ظلمت یوروپ میں تھی جن کی خر د راہ بیں

 ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی

مسلمان جب دنیا میں سائنس ، صنعت اور تجارت کی بلندیوں پر پہونچ چکے تھے، اس وقت یوروپ قرون مظلمہ کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا، عالم اسلام کی ترقی کازمانہ یوروپ کی انتہائی پسماندگی کا زمانہ ہے، یوروپ کے لوگ ا س کو قرون مظلمہ کہتے ہیں یعنی تاریکی کی صدیاں ، لیکن یہ نام یوروپ کے ملکوں کے لئے تو بالکل درست ہے ، لیکن مسلمانوں کے شہروں کے لئے درست نہیں، کیوں کہ وہاں اس وقت تہذیب وتمدن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، ڈاکٹر فلپ ہٹی اور بہت سے دوسرے مغربی مصنفین نے اعتراف کیا ہے کہ جب لندن اور یوروپ کے دوسرے شہروں میں سڑکیں کچی ،انتہائی ناہموار اور دھول سے اٹی ہوئی ہوتی تھیں جن میں گڑھے ہوتے تھے اور، جن پر رات کے وقت اندھیرے میں سفر کرنا ناممکن تھا، اس وقت اسپین اور مسلمانوں کے دوسرے ملکوں کے شہروں میں سڑکیں کشادہ ، ہموار ہوا کرتی تھیں، جس کے دونوں طرف روشنی کا انتظام تھا، تاکہ رات کے وقت بھی قافلے اپنی گاڑیوں کے ساتھ بے خطر سفر کر سکیں۔ مغربی مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس وقت قرطبہ ، غرناطہ اور اشبیلیہ اور بغداد وغیرہ شہروں میں ایسے کتب خانے موجود تھے جن میں ایک ایک لاکھ کتابیں مخطوطات کی شکل میں موجود تھیں، اور کتابوں کی خطاطی اور جلد سازی کی بہت سی دکانیں ہوا کرتی تھیں، اس وقت یوروپ کے لوگ اپنے ناموں کی حروف تہجی سیکھ رہے تھے، نہ وہاں کوئی صنعت تھی اور نہ تہذیب وتمدن کے مراکز ۔بغداد اور قرطبہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اور لندن اور پیرس کے جاہل اور غیر مہذب باشندوں میں وہی فرق تھا جو ایک تعلیم یافتہ انسان اور ایک گڈریا اور چرواہے میں ہوتا ہے۔
یوروپ میں تہذیب وتمدن کا دور اس کی نشاۃ ثانیہRenaissance کے بعد آیا، یوروپ کی نشاۃ ثانیہ او ر بیداری کا دور پندرہویں صدی عیسوی کے بعد شروع ہوتا ہے، یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور علمی بیداری اوردور جہالت سے علم کی روشنی کی طرف واپسی کے اسباب حسب ذیل ہیں :
1۔ سائنس اور طب اور دوسرے علوم کی عربی کتابوں کا داخل نصاب ہونا اور ان کے ترجمے اور اسپین میں اہل یوروپ کا تعلیم حاصل کرنا
2۔ صلیبی جنگوں کے ذریعہ فلسطین اور دوسرے مقامات پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن سے واقفیت
3۔ نئی دنیا یعنی امریکہ کی دریافت جس کا سہرا کولمبس کے سر باندھا جاتا ہے حالانکہ مسلمان کولمبس سے پانچ سال پہلے امریکہ کو دریافت کرچکے تھے
4پریس کی ایجاد
اسلام نے اس وقت کی عیسائی دنیا کو بھی متاثر کیا تھا ۔ عیسائیت کا مذہبی انقلاب جو یوروپ میں مارٹن لوتھر کے ذریعہ آیا، اس کی وجہ بھی مسلمانوں کی مذہبی کتابیں تھیں، مارٹن لوتھر کو ریفارمیشن کا بانی کہا جاتا ہے، اس نے پروٹسٹنٹ کاایک باغی اور احتجاجی فرقہ قائم کیا تھا جو عیسائیت میں اصلاحات کاداعی تھا ۔ وہ جرمنی کا باشندہ تھا اور پادری کے عہدے پر فائز ہوا ،اس نے پوپ کی سخت مخالفت کی اور مروجہ عیسائیت پر تنقید کی ،اس نے آخرت میں نجات کے لئے چرچ کے معافی نامہ اور مغفرت نامہ کو تنقید کال نشانہ بنایا جس سے جرائم پیشہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے وہ سونے چاندے کے بھائو پادریوں سے مغفرت نامے اور جنت کے قبالے خریدتے تھے اور ’ رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ کا مزہ لوٹتے تھے ۔ وہ سر سے پیر تک گناہوں میں ڈوب کر بھی خود کو جنت کا حق دار سمجھتے تھے ۔ مارٹن لوتھر نے نے اس مغفرت نامہ کو باطل قرار دیا وہ خود اسلامی تہذیب سے اتنا زیادہ متاثر تھا کہ آرتھوڈوکس کرسچن اس پر خفیہ طور پر مسلمان ہونے کا الزام لگاتے تھے۔اس نے گرجا گھروں کی بہت سی رسوما ت وبدعات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔یوروپ میں اصلاح دین کی تحریک اسلام کے زیر اثر شروع ہوئی تھی ۔
ایک بات جو بالکل طے شدہ ہے اور جس کا اعتراف انصاف پسند مغربی مصنفین نے بھی کیا ہے ، وہ یہ کہ مسلمان برتر ثقافت اور تہذیب کے مالک تھے، اس حد تک کہ یوروپ کے لوگ بدن کی صفائی کے لئے صابن کے استعمال سے بھی واقف نہیں تھے،یہی صابن کا عربی لفظ ہے یورپی زبانوں میں’’ سوپ‘‘ بن گیا ہے  صلیبی جنگوں میں بیشمار عیسائی ملکوںکے باشندے شریک ہوئے تھے ، اس لئے کہ یہ ان کے نزدیک مقدس جنگ تھی، لیکن جب شام وفلسطین میں انھوں نے مسلمانوں کی تعمیرات اور معاشرت اور تہذیب کو نزدیک سے دیکھا تو انھوں نے ہر چیز میں مسلمانوں کی نقل کرنی شروع کی ، جیسے اب مسلمان یوروپ کی نقل کرنے لگے ہیں ۔اسلحہ سازی میں تفوق مسلمانوں کا اتنا زیادہ تھا کہ جب رات کے وقت صلیبی فوج کے لوگ آسمان سے اژدہوں کے مانند آتشی بان کو سروں پر گرتے ہوئے دیکھتے تو راہ فرار اختیار کرتے، اور کہیں پناہ لیتے اور ان کے پادری دعاوں میں مشغول ہوجاتے ۔
یونان کے لوگوں نے علم وحکمت میں بڑا نام پیدا کیا تھا، اور وہ حکمت وفلسفہ کے مینار سمجھے جاتے ہیں ، لیکن یونان کی تمام کتابیں اہل یوروپ تک مسلمانوں کے واسطے سے پہونچی تھیں، اور مسلمانوں نے یونان کے تمام علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا، ریاضی کا فن ہو یا فلکیات کا ، طبعیات کا ہو یا کیمیاء کا ، یا حیاتیات اور طب کا یہ تمام کتابیں عربی زبان میں تھیں، اور ان کتابوں سے یوروپ کے لوگوں نے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اطالوی اور دوسری مغربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، اور یہ ترجمے ایک طویل عرصے تک یوروپ کی جامعات میں پڑھائے گئے، اور پندرہویں صدی کے بعد جب یوروپ میں پریس کی ایجاد ہوئی تو مسلمانوں کی عربی کتابیں باربار چھپنے لگیں، ابن سینا کی القانون ، زکریا رازی کی الحاوی، ابو القاسم زہراوی کی التصریف، ابن رشد کی کلیات ، ابن زہر کی التیسیراور ابن الہیثم کی کتاب المناظر، اور بہت ساری دوسری کتابیں یوروپ کے اہل علم کے ہاتھوں میں پہونچیں اور بہت سی کتابوں کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن نکلے، پریس کی ایجاد نے یوروپ کی نشاۃ ثانیہ اور بیداری اور نھضت میں بہت بڑا کردار اداکیاہے، پریس کے دور سے پہلے کاغذ سازی اگر مسلمان ملکوں میں نہ ہوتی تو پریس کی ایجاد کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، مسلمان چونکہ قافلہ علم کے سالار تھے اس لئے کاغذ سازی کی طرف انھوں نے بہت توجہ کی تاکہ کتابیں لکھی جا سکیں،ایک وقت ایساتھا کہ یوروپ کے مختلف شہروں میں تقریباً ہر محلے میں کاغذ سازی کے چھوٹے چھوٹے کارخانے قائم تھے اور بہت سے شہروں میں اس کی حیثیت گھریلو صنعت کی ہوگئی تھی۔آج  یوروپ کے بہت سے کتب خانوں میں عربی مخطوطات ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
                      مگر وہ علم کے  موتی  کتابیں  اپنے  آباء کی
                       جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
بہت سے لوگ اس شعر کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی نوعیت کے مخطوطات ہوں گے جسے انگلینڈ کے لوگ اپنے کتب خانوں کے لئے کوہ نور ہیرے کی طرح  ہندوستان اور مشرقی ملکوں سے چرا کر لے گئے ہوں گے یہ خیال درست نہیں ہے ۔یہ عربی مخطوطات زیادہ تر سائنس طب اور عصری علوم سے متعلق ہیں یہ وہ کتابیں ہیں جو کسی زمانہ میں یوروپ میں پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں یہ وہ کتابیں تھیں جن سے یوروپ میں نشات ثانیہ  Renaissance کا آغاز ہوا تھا ۔
مغربی مصنفین آرنلڈ(sir Thomas Arnold) اور اسپین کے دانشور جیسوٹ ایندریز(jesuit Andriz)اور کئی دیگر مصنفین نے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یوروپ کے لوگوں نے مسلمانوں سے عربی ہندسے سیکھے اور قدیم رومن ہندسے ترک کردئے، اور عربی ہندسے اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم جوریاضی کے چار بنیادی لوازم ہیں یہ چیزیں اندلس اور پھر یوروپ کے ملکوں کے باشندوں میں عام ہوگئیں ، یہ بات مغربی ملکوں کے فضلاء کے سمجھ میں آگئی تھی کہ ریاضی اور فلکیات اور طب اور دیگر سائنسی علوم کو سیکھنے کے لئے عربی جاننا ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ عربی زبان صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یوروپ کی عیسائی دنیا میں بھی عام ہوگئی، اسپین کے کلیساؤں نے بھی انجیل اور اپنی مذہبی کتابوں کے ترجمے عربی زبان میں کئے ، عربی کی اشاعت اور تعلیم اتنی عام ہوگئی تھی کہ یوروپ کے کئی ملکوں میںتعلیم یافتہ اس شخص کو سمجھا جاتا تھا جس نے عربی زبان سیکھی ہو اور عربی زبان کے علوم کو پڑھ لیتا ہو، اس طرح سے مسلمانوں کی سائنس کے علوم تمام اہل یورپ میں پھیل گئے ۔ سائنس کے ان علوم کو مسلمانوں نے دنیا کی دوسری تہذیبوں سے فائدہ اٹھا کر تیار کیا تھا اور انہیں ترقی دی تھی ، یہ سائنس کا تخم تھا ، یوروپ کے ملکوں میں موسم اچھا تھااور پانی وافر تھا اور مٹی بھی زرخیز تھی، چنانچہ یہ تخم خوب برگ وبار لایا اور اس کے شیریں ثمرات یوروپ کے ملکوں میں پھیل گئے اور پھر ان علوم وفنون کی یوروپ میں مزید ترقی ہوئی، مسلمانوں نے اصطرلاب ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے ایک 1092 عیسوی کو انھوں نے ایک چاند گرہن کا مشاہد ہ کیا تھا، یوروپ کے لوگوں نے فلکیات کے علوم میں آگے چل کر اتنی ترقی کی کہ خود ان کے قدم چاند تک پہونچ گئے۔اب مسلمانوں کو سائنسی علوم کو مغرب سے لینے اور سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ پیغمبر اسلامﷺنے فرمایا ہے کہ حکمت وعلم مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ جہاں بھی  ہو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ اب مسلمانوں کے لئے عزت وعظمت کی بازیابی کی یہی راہ ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔