سعید رضاء القادر سعید رامشؔ کی دو کتابوں کا اجرا

تمہارا بس اگر چلتا اجالے چھین لیتے٭ مری پہچان کے سارے حوالے چھین لیتے

        لکھنؤ۔۳۱؍جولائی(ڈاکٹر ہارون رشید)مسرور ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام سینٹ روز پبلک اسکول گڑھی پیر خاں ٹھاکرگنج میں صوفی خانوادے کے چشم و چراغ و دبستان رامپور کے خوش اسلوب شاعر سعید رضاء القادر المتخلص رامشؔ رامپوری کے دو شعری مجموعۂ کلام ’’گیت بھی تو غزل بھی تو‘‘ اور’’ سورج کے سائے‘‘کی تقریب اجرا انجام پائی۔ خانقاہ شاہ عبدالرحمن کے سجادہ نشین صوفی سید اظہار علی کی سرپرستی میں ہونے والی تقریب کی صدارت لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے کی جب کہ نظامت کے فرائض معروف شاعر شکیل گیاوی نے انجام دئیے۔ مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر انیس انصاری (سابق وائس چانسلر خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی) اور بطور مہمان اعزازی ڈاکٹر ظہیر رحمتی(اسسٹنت پروفیسر ،ذاکڑ حسین پی جی کالج دہلی) نے شرکت کی۔ مسرور ایجوکیشنل سوسائٹی کے مینیجر ڈاکٹر منصور حسن خاں نے نعتیہ کلام سے تقریب کا با برکت آغاز کیا۔

        اس موقع پر رامش رامپوری کی شعری کائنات کے محاسن پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عباس رضا نیر نے کہا کہ’’ گیت بھی تو اور غزل بھی تو‘‘ میں عشقیہ فضا ہے اور رامش کی ددوسری کتاب ’’سورج کے سائے‘‘تک آتے آتے جیسا کہ نام ہی بتاتا ہے کہ شاعر کتنامیچیور ہو چکا ہے۔ اس کا شعور بالغ ہو چکا ہے۔ڈاکٹر نیر نے کہا کہ شاعری اور صحافت کی زبان میں فرق ہے۔ شاعری کھردری زبان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔انھوں نے کہا کہ تہذیب کی شکستہ دیواروں کو سنبھالنا شاعر کی ذمہ داری ہے۔رامش کی شاعری کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انھوں نے یہ ذمہ داری بھی بخوبی نباہی ہے۔ڈاکٹر نیر نے کہا کہ امید کی جانا چاہئے کہ رامش کی شاعری کی تعیین قدر کا جو سلسلہ یہاںشروع ہوا ہے وہ جاری رہے گا۔ڈاکٹر انیس انصاری نے کہا کہ سعید رامش کے شاعری میں لکھنؤ اور رام پور اسکول کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفقؔ نے رامشؔ کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس تقریب میں جو مقالے رامش کی شاعری کے تعلق سے پڑھے گئے اور جو کچھ ان میں کہا گیا رامشؔ صاحب کی شاعری اس سے بہت آگے ہے۔انھوں نے کہا کہ رامشؔ کی شاعری میں وہ تمام جہات اور امکانات پائے جاتے ہیں جو کسی بھی قابل ذکر شاعری کے لئے ضروری تصور کئے جاتے ہیں۔رضوان فاروقی نے اپنے مقالے میں رامپور دبستان کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے سعید رامشؔ کے شعری محاسن کا احاطہ کیا ۔ ڈاکٹر ظہیررحمتی نے کہا کہ سعید رامش کے یہاں غزل کا کینوس وسیع ہے ان کے یہاں زندگی کی رعنائیاں اور سماجی معاملات شعری پیرائے میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ڈاکٹر سعید سندیلوی نے اپنے مضمون میں رامش رامپوری کی سوانح پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی شاعری اور ان کے عہد کا احاطہ کیا اور بتایا کہ کس طرح رامش کی شاعری میں سماجی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔صوفی صید اظہار علی نے کہا کہ تصوف سے قربت نے رامش کی شاعری میں خیال کی پاکیزگی  کے ساتھ ساتھ الفاظ کے انتخاب کو بھی منفرد بنایا ہے۔ ڈاکٹر شریف قریشی رامپوری کا مقالہ ناظم تقریب شکیل گیاوی نے پیش کیا۔

        تقریب کے دوسرے مرحلے میں مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ جن مقامی اور بیرونی شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیاان میںسعید رامش رامپوری، آل ہاشم رضوی، قمر گونڈوی، عزیز بقائی، ڈاکٹر معراج ساحل، ڈاکٹر ظہیر رحمتی، ڈاکٹر مخمور کاکوروی،فرقت لکھیم پوری،رفعت شیدا صدیقی،شکیل گیاوی، ڈاکٹر رضوان الرضا علیگ، ڈاکٹر ہارون رشید، رضوان فاروقی، ڈاکٹر منصور حسن خاں، حیدر علوی،یقین فیض آبادی،زاہد حسین زاہد لکھنوی،ساحل عارفی،عزم گونڈوی، انور جمال انور، مسرور شاہجہانپوری، سلیم تابش، فاروق عادل، عاشق رائے بریلوی، شہریارجلالپوری، گوگل ہندوستانی، صارم لکھنوی اورحامد لکھنوی کے اسماء موجب اعتناء ہیں۔خصوصی شرکاء میںسوسائٹی کے صدر حافظ ابوالکلام،اجے سنگھ ریسرچ اسکالر،امیر احمد صدیقی،سید طیب کوکب،افتخار احمد،ڈاکٹر نسیم احمد اور مصور احمد کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

پروگرام کے اختتام پر محمد کلیم خاں نے کلمات تشکر ادا کئے۔

تبصرے بند ہیں۔