کیا واقعی کشمیر مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے؟

شاہد جمال فلاحی

                           ہندوستا ن کا تاج کہے جانے والے کشمیر میں گزشتہ20 دنوں سے جاری تشدد رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔  اس تشدد کا آغاز گزشتہ 8 جولائی کو 22 سالہ نوجوان برہان وانی  کے پولس انکائونٹر میں مار ے جانے کے بعد ہوا،   برہان وانی پر یہ الزام تھا کہ اس کا تعلق’ حزب المجاہدین’ـ سے تھا اور  وہ کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔  برہان وانی کا انکائونٹر صحیح تھا یا غلط اس بحث سے اوپر اٹھ کر میری دلچسپی اس بحث میں ہے کہ آخر کشمیر میں دہشت گردی کے پنپنے کی وجوہات کیا ہیں؟  میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آزادی سے لے کر اب تک کشمیر صحیح معنوں میں جنت کیوں نہیں بن سکا؟ میری دلچسپی اس سوال میں بھی ہے کہ حکومت نے کشمیر میں امن و امان بحال کرنے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے  نیز یہ کہ ان اقدامات کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟  بحیثت ہندوستانی شہری مجھے یہ بھی جاننا ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کی ترقی میں کشمیر کی ترقی کا گراف کیا ہے؟ بچوں کی تعلیم اور نوجوانوں کے روزگار کی کیا پوزیشن ہے؟

ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے  کہ جب جب ہم کشمیر پہ بحث کرتے ہیں تو کشمیریوں کو بھول جاتے ہیں؟  ملٹری آپریشن کرتے وقت وزارت داخلہ کی یہ کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ جنہیں ہماری فوج گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہے وہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں؟ ٹیلی ویژن کی بحثوں میں چیختے ہوئے دانشوران جب یہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے تو وہ یہ کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس اٹوٹ حصے کو سیاسی سازشوں اورسفارتی مصلحتوں نے فالج زدہ بنا دیاہے۔ کشمیر مسئلے کے حل کیلئے  ائر کنڈیشن کمرے میں بیٹھ کر بحث میں حصہ لینے والے سیاسی ماہرین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی جنت کو کب کا جہنم میں تبدیل کیا جا چکا ہے  اور اب کشمیر کو وادی کہنا غلط ہے بلکہ اب یہ مکمل فوجی چھائونی بن  چکی ہے۔  یہ بھی ایک المیہ ہیکہ ہم کشمیر کے موضوع پر لمبی لمبی بحثیں کرتے ہیں اورکشمیریوں پر ہونے والی فوجی جارحیت کو بھول جاتے ہیں،  کشمیریوں کا درد، ان کی ذہنی کیفیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کشمیر میں امن و امان بحال کرنے کے نام پر سیکڑوں جانیں جاتی ہیں، سیکڑوں عوام کو اسپتال میں منتقل کر دیا جاتا ہے،  ان سے ان کی بینائی چھین لی جاتی ہے۔ AFSPA جیسے سخت انسان مخالف قوانین کے ذریعہ کشمیر کی  عوام سے ان کی شخصی آزادی سلب کر لی جاتی ہے ،  نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے بجائے جیلوں میں بند کر کے ان سے ان کا مستقبل چھین لیا جاتا ہے، کرفیو نافذ کر کے اسکولوں کو مقفل کر دیا جاتا ہے اور بچوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

میڈیا نے برہان وانی سے تو عوام کو متعارف کرا دیا لیکن کشمیر میں آزادی سے لیکر اب تک کی جانے والی فوجی جارحیت کا سچ عوام کو دکھانا ضروری نہیں سمجھا، کشمیر کے تئیں حکومت کی ناکامیوں کا تجزیہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہاں رہ رہے لوگوں کی عام کیفیت کی ترجمانی میں بھی میڈیا کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کشمیر کے تئیں میڈیا کا یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ صرف اس وجہ سے  ہے کیونکہ کشمیر کا سچ ٹی آرپی میں اضافہ نہیں کر سکتا  اور میڈیا کا مدار اور محور محض ٹی آر پی ہے چاہے  اس کی خاطر انہیں  ضمیر ہی کیوں نہ فروخت  کرناپڑے، صحافت کے اصولوں سے  ہی سمجھوتہ کیوں نہ کرنا پڑے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر میں جاری تشدد  کی تاریخ گزشتہ 8 جولائی نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ70 سالہ پرانی ہے۔  اور اب توایسا لگتا ہے کہ کشمیر، ہندوستان  اور پاکستان کے بیچ ہونے والے فٹ بال  میچ کی وہ گیند بن کر رہ گیا ہے، جسے کبھی پاکستان اپنا سیاسی گول داغنے کیلئے استعمال کرتا ہے تو کبھی ہندوستان  اسے اپنے پیروں سے اچھالتا ہے۔ کشمیر میں زندگی گزارنے والے عوام کی زندگیاں بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ڈر اور خوف کا ایسا ماحول ہیکہ وہاں رہ رہے لوگوں کو اپنی ہر سانس آخری سانس محسوس ہوتی ہے۔ سڑک پر احتجاج کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں موجود پتھر کو ہندوستانی میڈیا توپ کے طور پر دکھاتی ہے لیکن ان نوجوانوں کی آنکھوں میں موجود غم و غصہ کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ان کی آنکھوں میں موجود غم و غصہ  2-3 ہفتہ پرانا نہیں ہے بلکہ سالہا سال کی ظلم و زیادتی، نا انصافیوں، فوجی جارحیت، حکومت کی عدم توجہ اور اپنوں کے کھونے کے غم کا نتیجہ ہے۔

حالیہ تشدد کو روکنے کیلئے حکومت ہند نے جو طریقہء کار اختیار کیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور  اس امر کی نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری  دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے۔ Pellet Guns کے استعمال کے ذریعہ درجنوں افراد کی آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی، آج بھی بہت سے افراد اسپتال میں زیرعلاج ہیں، ان میںمعصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے حکومت نے ہمیشہ ہی دوہرہ رویہ اختیار کیا ہے۔ احتجاج کرنے والوں میں جب مسلمان شامل ہوتے ہیں تو حکومت فوج اور Pellet Guns  کا استعمال کرتی ہے اور جب احتجاج مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسری کمیونٹی کے ذریعہ کیا جاتا ہے تو حکومت خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں  احتجاج کو قابو میں کرنے کیلئے پولس جارحیت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور چند ماہ قبل جب ہریانہ میں جاٹ آندولن ہوتا ہے  اور اس میں باوجود غیر معمولی جانی و مالی نقصان کہ حکومت محض خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

                    کشمیر کے تئیں حکومت کی لاپرواہیوں اور غیر ذمہ داریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے خلوص کے ساتھ کشمیریوں کے مسائل کو سلجھانا تو دور انہیں سمجھنے کی کوشش تک نہیں کی ہے۔ کشمیر کے لئے جو بھی منصوبے بنائے گئے ان میں نفاق و تعصب کی آمیزش رہی ہے۔  جب موٗرخ ملک کی تاریخ لکھے تو وہ یہ لکھے گا کہ کشمیر میں لوگوں کی آنکھیں نوچی جا رہی تھیں اور ملک کے وزیر اعظم  تنزانیہ میں ڈرم بجا رہے تھے۔ وہ یہ بھی لکھے گا کہ ہندوستانی فوج کے ذریعہ  برہان وانی کے نام پر دہشت گردی کے الزام میں کشمیر کے نوجوانوں کی بلی چڑھائی جارہی تھی اور پورا ملک خاموش تماشہ دیکھ رہا تھا۔ وہ  ضمیر فروش میڈیا کے نفاق  سے لبریز رویے کو بھی قلمبند کرے گا۔ وہ یہ بھی لکھے گا کہ ملک کے تاج کو خود ملک کی قیادت نے ہی بار بار اچھال کر  اس کی عزت کو پامال کیا۔

                کشمیر میں پنپ رہی دہشت گردی پر بات کرنے سے پہلے ہمیں ان وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا جو دہشت گردی کیلئے محرک ہے۔  اگر کشمیر میں جاری انتہاپسندی اور تشدد کو روکنے میں AFSPA جیسے قوانین معاون ہوتے تو اب تک کشمیر میں کب کا امن بحال ہوچکا ہوتا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کا حل AFSPA یا فوجی آپریشن نہیں ہے۔ کشمیر میں حالات بحال رکھنے اور  امن و امان قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کشمیریوں کو اعتماد میں لیا جائے، انہیں بھی عام ہندوستانیوں کی طرح سمجھا جائے، AFSPA جیسے سخت قوانین کو منسوخ کیا جائے، عوام کو ترقیاتی کاموں سے جوڑا جائے،  بچوں کی تعلیم کو یقینی بنایا جائے، نوجوانوں کیلئے روزگار  کے مواقع فراہم کئے جائیں۔  اگر واقعی ہم نے  ان امور میں کامیابی حاصل کرلی تو میرا یقین مانئے کشمیر میں امن و امان  بحال کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی خوبصورتی کو بھی قائم  رکھنے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے اور کشمیر کی اصل خوبصورتی  اس کا پر سکون ماحول ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔