کیا مطلقہ کے لیے عدت کے بعد نفقہ کے لیے عدالت سے رجوع کرنا شرعاً درست ہے؟

محمدصابرحسین ندوی

مسلمان دراصل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں سر تسلیم خم کردینے اور اطاعت بجالانے کا، اور اس کی ہی شریعت کو اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے نزاعات کا فیصل سمجھنے کانام ہے، اپنے ہر کسی مشاجرات میں صرف اور صرف ایک خدا اور اس کے رسول کو ہی فیصل سمجھنا نہ صرف ضروری ہے؛ بلکہ اس فیصلہ پر راضی برضا ہونا بھی لازمی ہے،یہ ایمان باللہ کا ایک اہم حصہ بلکہ جزء لاینفک ہے،چنانچہ اگر کوئی اس فیصلہ میں تنگی و کجی محسوس کرے تواسے ایمان کے مغائر گردانا گیا، فرمان الہی ہے۔

فلاوربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی أنفسھم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما(النساء:۶۵)

’’سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے؛یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں،اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے، پھر نہ نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے‘‘،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ عدالتوں کا انتظام کیا،شرعی قضاء کے سلسلہ میں کسی قسم کی رو رعایت نہ رکھی،عصر حاضر میں مسلمانوں کی اقلیت اور زمام اقتدار سے دوری نے بہت سے سنگین اور پیچیدہ مسائل پیدا کردئے ہیں،ہر جگہ خاطر خواہ شریعہ کورٹ کے موجودہونے کے باوجود اس کی اہمیت سے بے بہرہ ہونے کی صورت میں غیر شرعی عدالتوںکا رخ کرنے اور لا علمی میں ہی کیوں نہ ہو؛اپنے ایمانی تقاضوں کو بالائے طاق رکھنے پر مجبور ہیں،بلکہ طرفۂ تماشہ یہ ہیکہ اسلام مخالف فیصلوں پر حرف اف نہ کرنے اور اس کے برخلاف غیر شرعی فیصلوں کی پناہ لینے کا بھی عام رواج ہوتا جارہاہے۔

حالیہ عرصہ میں عدالت عظمی کے بے سر وپا فیصلہ اور سماج کی گرتی ساکھ نے ہندوستانی اقدار و روایات پر سوالیہ نشان لگا دئے ہیں،بالخصوص مذہب بیزاری اور دھرم کو انسانی زندگی اور معاشرہ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے،تعلیم کے اہم وسیلہ کو مفسد بنانے کے بعد عدالتی کاروائیوں کے ذریعہ اسے نمایا کیا جارہا ہے،چنانچہ مسلم خاتین کا طلاق کے بعد نفقہ کا مطالبہ کرنا اور اس سلسلہ میں کسی بھی حد سے گزر جانا اسی کا ایک حصہ ہے،جس نے خصوصا مسلم امہ اور اس کے عمائدین کو اس مسئلہ پر غور کرنے اور اس کے قرب وجوار پر فکر کرنے پر مجبور کردیا ہے،بعض نام نہاد مفتیین بھی علم و فقہ کے غرہ مین آکر دین کو تختہ مشق بنا رہے ہیں،اور ذارئع ابلاغ کا استعمال کرتے وہپئے زہر افشانی کا کام کر رہے ہیں،چنانچہ اس مختصر مضمون میں اس بحث پر حتی المقدور قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں زیر نظر مسئلہ پر خامہ فرسائی کرنے اور مناسب راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ اسلام میں عورتوں کوباربرداری اور نفقہ سے دست بردار رکھا گیاہے،اس کی پیدائش سے لیکر اس کی موت تک کا خرچ ان کے اولیاء پر واجب قرار دیا ہے،یہ وجوبی ذمہ داری شرعی اعتبار سے سب پہلے والدپر عائد ہوتی ہے،’’ومن کان لہ اب من اھل الانفاق لم تجب نفقتہ علی سواہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ولناأن النفقۃ علی الأب منصوص علیھافیجب اتباع النص وترک ماعداہ ‘‘(المغنی:۸؍۲۱۶)، اور شادی کے بعد اس کے شوہر پر ہوتی ہے ’’نفقۃ الزوجۃ واجبۃ بالکتاب والسنۃ والاجماع(المغنی:۸؍۱۹۵)،یہ بھی خیال رہے کہ شوہر پر نفقہ تب ہی تک واجب ہوتا ہے ؛ جب تک کہ وہ اسکی حرم میں(بیوی) رہے، نیز اگر والد کا انتقال ہوچکاہو یا فقیر ہو تو پھر اس کے نفقہ کے تعلق سے فقہاء کی آراء مختلف ہیں،مالکیہ صرف والد اور بچوں پر وجوب کے قائل ہیں،شوافع والد اور بچوں پر خواہ من اعلی لا ب ہوں یا من اسفل لولد یعنی وصول وفروع ہوں ؛وجوب کے قائل ہیں،حنفیہ ذوی الارحام پر نفقہ واجب قرار دیتے ہیں،جبکہ حنابلہ ہر وارث پر واجب مانتے ہیں،’’ظاھر المذھب أن النفقۃ تجب علی کل وارث لموروثہ اذا اجتمعت الشروط اللتی تقدم ذکرنا لھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقال اصحاب الرأی :تجب النفقۃ علی کل ذی رحم محرم ولا تجب علی غیرھم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقال مالک والشافعی وابن منذر :لا نفقۃ الا علی المولود ین والوالدین۔ ۔ ۔ ‘‘(المغنی :۸؍۲۱۷)،علامہ ابن عابدین ؒنے بھی لکھا ہے’’وتجب [النفقۃ] ایضا(ً لکل ذی محرم صغیر أوأنثی) مطلقا ولوکانت الانثی (بالغۃ) صحیحۃ(أو)کان الذکر (بالغا)لکن (عاجزا)عن الکسب (بنحوزمانۃ)۔ ‘‘(الدرمع الرد:۳؍۱۲۷)،البتہ اگر کوئی بھی اس کا نفقہ اٹھا نے والا نہ ہو تو حکومت اس کی کفالت کرتی ہے بدیگر صورت فقہاء نے اس پر کام کرنے کو واجب مانا ہے تاکہ خرچ اٹھا سکے’’ویجب (الکسب)علی من لا قوت لہا ‘‘(ابن مفلح، الآداب الشرعیۃ)۔

دراصل اسلام نے مردوں کو ہر حال میںعورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے،حتی کہ اگر کسی سے شادی کی اور جماع نہ بھی کیا ہو لیکن طلاق ہوجائے؛ تو ایسی صورت میں رخصتی پر ہدیہ و تحائف دینے کا بھی حکم ہے، تاکہ عورت اس مصیبت سے بآسانی ابر سکے،اسے اصطلاحاً ’’متعہ‘‘ کہا جاتا ہے، ساتھ ہی اگر مہر متعین تھاتو آدھا مہر بھی ذمہ آتا ہے،البتہ اگر بیوی معاف کردے تو الگ بات ہے ؛لیکن زیادہ بہتر ہیکہ مرد عمدہ سلوک کرتے ہوئے پورا ہی مہر دیدے اور اگر نکاح کے وقت پورا مہر دے چکا ہے، تو آدھا واپس نہ لے اور معاف کردے یہ تقوی سے قریب تر ہے، نکاح کی گرہ مرد ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی لئے اللہ تعالی نے ان سے ہی کہا تم ہی بہتر سلوک کرو،(بقرۃ:۲۳۶، دیکھئے:آسان معانی قرآن :بلال حسنی)۔

نیز علامہ وھبہ زحیلی ؒ نے اس آیت کے تحت مفصل بحث کی ہے اور متعدد اقوال سے ثابت کیا ہے، کہ اس کا تعلق صرف قبل الجماع اور بعدالجماع سے نہیں؛ بلکہ ہر معاملۂ طلاق کے ساتھ ہے،کہ شوہر اپنی وسعت کے مطابق ضروری خرچ دیدے،حتی کہ امام شافعیؒ کے نزدیک قول جدید کے اعتبار سے اسے واجب قرار دیا ہے،جبکہ امام احمد اسے مستحب سمجھتے ہیں،(التفسیر المنیر:۲؍۳۸۵)،اسی طرح علامہ جصاصؒ نے نقل کیا ہے کہ’’۔ ۔ ۔ ۔ وھی مستحبۃ کالمطلقۃ بعد الدخول، والمطلقۃ قبل الدخول فی نکاح فیہ تسمیۃ المھر‘‘یعنی اس حکم میں ہر وہ خاتون جس کا مہر متعین ہو؛ طلاق کے بعد ’’متعہ‘‘دینا مستحب ہے(دیکھئے:احکام القرآن :۱؍۴۲۸)۔

شریعت کے اس فرمان کے پیش نظر کہیں نہ کہیں عورتوں کو فی الفور معاشی تنگیوں سے بچانااور ذہنی وقلبی طمانینت کا کام کرنا ہے،بالخصوص دور حاضر کے پر فتن دور میں جبکہ مسلم عورتیں شاذ و نادر ہی خود کفیل رہتی ہیں،اور شادی کے بعد بسااوقات ہی کوئی کفالت قبول کرنے پر راضی ہوتا ہے ؛حتی کہ والد بھی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں،ایسے میں بھلا کسی ا ورکی کیا شکایت !یہی وجہ ہے کہ مطلقہ عورتیں بعد ازعدت نفقہ کیلئے غیر شرعی عدالتوں کا رخ کر لیتی ہیں،جو ظاہراً ایمان کے مغائر معلوم ہوتا ہے اور قرآن کے حکم کے خلاف بھی ہے!،(النساء:۶۵)لیکن خدا تعلی ہی کا فرمان ’’وعلی المقتر قدرہ متاعاً بالمعروف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘اور خصوصاً’’حقاً علی المحسنین ‘‘سے ایسا باور ہوتا ہے کہ اپنے ضروری خرچ کیلئے جبکہ شوہر بھی محسنین (مستتطیع) ہو تو یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ یہ معاملہ معروف سے متعلق ہے نہ کہ حکم الہی سے ؛ عدالتوں سے اپیل کرنا مناسب ہے،جس کی مزید چند وجوہات اورشرائط یہ ہیں:۔

۱۔ عموماً ہمارے معاشرے میں طلاق شدہ عورتوں کو دوہری نظر سے دیکھا جاتا ہے،اور اس کی کفالت کرنے کو درد سر سمجھاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے در در کی ٹھوکریں کھانے اور اپنے پیٹ پالنے پر مجبور کیا جاتاہے،جس کی اہلیت عموما ان کے اندر نہیں پائی جاتی، سوائے یہ وہ کسی کے گھر کی نوکرانی بن جائے، اور پوری زندگی دوسرے کے گھروں کی دھول صاف کرتے ہوئے ہی گزار دے، چنانچہ اس زمرہ میں کسی کی ہمدودری و رواداری کا نظارہ بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے،اور اگر ایسا نظر آبھی آجائے تو ایسی نیتوں پر اعتماد دشوار کن امر ہے۔

۲۔ اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ’’بیت المال‘‘ کا نظم نہیں، جو کسی زمانے میں ایسی مظلوم خواتین کی دیکھ ریکھ کرتی تھی،اور ان کے حق میں وظیفہ جاری کیا کرتی تھی؛تاکہ بغیر کسی مشکل ودشواری کے زندگی بسر کر سکیں۔ ساتھ ہی دیگر رفاہی اداروں سے امداد بھی ایک گونا مشکل امر ہے،جو اگرچہ اس بات کا دم بھرتے نہیں تھکتے؛ کہ وہ مطلقہ اور بیواوں کی سرپرستی کرتے ہیں،اور انہیں حتی المقدور تعاون کرتے ہیں؛لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، خال خال ایسی خواتین ہیں جو ایسی تنظیمات سے بہرہ ور ہیں،اور وہ بھی اتنی وسعت کے ساتھ نہیںکہ زمانہ کا ساتھ دے سکے،اس کے علاوہ یکھا جائے تو اس مشکل کا کوئی دوسرا حل نکالنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔

۳۔ عورتیں شیطان کی رسی ہیں؛اور پھر ’’کاد الفقر أن یکون کفراًً‘‘ بھی مشہور ہے،ایسے میں نہ صرف عزت بلکہ ایمان وجان کابھی خطرہ درپیش ہے۔ ایسے حالات فحش پر جرات اور جرائم پر آمادگی کا بھی اہم ذریعہ بن جاتی ہیں،بہت سے ناخدا ترس ایسی عورتوں کا ناجائز استحصال کرتے ہیں اور انہیں اپنے مقاصد فاسدہ کیلئے استعمال کرتے ہیں،بدیہی نظر میں ایسی عورتوں کو ایسے کاموں کیلئے لقمہ تر سمجھا جاتا ہے،اور نتیجتا وہ پورے معاشرہ، سوسائٹی اور ملک کیلئے ناسور بن جاتی ہیں،اور گلے کا ایک ایسی ہڈی بن جاتی ہیں جو نہ کھاتے بنے اور نہ نگلتے بنے۔

۴۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مطلقہ عورت کو سرکار یا عدالت بغیر کسی مطالبہ کے رقم فراہم کرتی ہے، جنہیں عمومی (طلاق کے بعد رقم لینے کے مطالبے کے ناجائز ہونے کی وجہ سے ) حکم سمجھتے ہوئے رد کردیا جاتا ہے، اور اسے ایمان کے خلاف سمجھا تا ہے، جبکہ واقعتا دیکھا جائے تو چونکہ حکومت ہند جمہوری نظام کے تحت ہے،جس کا مقصد ہر ایک کی نصرت واعانت بھی ہے،ایسے میں اگر حکومت بلا کسی اپیل کے طلاق کے بعد رقم دے تو اسے حکومت کی جانب سے اعانتی رقم سمجھ کر لیا جاسکتا ہے،اس کی حیثیت ایک حد تک بیت المال کی سمجھی جائے گی۔ ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل کا ہمارے سماج میں جنم لینا اور ان کا مناسب حل تلاش نہ کرنا گویا اسلامی تعلیمات کو منجمد سمجھ لینا ہے،یا قرآن وحدیث کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہو ا و نفس کی اتباع کرنا ہے،اصل بات یہ ہے کہ معاشرہ کے بہی خواہ اور علماء و فقہاء پر لازم ہے؛ کہ حالات کے پیش نظر ایسا ماحول بنائیں جو عورتوں کے اندر دینی بیداری اور مردوں میں اسلامی غیرت وحمیت کے ساتھ باہمی محبت ومودت کا سبب بنے،انہیں اپنے مسائل کاتصفیہ  اسلامی تعلیمات میں ڈھونڈنے اور اپنی مشکالات کا جواب دینی روح میں تلاش کرنے کی عادت پڑے،وے تعاونوں علی البر اورولا تعاونوا علی الاثم کے پیکر کے ساتھ اولی الامر کی اتباع میں کوئی کور کسر نہ اٹھار کھتے ہوں،اگر اس طرف دھیان دیا گیا تو ملک کے حالات اور آئین کی بزور تبدیلیوں کے درمیان اسلام اور مسلمانوں کیلئے مستقبل تاریک ترین ثابت ہوسکتا ہے!۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔