لقمان حکیم (قسط دوم)

جناب لقمان نبی تھے یاحکیم ؟

 حضرت لقمان کا نام قرآن مجید کی سورہ لقمان کی دو آیات میں آیاہے ۔آیا آپ پیغمبر تھے یا صرف ایک دانا اورصاحب حکمت انسان ؟قرآن کریم میں ا س کی کوئی وضاحت نہیںملتی لیکن اس کا لب ولہجہ اس بات کی طرف نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ پیغمبر نہیںتھے جیساکہ اکثر مورخین نے اس کی تائید کی ہے ۔لیکن بعض حضرات جیسے عکرمہ،اسدی اورشعبی وغیرہ ان کی نبوت کے قائل ہیں ۔(تفسیر فیضان الرحمٰن مفسر الشیخ محمد حسین نجفی جلد 7 صفحہ 331طبع ثناء پریس سر گودھا)

عام طور پر پیغمبروں کے بارے میںجو گفتگو ہوتی ہے اس میں رسالت ،توحید کی طرف دعوت ،شرک اورماحول میں موجود بے راہ روی سے نبرد آزمائی،رسالت کی ادائیگی کے سلسلے میںکسی قسم کی اجرت کاطلب نہ کرنا،نیز امتوں کوبشارت وانذار کے مسائل وغیرہ دیکھنے میںآتے ہیں ۔جبکہ آپ کے بارے میںان مسائل میںسے کوئی بھی بیان نہیںہوا ہے ۔صرف ان کے پند و نصائح بیان ہوئے ہیں۔جو اگر چہ خصوصی طور پر تو اپنے فرزند کے لئے ہیںلیکن ان کامفہوم عمومی حیثیت کا حامل ہے او ر یہی چیز اس بات پر گواہ ہے کہ وہ صرف ایک مرد حکیم و داناتھے،جو حدیث پیغمبر گرامی سے نقل ہوئی ہے اس طرح درج ہے ۔

’’حقا اقول لم یکن لقمان نبیاولکن کان عبداکثیرالتفکر،حسن الیقین،احب اللہ فاحبہ ومن علیہ بالحمکۃ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ لقمان پیغمبر نہیںتھے بلکہ وہ اللہ کے ایسے بندے تھے جو زیادہ غور وفکر کیاکرتے تھے ۔ان کاایمان و یقین اعلیٰ درجہ پر فائز تھا ۔خداکو دوست رکھتے تھے اور خدا بھی ان کو دوست رکھتاتھااور اللہ نے انہیںاپنی نعمتوںسے مالامال کردیا تھا ۔(تفسیر نمونہ زیر نظر آیۃ۔۔۔ناصر مکارم شیرازی جلد ۹صفحہ 431ناشر مصباح القرآن ٹرسٹ )

’’و عن سعید بن مسیب۔۔۔اعطاہ اللہ الحکمۃومنعہ النبوۃ‘‘

اللہ نے ان کو اگر چہ نبوت نہیںعطاکی لیکن حکمت و دانائی سے حصہ وافر عطا فرمایاتھا ۔(تفسیر ابن کثیر بحوالہ قصص القرآن ۔۔۔)

’’والمشھور عن الجمھور انہ کان حکیما ولیا ولم یکن نبیا‘‘

اور جمہور کا مشہور قول ہے کہ لقمان خداکے ولی اورحکیم ودانا تھے لیکن نبی نہیںتھے ۔(قصص القرآن ،تالیف محمد حفظ الرحمان ،جلد ۳اور۴ صفحہ ۴۲طبع دارالاشاعت اردو بازار ،ایم اے جناح روڈ ،کراچی پاکستان)

بغوی نے کہاہے کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ فقیہ اور حکیم تھے لیکن نبی نہیںتھے ۔

ابن کثیر نے قنادہ سے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب روایت نقل کی ہے کہ اللہ نے جنا ب لقمان کو اختیار دیا تھا کی نبوت لے لو یا حکمت تو انہوںنے حکمت کواختیار کیا ۔

بعض دوسر ی روایت میںہے کہ ان کو نبوت کا اختیار دیاگیا تھا ۔انہوںنے عرض کیا کہ اگر قبول کرنے کا حکم ہے تو میرے سر آنکھوںپر ورنہ مجھے معاف فرمائیں ۔(معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع جلد 7 صفحہ 34طبع ادارۃ المعارف ،کراچی ،پاکستان )

حکمت عطا کئے جانے کے اسباب

  جب یہ بات مسلم ہے کہ جناب لقمان نبی نہیںبلکہ ایک دانا و حکیم شخص تھے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے حکمت کے اسباب و علل بیان کئے جائیں ۔

روایت میں وارد ہواہے کہ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ تو ایک چرواہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ کیاتو وہی نہیں ہے جو میرے ساتھ فلاں جگہ بکریاں چرایا کرتا تھا ؟

آپ نے فرمایا:ہاں! میں وہی ہوں ۔

اس نے کہاکہ پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟

ٓٓآپ نے فرمایا:سچ بولنے اور بے کار کلام نہ کرنے سے ۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کافضل اورامانت کی ادائیگی اور کلام کی سچائی اوربے نفع کاموں کو چھوڑدینا۔(ابن کثیر ،مفسر ابوالفداء اسمٰعیل ابن عمر ابن کثیر ،جلد ۴ صفحہ ۴۹ناشر ،فواز نیاز،مطبع نواز پرنٹنگ پریس ،لاہور )

 روایت میں وارد ہواہے کہ ایک شخص نے لقمان سے کہا کہ کیا ایسا نہیںہے کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر بکریاںچرایا کرتے تھے؟

آپ نے جواب دیا :ہاں ! ایسا ہی ہے ۔

اس نے پوچھا تو پھر آپ کو یہ سب علم و حکمت کہاںسے نصیب ہوا؟

آپ نے فرمایا:’’قدراللہ واداء الامانۃ و صدق الحدیث والصمت عما لایعنی‘‘

اللہ کی قدرت ،امانت کی ادائیگی ،بات کی سچائی اورجو چیز مجھ سے تعلق نہیںرکھتی اس سے خاموشی اختیار کرنے سے۔(مجمع البیان در ضمن تفسیر سورہ لقمان )

بعض روایت میںوارد ہو اہے کہ حضرت لقمان نے فرمایا:چند کام ایسے ہیںجنہوںنے مجھے اس درجہ پر فائز کیا۔اگر تم بھی اختیار کرلوتو تم بھی اس مقام ومرتبہ تک رسائی کرلوگے ۔اور وہ مندرجہ ذیل ہیں ؛

اپنی نگاہوں کو پست رکھنا ،زبان کو بند رکھنا ،حلال روزی پر قناعت کرنا،اپنی شر مگاہ کی حفاظت کرنا،بات میںسچائی پر قائم رہنا،عہد کو پورا کرنا،مہما ن کا اکرام کرنا،پڑوسی کی حفاظت کرنا،فضول کام اورفضول کلام کو ترک کرنا۔(معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع جلد ۷ صفحہ ۳۵طبع ادارۃ المعارف ،کراچی ،پاکستان )

موطاامام مالک میںہے کہ جناب لقمان سے دریافت کیاگیاکہ آپ کو علم و فضل ملنے کاسبب کیاہے؟

آپ نے فرمایا:تین باتوںپر عمل کرنے سے یہ مقا م حاصل ہواہے ۔

(1) سچی باتیں کرنا۔

(2)امانت ادا کرنا۔

(3)بے مطلب کاموںکو چھوڑدینا۔(مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 445)

 حضر ت امام جعفر صادق نے فرمایا:بے شک جو حکمت جناب لقمان کو عنایت ہوئی تھی وہ ان کے حسب و نسب ،مال وجمال اور جسم کی بناء پر نہ تھی۔بلکہ وہ ایک ایسے مرد تھے جو حکم خدا کی انجا م دہی میں قوی اور طاقت ور تھے ۔گناہ اور شبہات سے اجتناب کرتے تھے ۔بہت زیادہ ساکت اور خاموش رہتے تھے ۔خوب غور و خوض کے ساتھ دیکھا کرتے تھے۔بہت زیادہ سوچا کرتے تھے۔تیز بین اوردن کے اول حصہ میں کبھی نہیں سوتے تھے ۔ مجالس میں مستکبرین کی طرح تکیہ نہیںلگاتے تھے۔اداب کو پوری طرح مد نظر رکھتے تھے۔لعاب دہن نہیںپھینکتے۔کسی چیز نہیں کھیلتے ۔کبھی بھی غیرمناسب حالت میں انہیں دیکھا نہیں گیا۔۔۔۔جب بھی دوآدمیوںکولڑتا جھگڑتا دیکھتے ان کے درمیان صلح کرادیتے ۔اگر کسی سے کوئی اچھی با ت سنتے تو اس کاحوالہ ،ماخذ اور تشریح تفسیر ضرور پوچھتے ۔فقہاء و علماء کے ساتھ زیادہ نشست و برخاست رکھتے ۔۔۔۔ایسے علوم کی طرف جاتے جن کے ذریعہ ہوائے نفس پر غالب آسکیں ۔اپنے نفس کا علاج قوت فکر و نظر ،سوچ بچار اور عبرت سے کرتے اور صرف ایسے کا م کی طرف جاتے جو ان کے دین اور دنیا کے لئے سودمند ہو۔جو امور ان سے متعلق نہیںہوتے اس میں دخل اندازی نہیںکرتے ۔اسی بناء پر اللہ نے انہیں حکمت ودانائی عطا کی تھی ۔(تفسیر نمونہ زیر نظر آیۃ۔۔۔ناصر مکارم شیرازی جلد ۹صفحہ 434ناشر مصباح القرآن ٹرسٹ )

 مختلف آثار میںجناب لقمان کے چند اخلاق و اطوار بیان کئے گئے ہیں جن کے سبب ا ن کوحکمت عطا ہو ئی تھی منجملہ :

خدا کے نیکو کار بندے تھے ۔

دن میں نہیں سوتے تھے۔

محفل میں تکیہ کاسہار انہیںلیتے تھے ۔

اس قدر باحیاتھے کہ ان کو پیشاب و پاخانہ اور غسل کرتے کبھی کسی نے نہیں دیکھا ۔

کسی چیز سے کھیلتے نہیں تھے ۔

خوف خدا سے ہنستے نہیںتھے۔

دنیا کی کوئی چیز مل جاتی تو خوش نہیں ہوتے تھے اور اگر کوئی چیز ضائع ہوجاتی تو غمزدہ نہیں ہوتے تھے ۔

کبھی کسی سے جھگڑا نہیںکیا۔

لڑنے والوںمیں صلح کراتے تھے۔

کوئی اچھی بات سنتے توقائل سے اس کی وضاحت کراتے اور پھر اسے یاد کرلیتے ۔

فقہاء و حکماء کی ہمنشینی اختیا ر کرتے تھے ۔

حکام کی تفتیش اور ان پر تنقید کیاکرتے تھے وغیرہ ۔۔۔۔(تفسیر صافی در ضمن سور ہ لقمان )

تبصرے بند ہیں۔