کیا معجزۂ شق القمر پر شبہ ہے؟

حفیظ نعمانی

یکم اپریل کے اودھ نامہ میں ایک چھوٹا سا مراسلہ علی سنجر نیازی کا چھپا ہے پتے کے بجائے صرف ای-میل ایڈریس لکھا ہے۔ اگر محلہ یا کالونی کا نام لکھ دیتے تو یہ معلوم ہوجاتا کہ کون سے سنجر نیازی ہیں کیونکہ اس نام کے ایک صاحب کو ہم برسوں سے جانتے ہیں جو 30  برس سے صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اس لئے نہیں ہوسکتے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو 30  برس سے اخباری دنیا سے جڑا ہو وہ یہ لکھے کہ ’’اب سوال یہ ہے کہ کٹا چاند ہندوستان میں جس وقت دیکھا گیا اس وقت مکہ میں دوپہر تھی اگر چاند مکہ میں کاٹا گیا تو ہندوستان میں چاند ڈوبے چھ گھنٹے ہوچکے تھے۔‘‘

اگر سنجر نیازی صاحب خود سعودی عرب گئے ہوتے یا انہوں نے کسی ایسے آدمی سے معلوم کیا ہوتا جو اُن باتوں سے واقف ہے تو ایسی بچکانہ بات نہ لکھتے۔ یکم اپریل کو مکہ میں مغرب کی اذان 6:38  شام کو ہوئی اور ہندوستان میں 6:24  پر غروب آفتاب ہوا۔ جو لوگ سعودی عرب جاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ سعودی عرب کی سر حد شروع ہوتے ہی ہوائی جہاز کے عملہ کی طرف سے اعلان کردیا جاتا ہے کہ آپ لوگ اپنی اپنی گھڑی ڈھائی گھنٹہ پیچھے کرلیجئے یعنی اگر ڈھائی بجا ہے تو 12  بجا لیجئے۔ یہ اس کا اعلان ہے کہ دونوں ملکوں میں ڈھائی گھنٹہ کا فرق ہے۔

جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کا رقبہ بھی ہندوستان کی طرح سے بہت بڑا ہے ہندوستان میں کیرالہ وہ صوبہ ہے کہ اس کے بعد سے سعودی عرب تک پانی ہی پانی ہے۔ اور کبھی کبھی رمضان یا عید کا چاند جب سعودی عرب میں دیکھا جاتا ہے تو کیرالہ سے بھی خبر آجاتی ہے کہ وہاں بھی چاند ہوگیا جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کیرالہ اور مکہ معظمہ کے درمیان زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اور اگر ڈھائی گھنٹہ کا بھی فرق ہے تو جب مکہ معظمہ میں اندھیرا ہوچکا ہوگا اس وقت ہندوستان میں رات کے 10  بجے ہوں گے اور جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ مکہ شہر پہاڑوں کے درمیان ہے وہاں مغرب سے بہت پہلے سے اندھیرا محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھر کیا ہوا کہ علی سنجر نیازی چھ گھنٹے کا فرق کررہے ہیں اور جب ہندوستان میں رات ہے تو مکہ میں دوپہر بتا رہے ہیں؟

اب رہی بات وضاحت کی تو میرے پاس اودھ نامہ کا ہی ایک تراشہ ہے جو تجزیہ خبر کے عنوان سے ہے اور برادرم عالم نقوی صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مالابار سے متصل کالا نگلور کا راجہ چیرامن پیرومل کے نام سے منسوب اس مسجد کی تعمیر نبی کریمؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے سے تین برس قبل آنحضورؐ کے ایک صحابی حضرت مالک بن دینارؓ نے 629 ء میں کرائی تھی۔ راجہ چیرامن اس زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔

ایک دوسرا تراشہ انقلاب کا ہے۔ کوئی محمود احمد خاں دریابادی ہیں کیرالہ و کرناٹک کا سفرنامہ۔ ابن بطوطہ کی واپسی کے ضمنی عنوان سے لکھا ہے کہ 7 ویں صدی عیسوی مالابار کے علاقہ میں جس خاندان کی حکومت تھی چیرامن اسی خاندان کا حکمراں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے محل کی چھت سے معجزئہ شق القمر کا مشاہدہ کیا۔ درباری کاہنوں سے آنحضرؐت کی بعثت کی خبر سن کر اس نے اسلام قبول کیا اور رسول اکرمؐ کی زیارت کے شوق میں مدینہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ مدینہ پہونچ کر وہ آپؐ کی زیارت سے مشرف ہوا اور ہدیہ کے طور پر ہندوستانی مصالحے خدمت اقدس میں پیش کئے واپسی کے سفر میں عمان کے سلالہ نامی مقام پر اس کا انتقال ہوا۔ انتقال کے وقت اس نے اپنے ساتھیوں سے وصیت کی کہ اس کی زمین پر ایک مسجد تعمیر کی جائے اور یہ وہی مسجد ہے۔

میرے پاس ایک تیسرا تراشہ اور تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے دربار کے اور علاقہ کے کاہن شق القمر کی کوئی تفصیل نہ بتا سکے تو کسی نے راجہ کو مشورہ دیا کہ عرب سے جو تاجر کشتیوں میں آتے ہیں ان کی عبادت کا طریقہ بھی الگ ہے اور وہ بڑے اچھے لوگ ہیں ان سے معلوم کرلیا جائے۔ راجہ نے جب عرب تاجر آئے تو ان سے معلوم کیا انہوں نے حضوؐر کی نبوت اور کفار مکہ کے اصرار پر یہ معجزہ دکھایا تھا کہ اپنی انگشت چاند کی طرف اٹھائی اور چاند دو ٹکڑے ہوکر دو پہاڑوں کی آڑ میں چلا گیا اور پھر دعا فرمائی تو اپنی جگہ پر آگیا۔ اسی کو سن کر وہ ایمان لایا اور وہ مدینہ جارہا تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اور اس نے ساتھیوں سے وصیت کی کہ جاکر مسجد بنانا۔

جہاں تک معجزہ کا تعلق ہے وہ تو ہر مسلمان کا ایمان ہے رہا راجہ کا معاملہ تو کتاب کوئی نہیں ہے مختلف اخبارات کو جو سیاحوں سے معلوم ہوتا ہے وہ لکھ دیتے ہیں اس لئے اس کی ذمہ داری تو ہم نہیں لے سکتے لیکن یہ بات کہ مکہ میں معجزہ ہو اور ہندوستان میں وہ دیکھنا ممکن نہ ہو یہ جہالت ہے یہ بات اب معلوم کرنا ہمارے جیسے معذور کے لئے تو مشکل ہوسکتا ہے لیکن وہ لوگ ہوں گے جو ذراسی محنت سے بتا سکتے ہیں کہ راجہ پیرومل کا جو علاقہ تھا اس کے اور مکہ معظمہ کے درمیان گھڑی کا کتنا فرق ہے؟ اگر ڈھائی گھنٹہ بھی ہے تب بھی ناممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ کسی پریشانی میں 10  بجے رات کو چھت پر ٹہلنا اور ساڑھے سات بجے مکہ میں چاند کا اتنا اوپر ہونا کہ ہر آدمی دیکھ لے کیوں ممکن نہیں ہے؟ اور ہندوستان میں پہلی مسجد اور حضرت مالک بن دینارؓ کی قبر اور مسجد سے متعلق چیزوں کے دیکھنے والے لاکھوں ہوں گے۔ افسوس ہے کہ ہم 1968 ء میں کیرالہ گئے تین دن رہے اور کسی نے اس مسجد کا ذکر نہیں کیا اگر اس بارے میں کچھ معلوم ہوتا تو ہر بات دعوے کے ساتھ لکھتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔