ہو تو بیوی، یا بیٹے یا بیٹی؟ اور جو دل و جان سے ساتھ ہیں وہ کیوں نہیں ؟

ایک مسئلہ اس وقت آیا جب رابڑی دیوی وزیر اعلیٰ تھیں اور خود ریلوے کے وزیر تھے اور انہوں نے دو بنگلوں کو اپنے اپنے نام الاٹ کرکے مس مایاوتی کی طرح ایک بہت بڑا بنگلہ بنوالیا تھا۔ پھر جب کوئی کچھ نہیں رہا اور بنگلے خالی کرنے کی بات آئی تو ایک صاف ستھرے سیاسی لیڈر کی طرح دو دن میں اسے خالی کرنے کے بجائے بہانے بنانے شروع کردیئے کہ فلاں پوجا ہوجائے اور فلاں تہوار ہوجائے اور فلاں بچے کی سالگرہ ہوجائے۔ ان خبروں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس لئے تکلیف ہوئی کہ ہمارے دماغ میں ان کی جو تصویر تھی، ان کے یہ بہانے اسے دھندلا کررہے تھے اور ہمارے دماغ میں ایک تصویر چودھری چرن سنگھ کی تھی کہ وہ گورنر کو استعفیٰ دینے کے بعد سرکاری گاڑی سے جگہ جگہ رُکتے ہوئے میرٹھ جارہے تھے۔ ایک جگہ وہ تقریر کرنے رُکے تو ڈرائیور ایک ڈھابے میں چائے پینے بیٹھ گیا۔ ریڈیو کھلا ہوا تھا۔ خبروں میں بتایا گیا کہ گورنر نے وزیر اعلیٰ چودھری چرن سنگھ کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے۹۔

چودھری صاحب تقریر کرتے رہے اور ڈرائیور چائے پیتا رہا۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد چودھری صاحب آکر گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے کہا کہ ابھی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ گورنر نے آپ کا استعفیٰ منظور کرلیا۔ یہ سننا تھا کہ چودھری صاحب نے کہا کہ گاڑی روکو۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی اور چودھری صاحب اُترکر نیچے کھڑے ہوگئے۔ پارٹی کے وہ لوگ جو جلسہ میں تھے وہ سب دوڑکر آئے کہ کیا ہوگیا؟ چودھری صاحب نے کہا کہ ایک ٹیکسی منگائو۔ یہ گاڑی لکھنؤ واپس جائے گی۔ ڈرائیور نے ہی نہیں جتنے لوگ بھی تھے سب نے کہا کہ یہ گاڑی میرٹھ سے واپس کردیجئے گا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ میں ایک فرلانگ بھی سرکاری گاڑی سے نہیں جاسکتا۔ اور پھر کسی نے اپنی گاڑی منگوائی اور اس سے وہ آگے گئے۔ چودھری صاحب کہتے تھے کہ جب میں وزیر نہیں تو سرکاری گاڑی کیسے؟

مکان کے واقعہ کے بعد جب جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے لالوجی کو جیل بھیجا تو اس فیصلہ سے پہلے لالو جی بار بار کہہ چکے تھے کہ جس جج کے پاس میرا مقدمہ ہے اس سے میرے تعلقات خراب ہیں وہ جیل ضرور بھیجے گا۔ اور جب وہ جیل گئے تو ہم جیسوں کو یقین تھا کہ جج اور لیڈر کی ذاتی لڑائی ہے اور فیصلہ لالو جی کے حق میں ہوگا۔ لیکن 8  مئی کو سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا اس سے حسن ِ ظن کی پوری عمارت چور چور ہوگئی کیونکہ صرف ایک سپریم کورٹ ہی رہ گیا ہے جو قطب مینار کی طرح کھڑا انصاف کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اور سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ فوجداری کے مقدمے چلیں گے اور 9 مہینے میں سماعت پوری ہوجانا چاہئے بہت اہم ہے۔

پچھلے مہینے بی جے پی کے سوشیل مودی لالو یادو کے بیٹوں پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے پارک کی مٹی بیچ دی کہیں کے پتے بیچ دیئے یا کچھ اور ان الزامات کو ہم بی جے پی کی عادت سمجھتے تھے لیکن اب جب سپریم کورٹ سی بی آئی کو ڈانٹے اور جھارکھنڈ ہائی کورٹ پر اعتراض کرے تو لالو یادو یا اُن کے بیٹوں کی حمایت کی جائے گی۔ اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا کے چیف انجینئر یادو سنگھ کے بارے میں عام شہرت ہے کہ ان سے بڑا بے ایمان ملک میں شاید ہی کوئی ہو؟ نوئیڈا میں جو ہزاروں ڈھانچے کھڑے ہیں اور لاکھوں شریف انسان مکان مکان کہہ کر سینہ پیٹ رہے ہیں اور نہ مکان مکمل ہوتے ہیں اور نہ کسی کو پیسے ملتے ہیں ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ پانچ برس تک مس مایاوتی یادو سنگھ سے سوٹ کیس بھر بھر کر نوٹ لیتی رہیں پھر جب اکھلیش یادو کا دَور آیا تو یادو سنگھ نے ان سے کہہ دیا کہ مجھے جیل بھیجنے سے آپ کو کیا ملے گا؟ اور میں آپ کا غلام بن کر رہوں گا تو اتنا دوں گا کہ مکیش امبانی بھی نہ دے پائیں گے اور سب جانتے ہیں کہ ملائم سنگھ نے یادو سنگھ کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس کی طرف سے سپریم کورٹ تک لڑے کہ اس کا معاملہ سی بی آئی کو نہ سونپا جائے۔

مایاوتی کے بارے میں تو مشہور ہے کہ سلام کا جواب بھی وہ پیسے لے کر دیتی ہیں ۔ ملائم سنگھ وہ تو نہیں ہیں لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ بگلا بھگت بھی نہیں ہیں ۔ لیکن اب لالو کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کس پر بھروسہ کریں ؟ پھر وہی چرن سنگھ کی بات یاد آتی ہے کہ ارے تم کسی کو بھی ایماندار رہنے دو گے یا نہیں ؟ اور یہ حقیقت ہے کہ 1969 ء میں اگر وہ 20  لاکھ روپئے شوگرمل مالکان کی یونین سے لے لیتے جو رشوت نہیں مدد تھی تو پچاس سیٹیں اور جیت جاتے۔ ہم اب تک سب سے بڑا سیکولر لیڈر لالو کو کہا کرتے تھے۔ اب خدا کرے کوئی ایسی بات سامنے نہ آجائے کہ ان کے سیکولرازم کو بھی دھکا لگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔