کیا نوٹ بندی سے مسلمان بھی متاثر ہے؟

نور محمد خان


اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ،،ایک جگہ اور ارشاد باری ہے کہ ” تم پر ظالم حکمران مسلط کر دیے جائیں گے ،،یعنی کہ اللہ و رسول کی اطاعت ہم پر فرض ہے اگر اللہ کے احکام اور رسول کی سنت مبارکہ سے ہٹ گئے تو اللہ تبارک و تعالٰی ہم پر ظالم حکمران مسلط کر دیگا چنانچہ آیات کریمہ کے پس منظر میں غور و فکر کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ اہل اسلام میں ایمان کی کمی ہونے کی وجہ سے عالم اسلام پر ظالم حکمران مسلط ہو گیئں ہیں یا دیگر وجوہات کی بنا پر حکمراں جماعتیں مسلمانوں کو دینی،سیاسی، سماجی و معاشی اعتبار سے کمزور کرکے تباہ و برباد کردینا چاہتے ہیں
مرکزی حکومت نے ایک دن میں نوٹ بندی کا فیصلہ لے کر کالا دھن کی واپسی اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کے لئے جیسے ہی اعلان کیا کہ دیش بھکتی اور مودی لہر پیدا کرنے والے مداحوں نے کالا بازاری میں چار چاند لگا دیا نوٹ بندی سے ایک طرف کالا دھن رکھنے والے عام ہندوستانی بینکوں کی لمبی قطار میں رقم حاصل کرنے کے لئے بھوکے جانور کی طرح ٹوٹ پڑے تو دوسری طرف ملک کی عظیم شخصیات جس میں سیاست داں اور کارپوریٹ سیکٹر کے امیروں نے غیر ملکوں میں لاکھوں کروڑ روپئے جمع کرکے فلک بوس عمارتوں میں آرام کی نیند فرما رہے ہیں چنانچہ نوٹ بندی سے عوام کی تشویشناک حالت ہے وہیں مسلم علاقوں میں یہ بات موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ حکومت کے فیصلہ سے مسلمان بھی متاثر ہے؟چنانچہ اس ضمن میں  غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مسلمانوں کی پسماندگی اور پریشانیوں کے اسباب کیا ہیں؟
اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ "ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں کو خرچ کرو  اور ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا جیسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو اور جان لو کہ اللہ تعالٰی بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالٰی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تبارک و تعالٰی وسعت اور علیم والا ہے جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو حکمت اور َ سمجھ دیا وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا نصیحت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں (سورہ بقر 269 267 ) اللہ تبارک و تعالٰی اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دیتے ہیں اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دیئے ہیں دنیا تو اللہ تبارک و تعالٰی اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے اور دشمنوں کو بھی،ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے آپ نے مزید فرمایا کہ اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل مسلمان اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی ایزاؤں سے بے خوف نہ ہوجائے اور جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرتا ہے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ سب اس کے لئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے ،،
ملک کے گوشے گوشے میں نوٹ بندی سے عام و خاص پریشان ہیں لیکن ان پریشانیوں میں زیادہ تر عام و غریب انسان وقتی طور پر پریشان ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالٰی جب اپنا عذاب نازل کرتا ہے اور مسلمانوں پر باطل طاقتیں مسلط ہوتی ہیں تو اس میں اہل ایمان و نیک بندہ بھی شکار ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ تبارک و تعالٰی کی مصلحت ہے  اللہ تبارک و تعالٰی کا فرمان ہے کہ دنیا دوستوں اور دشمنوں کو بھی دیتا ہے ،،یعنی کہ اس میں وہ مسلمان بھی شامل ہیں جس کو اللہ تبارک و تعالٰی نے دنیا میں دولت عطا کیا اور اس دولت مند پر غریبوں یتیموں مسکینوں بے واؤں اور مستحق لوگوں پر راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم دیا لیکن زیادہ تر امیروں کی لمبی قطار رعیا کاری میں شامل ہے جو صدقہ زکوۃ مساجدوں اور مدرسوں کی رقم کا اعلان کرتے ہیں جس میں امیروں کی رعیا کاری موجود ہے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی اپنی بندگی میں رعیا کاروں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی عبادت اس کے منہ پر مار دیتا ہے
قابل ذکر یہ ہے کہ حکومت نے کالا دھن جمع کرنے والوں پر% 200جرمانہ عائد کیا ہے علاوہ اس کے اگر کچھ کمی محسوس ہوئی تو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جایئگا دنیا کے اس قانون سے خاص لوگوں میں دولت مند مسلمان بھی خوف زدہ ہے اب مسلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسلمان عموما ڈھائی فی صد زکوۃ کی رقم ادا کرتے وقت اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت سے ادا نہیں کرتا اور نہ ہی دل میں خوف خدا ہے لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے قانون سے خوف زدہ ہے کیونکہ اس میں شیطانی طاقت کارفرما ہیں جب سے نوٹ بندی کا فیصلہ منظر عام پر آیا تب سے مسلمانوں کا ایک امیر طبقہ حیران اور ناواقف راہ بھٹک رہے ہیں آج ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے جس طرح سے 68 برسوں سے عام اور مظلوم مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا آزادی کے 69 برسوں میں مسلم قیادت کے سامنے عام اور مظلوم مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئی وقف بورڈ کی ملکیت پر خاص مسلمانوں کا سیاسی طبقہ قبضہ کرکے رات و رات اربوں روپیوں کا مالک بن گیا یہ وہ روپیہ اور ملکیت تھی جس پر اللہ نے مستحق لوگوں کے حقوق نافذ کئے تھے لیکن آج وہ بھی محفوظ نہیں ہے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی ملک سے بدعنوانی ختم کرنے اور کالا دھن کی واپسی کے لئے جو اقدامات کئے ہیں کتنا سود مند ثابت ہو گا یہ کہا نہیں جاسکتا لیکن اسلامی قوانین نے چودہ سو سال پہلے ہی بدعنوانی (امانت میں خیانت ) کو گناہ قرار دے ختم کرنے کا فرمان جاری کردیا تھا اور اہل ایمان نے اس حکم پر عمل بھی کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے مسلمانوں میں بد خیانتی عام ہونے لگی مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر اہل علم شریعت کی پاس داری کرنے والے مسلم حضرات جن میں مسلم لیڈر ،سیاسی علمائے کرام ،مسلم تنظیمیں مساجد و مدارس درگاہوں خانقاہوں کے ٹرسٹیان کے زیادہ تر ذمہ داران بدعنوانی میں ملوث ہیں دین کی تبلیغ ترقی و ترویج کے نام پر لئے گئے رقوم اس مد میں کتنا خرچ کرتے ہیں اس کا علم کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ ٹرسٹیان باقائدہ حساب و کتاب دینے سے قاصر ہیں کل کا ایک ٹرسٹی آج کا لکھ پتی یا کروڑ پتی ہے مسجد کے مصلیان ٹرسٹیان کی کار گردی سے واقف ہیں اور بدعنوانی کی باتیں بھی بازگشت کرتی ہیں لیکن کسی میں طاقت میسر نہیں ہے کہ ان سے سوال کر سکیں نوٹ بندی کے بعد عوام میں یہ بھی باتیں بازگشت کرنے لگیں کہ بڑے بڑے امیروں نے گھر بیٹھے نوٹ بدل لئے ان کو بینکوں میں قطار بھی نہیں لگانا پڑا!ظاہر سی بات ہے کہ اس میں مسلمانوں کا امیر طبقہ بھی شامل ہے علاوہ اس کے نوٹ بدلنے کی کالا بازاری زوروں سے شروع ہوگئی دس سے چالیس فی صد کٹوتی پر نوٹ بدلے جارہے ہیں اگر قانونی نقط نظر سے دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ دینی و عصری قانون بدعنوانی و بدنظمی کو ختم کرنے کی تلقین کرتا ہے اب اسے ایمان کی کمزوری کہا جائے یا کچھ اور کہیں! ہندی مسلمانوں کی قیادت کرنے والے مسلم لیڈران،سیاسی علمائے کرام،مسلم تنظیمیں اور وقف بورڈ کے ذمہ داران کو اگر عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور عدل و انصاف و حقوق کی فکر ہوتی تو عام مسلمانوں کو "دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر” کا خطاب نہیں ملتا مسلم قیادت کو مظلوم مسلمانوں کی فکر ہوتی تو "تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کے ماتھے پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاتا مسلم معاشرے کو اگر مسلم خواتین کی فکر ہوتی تو قحبہ خانوں اور شراب خانوں کی زینت نہیں بنتیں در اصل بات یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم معاشرے میں سود خوری،فریب کاری،مکاری،
نے بے رحم بنادیا ہے شیطان کی اطاعت کرتے کرتے دل سے خوف خدا نکل چکا ہے اس لئے حق تلفی کرنے میں صفحہ اول نظر آتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ہو گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔