کیا یوپی میں بھاجپا کو سرخرو اویسی کریں گے!

یوپی الیکشن کو 2019 کے عام انتخابات کی تیاری کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ دنیا کی نگاہیں  اس پر لگی ہیں  لیکن سیاسی پارٹیوں  کی نگاہیں  مسلم ووٹروں  پر۔ کیوں کہ 403 سیٹوں  والی اسمبلی میں  تقریباً آدھی پر ان کا اثر ہے۔ یوپی الیکشن میں  ایس پی کانگریس گٹھ بندھن، بی جے پی اور بہوجن سماج پارٹی کرو یا مرو کی حالت میں  ہیں۔ اکھلیش یادو کیلئے یہ جیت کتنی اہم ہے اس کا اندازہ پارٹی کی قیمت پر کانگریس کے ساتھ سمجھوتے سے لگایا جاسکتا ہے۔ دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کیلئے ریاست سے ختم ہوتی کانگریس کو انہوں  نے 105 سیٹیں  دے دیں۔ اکھلیش یادو کیلئے یہ لڑائی وزیراعلیٰ بننے کی ہے لیکن راہل گاندھی کیلئے یہ چنائو وجود کی لڑائی سے کم نہیں  ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں  ہوئی ہار کے بعد راہل کی لیڈر شپ میں  کانگریس کا ستارہ گردش میں  ہے۔ کانگریس نے ان سبھی جگہ ہار کا سامنا کیا جہاں  پہلے   اس کی سرکار تھی۔ بہار میں  لالو نتیش کے کندھے پر سوار ہوکر راہل نے اپنی پارٹی کے کارکنوں  کو مسکرانے کا موقع دیا، اب اسی راستے پر چل کر انہوں نے اکھلیش یادو کا ہاتھ تھاما ہے۔

نریندر مودی اور مایاوتی کیلئے یہ چنائو سب سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ دونوں  کیلئے یہ جیت ضروری ہے۔ اگر ہار گئے تو دونوں  کے سیاسی مستقبل پر گہن لگ جائے گا۔ اعلیٰ ذاتوں  کو ساتھ لانے کے چکر میں  دلت، پسماندہ ووٹوں  نے مایاوتی کا ساتھ چھوڑدیا تھا۔ اس کی وجہ سے 2014کے الیکشن میں  انہیں  ایک بھی سیٹ نہیں  مل سکی۔ بدلے ہوئے سیاسی حالات میں  دلت آج ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ریاست میں  دلت مسلمانوں  کا وفاق بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلم ووٹوں  کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سب سے زیادہ مسلمانوں  کو ٹکٹ دیئے ہیں۔ اگر وہ اس چنائو میں  ہار گئیں  تو دلت ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ ایسی صورت میں  ان کی حالت رام ولاس پاسوان جیسی ہوجائے گی۔ نریندرمودی کیلئے یہ چنائو ان کی عزت اور سیاسی مستقبل سے جڑا ہے۔ یہ الیکشن ان کی سرکار کے  پونے تین سالہ فیصلوں  پر بھی مہر لگائے گا۔ اس لئے وہ یوپی میں  بہت زیادہ وقت دے رہے ہیں۔ اگر بھاجپا ہار گئی تو ان کی جتائو نیتا کی شبیہ ختم ہوجائے گی۔ ان کو باوجود اس کے کہ بھاجپا کے پاس کوئی لیڈر نہیں  ہے پھر بھی پارٹی ان کے اندر سے چنوتیاں  ملنے لگیں گی۔ اس ہار کے بعد 2019 میں  لوک سبھا کا انتخاب جیت کر اقتدار میں  آنے کا ان کا یقین  بھی کمزور پڑ جائے گا۔

ایسی صورت میں  ریاست کے سیاسی مستقبل کا انحصار مسلم اور نوجوان ووٹروں  کی سوجھ بوجھ پر ہے۔ یوپی میں  19.31فیصد مسلم ووٹ ہیں  جبکہ تقریباً 40فیصد ووٹر ایسے ہیں  جن کی عمر 18 سے 39 سال کے بیچ ہے۔ اسمبلی کی 403 سیٹوں میں  سے 68 پر مسلم ووٹوں  کا فیصد35سے 78 ہے۔ ان میں  12 فیصد سیٹیں  ریزرو ہیں۔ لیکن مسلمانوں  کے بکھرائو کی وجہ سے 60 فیصد سیٹوں  کی نمائندگی غیر مسلم کررہے ہیں۔ 89 حلقے ایسے ہیں  جہاں  مسلم آبادی 20 سے 28 فیصد تک ہے۔ 44 پر 15 سے 19 فیصد اور 91 پر 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہیں۔ 108 سیٹوں  پر مسلم آبادی 10-5 فیصد ہے۔ مسلمانوں  کا یوپی میں اتنا بڑا ووٹ بینک ہے کہ وہ اپنی بنیاد پر اپنی سیاست کھڑی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں  کے مسلمان ہمیشہ دوسروں  کے پیچھے چلتے رہے، اس کے نتیجے میں  انہیں  زندگی کے کسی بھی شعبے میں  وہ نمائندگی نہیں  مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔

اترپردیش کے مسلمانوں  کا المیہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی سیاسی سمجھ کا استعمال نہیں  کیا۔ انہوں نے ہمیشہ ہوش پرجوش کو اور سوچ پر فتویٰ یا مشورے کو اہمیت دی۔ ملی دانشوروں،  مذہبی قائدین، سماجی لیڈران، فلاحی تنظیموں  اور علاقائی پارٹیوں  نے ان کے جذبات سے کھیلنے اور کنفیوز کرنے کی کوشش کی۔ یہاں  کے مسلمانوں  نے یہ غور کرنے کی زحمت نہیں   کی کہ ان نام نہاد مذہبی ملی قائدین اور علاقائی پارٹیوں  (اب اس میں  اویسی کی پارٹی بھی شامل ہے) کو الیکشن کے وقت ہی ان کی یاد کیوں  آتی ہے؟ یہ بھی دھیان نہیں  دیتے کہ پچھلے انتخاب میں  انہوں نے کس کو ووٹ دینے کی تلقین کی تھی، اب کس کے حق  میں ووٹ ڈالنے کا دبائو بنارہے ہیں  اور کیوں ؟ وہ کبھی فرقہ پرستی کو موضوع بناتے ہیں  تو کبھی جذباتی ولچھے دار تقریروں  میں  مسلمانوں  کی پریشانی، بدحالی، مظلومیت اور تکلیفوں  کا رونا روتے ہیں۔ مسلمانوں  کو باوقار بنانے اور اوپر اٹھانے کی باتیں  کراپنی پسند کے لوگوں  کو ووٹ دینے کا دبائو بناتے ہیں۔ یہ الیکشن کے دوران امیدواروں  سے زیادہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں  لیکن انتخابات کے بعد کبھی دکھائی نہیں  دیتے۔ اس طرح مسلمان اور ان کے ووٹ اور  بھی بے وقعت ہوجاتے ہیں۔

بھاجپا نے یوپی کے ماحول کو کئی مرتبہ گرمانے کی کوشش کی۔ الیکشن کے درمیان بھی برابر ایسے بیان آتے رہے ہیں  جن سے ووٹوں  کو اکٹھاکیا جاسکے لیکن اسے اتفاق کہئے یا جاٹوں  اور یادوں  کے اپنی سیاست کو بچانے کی کوشش کہ ان باتوں  کوپر نہیں  لگ پا  ر ہے۔ رام مندر کا مدعا بھی اپنا اثر نہیں  دکھا پارہا۔ مودی اور شاہ کی ریلیوں  میں  ہواہوائی باتیں  ہورہی ہیں  یا پھر چناوی جملے بازی۔ یوپی کے لوگ ان کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ مودی اور شاہ کے لطیفوں  کا مزہ لے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بھاجپا کو سیدھے مقابلے میں  کامیابی نہیں  ملتی۔ اس لئے اس کی کوشش سہ رخی یا چوطرفہ مقابلہ کرانے کی ہوتی ہے۔ چھوٹی اور علاقائی پارٹیاں  اس میں  بھاجپا کی معاونت کرتی ہیں۔ یہ ووٹ کٹوا پارٹیاں  ہی اسے سرخروئی دلاتی ہیں۔ یوپی میں  منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم ووٹوں  میں  سیندھ لگانے کا کام جاری ہے۔

سیاسی پارٹی کی حیثیت میں  اسد الدین اویسی ملک میں  کہیں  بھی الیکشن لڑسکتے ہیں۔ بہار میں  ناکامی کے بعد جس طرح وہ یوپی میں  زمین تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں  اس سے مسلم ووٹوں  کے بکھرائو کا پورا امکان ہے۔ پہلے خبر آئی تھی کہ وہ بی ایس پی کے ساتھ مل کر چنائو لڑیں گے، پھر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی سے ا ن کاالحاق ہو رہا ہے۔ شاید اویسی صاحب کی جذباتی اور یک رخی سیاست سے انہوں  نے اتفاق نہیں  کیا اس لئے گٹھ بندھن نہیں  ہوسکا۔ ویسے یوپی کا ماحول ان کی سیاست کیلئے غذا فراہم کرسکتا ہے۔ انہوں نے پہلے دو مرحلے کے انتخاب میں اپنی پارٹی کے گیارہ امیدوار اتارے ہیں۔ خبر کے مطابق انہوں نے 40 امیدواراتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن میں  تین ایس سی امیدوار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر ٹکٹ ایسے اسمبلی حلقوں  سے دیئے ہیں  جہاں  مسلم ووٹوں  کی اکثریت ہے۔ مثلاً کیرانہ، کول (علی گڑھ) بہیٹ، سہارنپور، امروہہ، مرادآباد سٹی، مرادآباد (دیہات)، کندر کی، سنبھل، آگرہ (سائوتھ) رام نگر، اترولہ، کیسر گنج، کھڈا (خوشی نگر)شہرت گڑھ (سدھارتھ نگر)مہہ نگر (اعظم گڑھ) فیروز آباد سٹی، بریلی سٹی، لکھنؤ ویسٹ، لکھنؤ سینٹرل، نجیب آباد، نگینہ،  الہ آباد سائوتھ، آریہ نگر (کانپور) ٹھاکر دوارہ، سلطانپور، بلگرام اور بدایوں  وغیرہ، اگر مسلمانوں  نے ان کی غمگساری اور قومی جذباتیت پر ذرا بھی توجہ دی تو ان سب جگہوں  پر بی جے پی کو سیدھے طورپر فائدہ ہوگا۔ اویسی فیکٹر ان سیٹوں  پر بھاجپا کی سرخروئی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔جس طرح مہاراشٹر میں  انہیں  کی بدولت بی جے پی،  شیو سینا  اقتدار میں  ہے۔

 بہار کے مسلمانوں  نے تواپنی سیاسی سمجھ اور شعور کا مظاہرہ کر اویسی کی پارٹی کو سرے سے مسترد کردیاتھا۔ اس کی بڑی وجہ اویسی صاحب کا مسلمانوں  کے بنیادی مسائل کے بجائے فروعی مسائل پر زور دینا تھا۔ وہ صرف بات کے بھات سے لوگوں  کا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔ ان کے یوپی میں  الیکشن لڑنے سے یہاں  کے مسلمانوں  پر بڑی ذمہ داری آگئی ہے کہ وہ ان کے امیدواروں  کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں  میں  آکر وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو برباد کرتے ہیں۔ فرقہ پرستوں  کو جیتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یاپھر اپنی سمجھداری کا استعمال کر اپنا وزن اور وقار بڑھاتے ہیں۔ کبھی کبھی چھوٹی سی غلطی کی سزا لمبے عرصہ تک بھگتنی پڑتی ہے۔ یوپی کے لوگ دماغ کا کام دل سے لینے کیلئے مشہور ہیں۔ لیکن سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ امید ہے کہ وہ ووٹ دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر لیں گے۔ جذباتی ہوکر کسی بہکاوے میں  آسانی سے نہیں  آئیں گے۔ کیوں کہ جذباتی ہوکر فتوئوں  اور مشوروں  کے بہکاوے میں آکر ووٹ دینے کے نقصان وہ باربار دیکھ چکے ہیں۔ یہ الیکشن کے نتیجے بتائیں گے کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر ووٹ کا فیصلہ لیا یا پھر یوپی میں  کمل کھلانے والوں  کا ساتھ دیا۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔