نیند

محمد اجمل خان

ہر رات ہم بستر پر لیٹتے ہیں ۔ آنکھیں بند کرتے اور نیند ہمیں اپنی پُر سکون آغوش میں لے لیتی ہے۔ یہ وہ  پیاری اور میٹھی نیند ہے جس میں انسان تقریبا ً اپنی ایک تہائی زندگی گزار دیتا ہے لیکن کبھی  اس پر غور و فکر نہیں کرتااور کبھی سوچتا بھی نہیں کہ یہ نیند ہے کیا؟

نیند کیا ہے:

شعور کو عملی طور پر معطل‘ اعصابی نظام کو نسبتاًغیر فعالاورآنکھوں کو بند کرکے جسم اور ذہن کو آرام پہنچانے کے فطری عمل کو نیند کہتے ہیں ۔نیند کے دوران انسان اپنے ماحول سے بے خبر رہتا ہے۔رات کو چند گھنٹوں کی نیند  انسان کی فطری و  بنیادی ضرورت ہے۔ کوئی  انسان اس ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

  بیہوشی  میں بھی   انسان اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ لیکننیند ایکقدرتی عمل ہے اور    نیند سےانسان    بغیر کسی طبی امداد کے بیدار ہو جاتا ہے یا اسے بیدار  کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ بیہوشی ایک مرض ہے اور اس میں انسان کوہوش میں لانے یعنی   فعال بنانے کیلئے طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔

نیند اللہ تعالٰی کیعظیم رحمت اور نعمت ہے:

نیند اللہ تعالٰی کیعظیم رحمت اور نعمت ہے جوتھکے ماندھے بندوں کو راحتو آرام‘سکون و اطمینان اور امنو امان کا ذریعہ ہے۔ انسان کو پرسکون نیند سے ہمکنار کرنے کیلئے اللہ تعالٰی نے ماحول کو سازگار بنایا۔ لہذا فرمایا:

وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿73﴾  سورة القصص

’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تماس)  رات میں ( آرام کرو اور(دن میں )  اس کا فضل (روزی)  تلاش کرسکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔  ﴿73﴾  سورة القصص

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ﴿٤٧﴾ سورة الفرقان

’’اوروہوہیہےجسنےتمہارےلئےراتکوپردہپوشاورنیندکوراحتاوردنکواٹھکھڑےہونےکاوقتبنایا‘‘۔  ﴿٤٧﴾سورة الفرقان

فَالِقُالْإِصْبَاحِوَجَعَلَاللَّيْلَسَكَنًاوَالشَّمْسَوَالْقَمَرَحُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَتَقْدِيرُالْعَزِيزِالْعَلِيمِ﴿96﴾ سورة الأنعام

’’ (وہی) صبح (کیروشنی) کوراتکااندھیراچاککرکےنکالنےوالاہے،اوراسینےراتکوآرامکےلئےبنایاہےاورسورجاورچاندکوحسابوشمارکےلئے،یہبہتغالببڑےعلموالے (ربّ) کامقررہاندازہہے‘‘۔ ﴿96﴾ سورة الأنعام

اللَّـهُالَّذِيجَعَلَلَكُمُاللَّيْلَلِتَسْكُنُوافِيهِوَالنَّهَارَمُبْصِرًا ۚإِنَّاللَّـهَلَذُوفَضْلٍعَلَىالنَّاسِوَلَـٰكِنَّأَكْثَرَالنَّاسِلَايَشْكُرُونَ﴿٦١﴾سورةغافر

’’اللهہیہےجسنےتمہارےلیےراتبنائیتاکہاسمیں آرامکرواوردنکوہرچیزدکھانےوالابنایابےشکاللهلوگوں پربڑےفضلوالاہےلیکناکثرلوگشکرنہیں کرتے‘‘۔ ﴿61﴾سورةغافر

پرسکون نیند کی بنیادی ضرورت اندھیرا ہے‘  ماحول کی تمازت  اور شور شرابہ کا کم ہونا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے رات بنا کر پرسکون نیند کی ان فطری ضرورتوں کو پورا کر دیا۔ لیکن رات کو بالکل ہی اندھیرا نہیں کیا بلکہ چاندہ بنا کر مدھم روشنی بھی  پھیلا دیا  تاکہ اس کے بندے رات کو  بالکل ہی بے کار یا نہ ہوجائیں ۔پھر رات کو ایک ہی وقت میں دنیا میں بسنے والی  تقریباًتمام مخلوقات  پر نیند طاری کرکے شورشرابہ بھی ختم کردیا۔  یوں بنی نوع انسان  کو نیند کی عظیم نعمت عطا کیا تاکہ وہ شکر کرے۔

نیندمیں اللہ تعالٰی کینشانیاں ہیں :

نیند میں غور و فکرکرنے  والوں کیلئے    بہت سی نشانیاں ہیں ‘ جیسا کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿23﴾سورة الروم

’’اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو)غور سے) سُنتے ہیں ‘‘﴿23﴾سورة الروم

لَّذِيجَعَلَلَكُمُاللَّيْلَلِتَسْكُنُوافِيهِوَالنَّهَارَمُبْصِرًا ۚإِنَّفِيذَٰلِكَلَآيَاتٍلِّقَوْمٍيَسْمَعُونَ﴿68﴾سورة يونس

’’وہیہےجسنےتمہارےلئےراتبنائیتاکہتماسمیں آرامکرواوردنکوروشنبنایا (تاکہتماسمیں کامکاجکرسکو)۔بیشکاسمیں انلوگوں کےلئےنشانیاں ہیں جو (غورسے) سنتےہیں ‘‘﴿٦٧﴾سورة يونس

 أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴿٨٦﴾سورة النمل

’’کیاوهدیکھنہیں رہےہیں کہہمنےراتکواسلیےبنایاہےکہوهاسمیں آرامحاصلکرلیں اوردنکوہمنےدکھلانےوالابنایاہے،یقیناًاسمیں انلوگوں کےلیےنشانیاں ہیں جوایمانویقینرکھتےہیں ‘‘﴿86﴾سورة النمل

 وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ﴿12﴾سورة الإسراء

’’ہمنےراتاوردنکواپنیقدرتکینشانیاں بنائیہیں ،راتکینشانیکوتوہمنےبےنور)تاریک(کردیاہےاوردنکینشانیکوروشنبنایاہےتاکہتماپنےربکافضلتلاشکرسکواوراسلئےبھیکہبرسوں کاشماراورحسابمعلومکرسکواورہرہرچیزکوہمنےخوبتفصیلسےبیانفرمادیاہے‘‘﴿12﴾سورة الإسراء

قرآن کی بہت ساری آیتوں میں  نیند کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ  نےانسان کو نیند پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ نیند پر غور و فکر کرکے انسان  کائنات کے بہت سارے راز وں کو جان سکتا ہے‘ کائنات کے خالق پر اور موت و حیات اور موت کے بعد  کی زندگی  یعنی آخرت کے بارے میں ایمان و یقین کا مل حاصل کرسکتا ہے‘  نیز نیند چیونکہ  موت کی ہی ایک شکل ہے لہذا انسان روزانہ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ  اور توبہ کرکے نفس و قلب کی اصلاح کرسکتا ہے۔

نیند کی اہمیت اور ضرورت:

جس طرح زندگی کی بقا  کیلئے  کھانا پینا اور سانس لینا  ضروری ہے‘  اسی  طرح  سونا اور آرام کرنا بھی ذہنی و جسمانی  صحت  اور  تندرستی  کیلئےاہم ہے۔رات کو چند گھنٹوں کی نیند  انسان کی فطری و  بنیادی ضرورت ہے۔ کوئی  انسان اس ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

جدید  سائنسی تحقیق کے مطابق جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے، تب دماغ کا ایک کارخانہ دن بھر کے کام کاج کے دوران انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والا جو زہریلا فضلہ دماغ میں جمع ہوتا ہے اُسے نکال باہر کرتا ہے اور پوری دماغ کی  مرمت کرکے اُسے نئی توانائی فراہم کرتا ہے  جس سے دماغ اور جسم  ازسرنو  مضبوط و کارآمد بن جاتا ہے۔

پر سکون نیند انسان کی اچھی صحت‘ جسمانی و ذہنی قوت‘ قوتِ حافظہ و تخیل‘ خوش مزاجی اور حسن کارگردگی کیلئے اہم ترین ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ نیند ہی انسان کو چاک و چوبند اور ہشاش بشاش رکھتی ہے۔

جبکہ نیند نہیں آنا بڑا عذاب اور بڑی سزا ہے۔ بے سکون نیند یا نیند کی کمی انسانی دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور بے شمار جسمانی و دماغی بیماریوں کا موجب جیسے دل‘ دماغ‘ معدہ و جگر کی بیماریاں ‘ ڈپریشن‘ ذہنی تناؤ‘ چڑچراپن‘ ہائی بلڈپریشر‘ فالج‘ موٹاپا‘ ذیابیطس وغیرہ۔  نیند کی کمی سے انسان  ہر وقت   اونگھ یا غنودگی کی حالت میں رہتا  ہے ‘ تھکاوٹ محسوس کرتا ہے‘ جسم و ذہن صحیح طرح کام نہیں کرتا ‘ لہذا روز مرہ کے کام پر صحیح طرح توجہ نہیں دے پاتا۔

نیند کی کمی سے انسان میں قوت برداشت کم ہوجاتی ہے اور   طبیت میں جھنجلاہٹ و چڑچڑاہت پیدا ہوتی  ہے جس سے انسا جھگڑالوں بن جاتا ہے اور ازداجی و سماجی زندگی میں فساد کا باعث بنتا ہے۔

نیند اور موتکا رشتہ:

اسلام نیند کو موت کی ایک قسم قرار دیتا ہے۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ نے نیند کو موت کا بھائی’’ النوم أخو الموت ‘‘کہا ہے۔(مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان ۔ حدیث 219(

اور اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ  …. ﴿٦٠﴾سورة الأنعام

’’ اور  وہی (اللہ) ہے جو تمہیں رات میں گویا کہ ایک طرح کی موت دے دیتا ہے‘‘…. ﴿٦٠﴾سورة الأنعام

ایک اور آیت میں فرماتے ہیں :

اللَّـهُ يَتَوَفَّىالْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾سورة الزمر

’’اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں ) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں ، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں ) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے۔ بے شک اس میں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ‘‘ ﴿٤٢﴾سورة الزمر

انسانی زندگی روزانہ دو مراحل سے گزرتی ہے۔۔۔ ایک بیداری اور دوسرا نیند ہے۔  بیداری کی حالت میں انسان کا اس کے جسم کے ساتھ ایک شعوری رشتہ قائم رہتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی کے سارے تقاضے اور ساری حرکات و سکنات، خیالات و تصورات اور احساسات وغیرہ کو کنڑول کرتا ہے جبکہ نیند کی حالت میں یہ شعوری رشتہ عارضی طور پر معطل ہو جاتا ہے  جو کہ  عارضی موت ہےاور اس رشتے کا ہمیشہ کیلئے منقطع ہوجانے کا نام وفات یاحقیقی موت ہے‘تو اگرچہ زیادہ تر لوگ نیند کے بعد نئی زندگی کیشروعات  کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ نیند کے دوران مر بھی جاتے ہیں ۔یہی بات  مندرجہ بالا  آیتوں میں بتایا گیا ہے  کہ جنہیں موت دینا ہوتا ہے اللہ ان کی جانوں کو قبض کرنے کے بعد روک لیتا ہے اور باقیوں کی جانوں کو ایک مقررہ وقت کی نیند کے بعد لوٹا  دیتا ہے۔لہذا نیند عارضی موت ہے جبکہ وفات حقیقی موت۔

نیند عارضی موت ہے:

اسلام کایہی تصور ہے  کہ نیند کے بعد انسان بیدار بھی ہوسکتا ہے اور موت سے ہمکنار بھی ہو سکتا ہے۔مسلمان اسی تصور کے ساتھ  زندگی گزارتا ہے اور نیند کی آغوش میں جاتے وقت  نبی کریم ﷺ   سِکھائی ہوئی دعاؤں  کو پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہے:

اَللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا … بخاری: (6324(

’’یا اللہ! میں تیرے نام سے مرتا اور زندہ ہوتا ہوں  ‘‘

 اللَّهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ…مسلم: (2712(

’’اے اللہ، تو نے ہی مجھے بنایا ہے اور تو ہی مجھے وفات دے گا۔ میری موت اور میری زندگی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ اگر تو مجھے زندہ رکھے تو میری حفاظت کر اور اگر موت دے تو میری مغفرت فرما۔ اے اللہ، میں تجھ سے عافیت کا طلب گار ہوں ‘‘ ۔

اسی طرح نیند سے بیدار ہوتے وقت بھی یہی تصور قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کا شکر ادا کرنا ہے:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

’’تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے ہمیں موت دیکر زندہ کیا، اور اسی کی طرف سب کو جمع ہونا ہے ‘‘

نیند اور موت میں اللہ کی نشانیاں اور اہل مغرب کی ہٹ دھرمی:

جس طرح کوئی  انسان یہ نہیں جانتا ہے کہ اس کی موت کب اور کہاں آئے گی اسی طرح   ہر سونے والا اس سے قطعاً بے خبر ہے کہ وہ جس نیند کی مزے لے رہا ہے وہ اس نیند سے بیدار ہوگا یا ہمیشہ کی نیند سو جائے گا۔  کتنے لوگ ہیں جو سوتے میں مر جاتے ہیں اور ان کو اس کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی کی یہ آخری نیند ہے۔ اصل میں انسان زندگی اور موت کے بارے میں قطعاً بے بس اور عاجز ہے۔ یہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

امریکیشماریاتِ موت ( American Death Statistics) کے مطابق  آٹھ میں ایک( 1 in 8) یعنی 12.5% امریکیوں کی موت نیند کے دوران واقع ہوتی ہے ۔ جبکہ اونگھ یا غنودگی کی وجہ کر ڈرائیونگ کے دوران اور دیگر حادثات میں جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اس کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

نیند کے دوران موت واقع ہونا عام ہے جس کے بارے میں اللہ کا واضح  فرمان ہے:

اللَّـهُ يَتَوَفَّىالْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾سورة الزمر

’’اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے- اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ‘‘﴿٤٢﴾سورة الزمر

اللہ تعالیٰ اس آیت میں  نیند اور موت کو اپنی نشانیاں قرار دیتے ہوئے انسان  کو غور و فکر کرکے حق تک پہچنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

ہر انسان روزانہ  نیند اور موت کا مشاہدہ کرتا ہے‘روزانہ ہی مرتا ہے اور روزانہ ہی نئی طاقت و توانائی اور جوش و جذبے کے ساتھ زندہ ہوتا ہے۔ یہ نیند یعنی عار ضی موت ہی انسان کی نئی زندگی کی ضامن ہے۔  لہذا انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح روزانہ کی اس عارضی موت بعد زندگی ہے‘ اسی طرح حقیقی موت کے بعد بھی زندگی یقینی ہے۔  جو  ذات روزانہ جانوں )روحوں (کو قبض کرکے روزانہ لوٹانے پر یا بعض کو روک لینے پر قادر ہے وہی قیامت کے دن تمام انس و جن کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے پر بھی قادر ہے۔

اگر مغربی مفکرین‘محققین ‘  دانشوراور سائنسدان وغیرہتعصب کی عینک اتار کر نیند اور موت  پر غور کرتے تو قرآن کی حقانیت پر ایمان لے آتے لیکن اس جیسی بے شمار واضح نشانیوں کےباوجوددہریت کے ان پجاریوں کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ اب وہ اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ’’ نیند کا وجود کب سے ہے ؟‘‘

نیند کا وجود کب سے ہے ؟

دہریت کے ان پجاریوں کا خیال ہے کہ ’’ شروع میں نیند کا کوئی وجود نہیں تھا ۔بندر سے انسان بننے کی ارتقائی عمل کے دوران یا انسان بننے کے بہت بعد انسان کو نیند کی ضرورت پیش آئی ‘‘۔۔ یوں وہ  چارلس ڈارون  کی نظریہ ارتقاء  کو مزید تقویت پہنچا کر انسان کو مزید گمراہ کرنا چاہتے ہیں ۔حالانکہ’’ نیند کا وجود  کب سے ہے‘‘  اس کی تحقیق سے پہلے انہیں ’’رات دن کی ادل بدل کب سے ہے ‘‘ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کیونکہ  نیند کیلئے رات کی تاریکی لازم ہے۔

وَجَعَلْنَااللَّيْلَوَالنَّهَارَآيَتَيْنِ ۖفَمَحَوْنَاآيَةَاللَّيْلِوَجَعَلْنَاآيَةَالنَّهَارِمُبْصِرَةًلِّتَبْتَغُوافَضْلًامِّنرَّبِّكُمْوَلِتَعْلَمُواعَدَدَالسِّنِينَوَالْحِسَابَ ۚوَكُلَّشَيْءٍفَصَّلْنَاهُتَفْصِيلًا﴿١٢﴾سورة الإسراء

’’ ہمنےراتاوردنکواپنیقدرتکینشانیاں بنائیہیں ،راتکینشانیکوتوہمنےتاریککردیاہےاوردنکینشانیکوروشنبنایاہےتاکہتماپنےربکافضلتلاشکرسکواوراسلئےبھیکہبرسوں کاشماراورحسابمعلومکرسکواورہرہرچیزکوہمنےخوبتفصیلسےبیانفرمادیاہے‘‘﴿١٢﴾سورة الإسراء

اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیے میں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے اور دنیا میں پہلے دن سے ہی انسان کو نیند کی ضرورت پیش آئی۔

لیکن حضرت آدم و حوا ؑ جب جنت میں تھے تووہاں نیند کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نیند  کی ضرورت دنیا میں ہے۔جنتی لوگ جنت میں نہیں سوئیں گے جیسا کہ حضرت جابر ؓراوی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :

’’نیند موت کا بھائی ہے،اور اہل جنت ،جنت میں نہیں سوئیں گے ‘‘۔ )الراوي: جابر بن عبدالله و عبدالله بن أبي أوفى المحدث: الألباني – المصدر: السلسلة الصحيحة – الصفحة أو الرقم: 1087خلاصة حكم المحدث: صحيح بمجموع طرقه(

نیند کیکیفیات ومراحل اور اقسام

نیند مخلوق کی فطری ضرورت‘ کمزوری اور عیب ہے اور ہمارا خالق  اس سے پاک ہے۔

عرف عام میں عربی میں لفظ ’ نَوْم ‘ نیند کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔لیکن قرآن مجید میں ’ نَوْم ‘ کے علاوہ مختلف عربی الفاظ نیند کے مختلف کیفیات ومراحل کو بیان کرنے کیلئے استعمال کئے گئے ہیں ۔  آج کی جدید سائنس اپنی تمام تر تحقیقات کے باوجود  نیند کے ان مرحلوں سے زیادہ کچھ جاننے سے قاصر ہے۔

قرآن کریم میں ’’ نیند‘‘ کی  چار ) ۴(عمومی اور دو (۲)  خصوصی )اسپیشل( کیفیات و اقسام بیان کی گئی ہے، جو درج ذیل ہیں :

1.9.1نمبر1۔۔۔اَلْسِنَةٌیا اونگھ:

’ اَلْسِنَةٌ ‘کے معنی غفلت یا اونگھ کے ہیں لیکن قرآن میں ’نیند‘ کی مناسبت سے لیا گیا ہے۔اردو میں ’ سِنَةٌ ‘  کا ترجمہ اونگھ  یا  نیند کا خُمار ہے۔’ سِنَةٌ ‘ نیند کی پہلی کیفیت و قسم ہے جس میں پلکوں پر ہلکی سی نیند کا خُمار ظاہر ہوتا ہے یا نیند سے پلکیں جھپکنے لگتی ہیں یا بوجھل ہو جاتی ہیں لیکن انساناپنےماحولسےباخبررہتاہے۔

مخلوق ) انسان (پر ’ سِنَةٌ ‘کسی بھی وقت لاحق ہوسکتی ہے لیکنخالق (اللہ) ہر عیب کی طرح اس عیب سے بھی پاک ہےجیسا کہ آیت الکرسی میں ہے:

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ   ….. آیت الکرسی

’’  اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق  نہیں ، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘….. آیت الکرسی

آیت الکرسی  میں نیند کی پہلی اور آخری مرحلے کا ذکرکرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر طرح کی  نیند سے مکمل   پاک ہے اور اللہ کیلئے یہی لائق ہے ۔

1.9.2نمبر 2۔۔۔النُّعَاسَیا غنودگی:

’ النُّعَاسَ‘ نیند کی دوسری  کیفیت اور قسم ہے ۔ اس کا اثر ’ سِنَةٌ ‘ سے زیادہ ہے اور اسے آدھی نیند(half-sleep)  بھی کہتے ہیں ۔  اردو میں ہم اسے غنودگی کہہ سکتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے ’ النُّعَاسَ‘ کو سونے اور جاگنے کی درمیانی کیفیت سے تعبیر کیا ہے۔’ النُّعَاسَ‘  کے دورانانسانآسانیسےبیدارہوسکتاہے۔

قرآن میں دو مقام پر’ النُّعَاسَ‘  کاذکرملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر سے چند لمحے پہلے اہل ایمان پر ’ النُّعَاسَ‘ یعنی غنودگی طاری کردی۔جس کے نتیجے میں جب وہ بیدار ہوئے تو تازہ دم ‘ پرسکون  اور بے خوف تھے:

إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾ سورة الأنفال

” جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں ) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں ) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے‘‘﴿١١﴾ سورة الأنفال

پھر اسی طرح جب جنگ احد میں صحابہ کرام  جیتی ہوئی جنگ ہار کر حزن و ملال سے دوچار ہوئے تو اللہ تعالٰی نے دوبارہ ’ نُّعَاسَ ‘  یعنی  غنودگی کے ذریعے انہیں غم سے نجات اور امان دے کر ان  کے قلوب کو  مضبوط کیا۔

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ….   …..[3:154]

’’پھر اس(اللہ) نے رنج و غم  کے بعد تم پر (تسکین کے لئے) غنودگی کی صورت میں امان ( اطمینان و سکون اور تسلی)  اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی‘‘

اور صحیح بخاری  میں ہے:

خلیفہ بن خیاط، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جن کو احد کے دن  غنودگی (النُّعَاسُ)  نے دبا لیا تھا مجھ پر ایسی غنودگی طاری ہوئی کہ کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے میری تلوار گر پڑی وہ گرتی تھی اور میں اٹھاتا تھا۔) صحیحبخاری ۔ جلد دوم ۔ غزواتکابیان ۔ حدیث1292(

آج جدید تحقیق سے  یہ ثابت ہو چکی ہے کہ ’ النُّعَاسَ‘  یا غنودگی کا ایک جھونکا ذہنی دباؤ)stress / tension (اور بلڈ پریشر (BP) کم کرکے انسان کو ہشاش بشاش کر دیتا ہے۔

1.9.3نمبر 3۔۔۔اَلْنَّوْمُ  یا گہری اور بےخبری کی نیند:

یہ نیند کی تیسری  کیفیت و قسم ہے اور عرف عام میں عربی کا یہی لفظ نیند کیلئے استعمال ہوتا ہے۔  دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر گہری نیند سونے کو ’ اَلْنَّوْمُ ‘کہتے ہیں ۔  قرآن میں ’ اَلْنَّوْمُ ‘کی تعریف ذیل کی آیتوں میں کی گئی ہے:

وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ﴿٩﴾  سورة النبإ

’’اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام  کا سبب بنایا‘‘﴿٩﴾  سورة النبإ

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ﴿٤٧﴾ سورة الفرقان

’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے (اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا‘‘﴿٤٧﴾ سورة الفرقان

’ سُبَاتَ‘کے معنی ہیں حرکت و عمل چھوڑ کر دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر آرام کرنا اور ایسا گہری نیند میں ہی ممکن ہے۔

لہذا ساری دنیا اسی ’ اَلْنَّوْمُ ‘کی کیفیت میں  یعنی دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر گہری نیند سوتی ہے سوائے اللہ کے متقی و پرہیزگار بندوں کے جنہیں رات کو عبادت کرنے کی فکر بےفکری کی نیند سونے نہیں دیتی‘جس کا بیان  نیند کی خصوصی اقسام میں  کیا گیا ہے۔

آیت الکرسی میں اپنی صفاتِ عالیہ بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے نیند کی پہلی کیفیت ’ اَلْسِنَةٌ ‘اور آخری کیفیت ’ اَلْنَّوْمُ ‘کو بیان کرکے اپنے آپ کو نیند کی ہر قسم سے پاک قرار دیا ہے اور خالق (اللہ ) کیلئے یہی لائق ہے:

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ….. آیت الکرسی

’’  اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق  نہیں ، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘….. آیت الکرسی

تبصرے بند ہیں۔