معاشی ایمرجنسی کے مضر اثرات

’سنہاسن خالی کرو۔ جنتا آتی ہے‘

تبسم فاطمہ

عالمی حقوق آزادی اور جمہوری حقوق کے پیش نظر کسی بھی ملک میں، کسی بھی طرح کی ایمرجنسی کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ 41 سال قبل ملک کے معاملات مختلف تھے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ عوام کا جینا دشوار ہوگیا تھا۔ بہار سے اندرا گاندھی کے خلاف جے پرکاش نارائن نے طلباء کی تحریک شروع کی۔ اس کی آواز بہار اور گجرات سے لے کر پورے ملک میں سنائی دی۔ بہار کے جن کوی دنکر نے آواز اٹھائی۔’’ سنہاسن خالی کرو۔ جنتا آتی ہے‘‘۔ ایک اور پہلو تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے رائے بریلی سے انتخاب میں اندرا کی جیت کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔ حزب مخالف کے چوطرفہ حملے اور سنگین صورتحال کے مد نظر اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا تو عوام کے ہوش اڑ گئے۔ جے پرکاش نارائن، مرارجی دیسائی جیسے تمام بڑے لیڈران کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیاگیا۔ آئین کی دفعہ 352 کے مطابق ایمرجنسی کا مطلب تھا کہ اندرا جب تک چاہیں، اقتدار میں رہ سکتی ہیں۔ لوک سبھا، ودھان سبھا کے لیے انتخاب کی ضرورت نہیں۔ میڈیا اور اخبار آزاد نہیں۔ حکومت کوئی بھی قانون پاس کراسکتی ہے۔ میسااور ڈی آئی آر قانون کے تحت گیارہ لاکھ لوگ جیل میں ڈال دیئے گئے۔ 19 مہینے کی ایمرجنسی نے عوام کو خوف وہراس میں مبتلا اور معاشی واقتصادی طور پر مفلوج کردیا تھا۔ ایمرجنسی کا داغ اتنا گہرا تھا کہ 41 سال گزرنے کے بعد آج بھی اس کے زخم تازہ ہیں۔ کانگریس آج بھی ایمرجنسی کو ایک بڑی بھول تسلیم کرتی ہے۔
مودی کے نئے فرمان کو معاشی ایمرجنسی کا نام دینے والے کچھ غلط نہیں ہیں۔ مہنگائی اند نوں آسمان چھو رہی ہے۔ بلکہ ابھی مزید مہنگائی کے بڑھنے کے آثار ہیں۔ عوام میں خوف وہراس کی فضا ہے۔ گیارہ لاکھ لوگ جیل میں تو نہیں ڈالے گئے لیکن نوے فیصد عوام سڑکوں پر آگئی ہے۔ کجریوال کی مانیں تو ۸ لاکھ کروڑ کی رقم غیر ممالک میں ناجائز طور پر شفٹ ہونے کے بعد بینک کنگال ہوگئے تھے۔ اس میں وجئے مالیا جیسے لوگوں کے پیسے بھی ہیں، جن کے ہزار ہزار کروڑ مودی نے بینک کے ذریعہ معاف کرا دیئے، بینکوں کو دیوالیہ پن سے باہر نکالنے کا واحد راستہ تھا کہ عوام سے پیسے نکلواؤ۔ نتیجہ عوام سڑکوں پر آگئے۔ یہ گھٹن اس وقت جیل کی گھٹن سے کہیں زیادہ ہے۔ آئین اور قانون مودی کے پاس گروی پڑے ہیں اور مودی جب چاہے، اڈانی، امبانی، اور دولت مند تاجروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے نئے قانون لے کر آجاتے ہیں، جس میں عام جنتا اور غریبوں کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمرجنسی کے باوجود عوام اور میڈیا میں اختلاف اس وقت جاری تھا۔ آج میڈیا کی طاقت پر مودی کی حکمرانی ہے۔ مودی کے ہر غلط فیصلے کے باوجود عوام احتجاج کی طاقت سے محروم ہے۔ عوام میں ذرا بھی مخالفت کا اندازہ ہوتو مودی کبھی آنسو بہا کر، کبھی خود کو مظلوم اور چائے والا کہہ کر اور کبھی یہ کہہ کر مخالف کے دروازے بند کردیتے ہیں کہ میں نے ملک کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ زخموں پر مرہم لگانے کے لیے اپنی بزرگ ماں کو بھی قطار میں کھڑا کردیتے ہیں۔
حکومت کے چنگیزی فرمان پر اموات کا سلسلہ جاری ہے، پچھلے دنوں اپنے پیسے نکالنے میں ناکام ایک نوجوان لڑکی نے سر عام اپنے کپڑے اتار دیئے۔ حد تو یہ ہے کہ چنگیزی حکومت نے اس حادثہ سے بھی خود کو برہنہ محسوس نہیں کیا۔ جو خود سر قسم کی دلیلیں حکومت کی طرف سے دی جارہی ہیں وہ عوام اور جمہوریت دونوں کا گلہ گھونٹنے کے لیے کافی ہیں۔ حکومت نے 50 دن کا وقت مانگا ہے۔ اگر غور کریں تو ایک برس میں دو مہینے کا وقفہ حکومت نے عام آدمی اور غریبوں سے چھین لیا ہے۔ اس فرمان سے زیادہ برے وہ جملے ہیں جو وزیر اعظم مودی اب بار بار پبلک منٹنگوں میں دہراتے رہتے ہیں۔ بہار کے ایک اجلاس میں بیان دیا کہ ایسا نہ کر پاؤں تو لات مار کر نکال دیجئے۔ جلا دیجئے، پھانسی دیجئے جیسے بیانات ایک وزیراعظم کو زیب نہیں دیتے۔ خود کو بار بار چائے والا کہنا بھی غریب آدمی کا مذاق اڑانے جیسا ہے۔ اب یہ بیان ہی دیکھیے کہ میں چائے بھی کڑک بناتا تھا۔ فیصلے بھی کڑک لیتا ہوں۔ مایاوتی نے مودی کے اس قدم کو معاشی ایمرجنسی کا نام دیا ہے۔ ایک ایسی ایمرجنسی جس میں عوام سڑکوں پر، بینکوں میں، اے ٹی ایم کی لائن میں کھڑا ہے اور حکومت قطار میں کھڑے ان لوگوں کو کالادھن کی جمع خوری کرنے والوں میں شمار کررہی ہے۔
اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ مودی کی چائے یقیناًکڑک ہوتی ہوگی مگر کڑک چائے اور کڑک فیصلے میں فرق ہوتا ہے۔ کڑک چائے رات میں پی جائے تو نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ مودی کے اس فیصلے سے بھی نیندیں اڑی ہیں۔ مگر نیندیں عام آدمی کی اڑی ہیں۔ اس فیصلے سے ملک کے بڑے کاروباریوں کے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے انڈسٹریلیٹ اور کاروباری اپنے جیبوں میں ہزار، پانچ سو کے نوٹ نہیں رکھتے۔ ان کا سارا بلیک منی عام طور پر سوئس بینک اور ملک سے باہر شفٹ کر جاتا ہے۔ اگر اس کے دور رس نتائج پر غور کریں تو امیر اور امیر ہوتا چلا جائے گا اور غریب آدمیوں کے لیے آگے بڑھنے کے راستے بند ہوجائیں گے۔ اس فرمان میں کئی کمیاں ہیں جو آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔ جیسے مودی کے بیان کے مطابق نوٹ چھپنے کا کام چھ ماہ قبل ہی شروع ہوچکا تھا۔ اگر اس سچ کو تسلیم کیا جائے تو پھر نئے نوٹوں پر سابق آر بی آئی گورنررگھو رام راجن کے دستخط ہونے چاہیے تھے۔ آخر حکومت کے بیانات میں اتنے تضادات کیوں ہیں؟ دو ہزار کے نوٹ کا المیہ یہ ہے کہ پانی کے قطروں سے رنگ اترنے لگتا ہے اور اگر دو ہزار کے نئے نوٹ کے کاغذ کو دیکھیں تو اس پر نقلی نوٹ کا گماں ہوتا ہے، جس سے عام طور پر بچے بچپن میں کھیلا کرتے تھے اور اب بھی کھیلتے ہیں۔ تیسری حقیقت یہ سامنے آئی کہ اردو، ہندی،کشمیری زبانوں میں دو ہزار ہی غلط لکھا ہوا ہے۔ کیا آر بی آئی کے پاس پروف ریڈرس نہیں ہیں جو ان غلطیوں کو سدھار سکتے ہوں۔ ویسے پرانے نوٹ دیکھ کر بھی ان غلطیوں کو ٹھیک کیا جاسکتا تھا۔ اب آپ نوٹوں کی موجودہ حالت پر غور کریں تو حکومت سے آر بی آئی تک الزامات کے نرغے میں ہے۔ نوٹوں کی چھپائی کمزور، رنگ اتر رہے ہیں151 لکھاوٹ میں غلطی اورسائز اتنا چھوٹا کہ اے ٹی ایم نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے کہ اگر یہ بین اترپردیش انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں لگایا گیا تو آخر حکومت کی جلد بازی کی وجہ کیا تھی۔؟ جبکہ آر بی آئی کی مکمل تیاری نہیں تھی۔ کیا آر بی آئی کو یہ خیال بھی نہیں آیا کہ اے ٹی ایم مشین میں چھوٹے سائز کے نوٹ قبول نہیں کیے جاسکتے۔؟ آخر کیا وجہ تھی کہ حکومت نے ۸ تاریخ رات کے ۸ بجے اعلان کیا اور اعلان کے صرف چار گھنٹے بعد ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کردی۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ پہلے دو دن، پھر ایک ہفتہ، کا وقت مانگا گیا151 جب حکومت نے محسوس کیا کہ موجودہ صورت حال سے نمٹنے میں وقت لگے گا تو 50 دن کا وقت مانگ لیا۔ موجودہ حکومت کے کارناموں کی مثال اس بچے سے دی جاسکتی ہے جو اپنی فاش غلطی کو سچ ثابت کرنے میں اڑا ہے اور مسلسل نئے نئے جھوٹ سے اپنی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کررہاہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ عوام کو یہ جاننے کا حق کیوں نہیں کہ کالادھن واپس لانے یا کالا دھن پر شکنجہ کسنے والے مودی نے محض دو برس میں70کروڑ سے زائد روپے اپنے لباس پر کیوں خرچ کیے۔ اس سے کہیں زیادہ بڑی رقم غیر ممالک اسفار میں خرچ ہوئی۔ کروڑوں کا بینک لون اڈانی کا معاف کیاگیا۔ امبانی کے 75 ہزار کروڑ کا ٹیکس معاف کرایا۔ بینک میں قطار لگائی۔ سونے کی بلیک مارکیٹنگ کرائی۔ پٹرول پمپ کے مالکوں کو راحت پہنچائی۔646 لوگوں پر لگام کیوں نہیں کسی گئی جن کے اکاؤنٹ نمبر سوئس بینک نے جاری کیے۔ اڈانی، مالیا، ٹاٹا برلا سے الگ مودی اگرقطار میں کھڑے غریبوں کو کالادھن کے پجاری کہہ رہے ہیں تو اس سے ان کی نیت پر شبہہ ہوتا ہے۔ کیجریوال نے مودی پر بدعنوانی کا الزام تو لگایا مگر مودی اور ان کی کابینہ ایسے الزامات پر توجہ نہیں دیتی۔ معاشی ایمرجنسی کا جواب بھاجپا لیڈر جناردن ریڈی کی بیٹی کی شادی میں 500 کروڑ سے زائد رقم خرچ کرکے دیا گیا۔ اس شادی میں تمام بھاجپائی بڑے لیڈران جمع تھے۔ یہ صاف ہوگیا ہے کہ یہ ایمرجنسی صرف غریبوں کے لیے ہے۔ مودی کو یہ نہیں بھولنا چاہے کہ ایک دن جنتا جاگ گئی تو سارا ملک ایک سر میں دنکر کی طرف چیخ اٹھے گا۔ ’سنہاسن خالی کرو۔ جنتا آتی ہے۔‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔