کیا  یوپی کو یہ ساتھ پسند ہے؟

سماج وادی کا کانگریس سے اتحاد ہوا تو کانگریس نے سماج وادی کے مخالف  پوسٹر ہٹا کر ایک نیا نعرہ دیا – یوپی کو یہ  ساتھ پسند ہے. لیکن سب سے پہلے یہ  ساتھ ملائم سنگھ کو ہی پسند نہیں  آیا، جن کا  کردار اب اڈوانی جی کی طرح سماج وادی میں  مارگ درشک کا   ہے. یعنی پارٹی کو صحیح سمت دینے والا یا راستہ بتانے والا – لیکن اس نیے  کردار سے نہ ملائم خوش ہیں، نہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باجود  شکست خوردہ  چھوٹے بھائی شیو پال یادو. شیو پال کو امید تھی کہ تاج و  تخت نہ سہی،  تاج و تخت کی سیاست کرنے کا انہیں  پورا موقع ملے گا. بھتیجے اکھلیش نے یہ موقع بھی ان سے چھین لیا. اب شیو پال کو سماج وادی سے ٹکیٹ ضرور ملا ۔ لیکن ٹکیٹ لے کر شیو پال نے اپنے دھماکہ خیز ارادے ظاہر کر دیے.

گیارہ مارچ کو اترپردیش  کی قسمت کے فیصلے  کا اعلان ہونے کے بعد وہ  اپنی الگ پارٹی بنائیں  گے. تب تک سماج وادی کا حشر دیکھیں گے. نئی پارٹی میں  ملائم کے ان حامیوں  کا بھی  کردار ہو گا، جو یا تو پارٹی چھوڑ گئے یا ابھی تک ملائم کا حشر دیکھ کر صد مے سے نکل نہیں  پائے ہیں. ادھر ملائم نے اکھلیش کی مخالفت میں   ان  امیدواروں  کی خبر  لی ہے، جنھیں  اکھلیش نے ٹکٹ نہیں  دیا ہے .. انہیں  کانگریس کے خلاف میدان میں  جانے کے لئے کہا ہے. سیاسی پلیٹ فارم پر راہل اور اکھلیش کے گلے ملنے کے باوجود سماج وادی پارٹی کے حامیوں  میں  یہ کشمکش موجود ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں  اور کس کا نہیں . ملائم کو لگتا ہے کہ جو 103 سیٹ سماج وادی سے کاٹ کر کانگریس کو دی گئی، وہ سماجوادی حامیوں  کو دی جا سکتی تھی. اکھلیش نے ملائم کی پسند کے 39  امیدواروں  پر بھی قینچی  چلا دی. ملائم کی مشکل یہ کہ سماج وادی کے لئے اب وہ ایک پٹا   ہوا مہرہ بن کر رہ گئے ہیں . اور اب اس کردار سے الگ ان کے پاس کچھ بھی نہیں  بچا ہے. دیکھا جائے تو سیاسی کشتی کے میدان میں  وہ اپنے بیٹے سے ہی مات کھا  چکے ہیں . رہی سہی عزت  کو گنوانے کے لئے اب ان کے بیانات ہیں  جو ایک چوٹ کھاے ہوئے  سیاستداں  کی مایوسی کو ہی ظاہر  کرتے ہیں .

کشمکش کی حالت میں  سونیا اور راہل ہیں . کانگریس جانتی ہے کہ ملائم کے حامی اب بھی کافی مقدار میں  ہیں . وہیں  شیو پال کے حامی بھی کم نہیں . موجودہ سیاسی حالات میں   یہ مخالف بیانات لگام لگانے کا کام کر سکتے ہیں . مختار انصاری اور ان کے  بھائی کے، بی ایس پی کا دامن تھامنے کے بعد یوپی کے سیاسی سروے  اچانک بدل  گئے ہیں . اس نئے ساتھ نے مایاوتی کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کا کام تو کیا ہے لیکن مایا وتی  جانتی ہیں  کہ اس بار کا مقابلہ آسان نہیں . اویسی نے بی ایس پی کا ساتھ حاصل کرنے کی کوشش تو کی مگر کامیابی نہیں  ملی. اب دیکھنا ہے، اویسی کے عوامی حمایت میں  جٹنے والی بھاری بھیڑ انہیں  انتخابات میں  کتنا فائدہ پهچاتي ہے یا اس بار بھی ان کا حشر بہار جیسا ہوتا ہے. ادھر بی جے پی اپنے کھیل میں  لگی ہے. اس پورے سیاسی بحران سے کسی کو فائدہ ہو گا تو وہ بی جے پی ہوگی. میڈیا چینلز ابھی سے یوپی کی طاقت  اپنے سروے میں  بی جے پی کے نام کر چکے ہیں . لیکن میڈیا کی  تصویر اب دنیا کے سامنے ہے اور ایسے سروے پر کسی کو بھی یقین نہیں  ہے.

یہ سچ ہے کہ اتر پردیش کی سیاست کے مرکزی دھارے میں  ابھی تک اکھلیش کا قد سب سے آگے تھا. لیکن ملائم کے مخالف بیانات نے سايكل ملنے کے باوجود ٹائر کی ہوا نکال دی ہے. امید سے بھری کانگریس کو اس کا سب سے زیادہ خمياذا بھگتنا  پڑ سکتا ہے. ویسے یوگی آدتیہ ناتھ بھی بی جے پی کی ہوا نکالنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔  لیکن اس سے بی جے پی پر کوئی مخالف اثر نہیں  پڑے گا. اس پورے کھیل میں  بحران صرف کانگریس کو ہے. ستاس سال بعد اقتدار میں  ہونے کے خواب اچانک دھندھلا ہو گیا  ہے. دیکھنا  ہے، مستقبل میں  اکھلیش اور راہل کا گلے ملنا  کیا گل کھلاتا ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔