مدارس اسلامیہ : مولاناابوالحسن علی ندوی ؒکی فکر کی روشنی میں

  دینی مدارس کی عظمت واہمیت کوہر باشعور انسان سمجھتا ہے،اور جن کو اللہ نے عقل ِ سلیم اور فہم ِ صحیح کی دولت سے نوازا ہے وہ ان مدارس کی عزت وقدر بھی کرتے ہیں  اور ان کے وجود کو ایک عظیم نعمت تصور کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان مدارس نے بر صغیر میں  بالخصوص دین اسلام کی حفاظت میں  بڑا قابل ِ قدر کردار اداکیا، اور تعلیمات ِ اسلامی کی اشاعت میں  ناقابل ِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ دنیا کے ہنگاموں  میں  خاموش لیکن ٹھوس انداز میں  یہ مدارس خدمت ِ دین میں  نہایت یکسوئی کے ساتھ مصروف ہیں، معاشر ہ کی بنیادی دینی ضرورتوں  کی تکمیل اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں  شب و روز لگے ہوئے ہیں۔ سرد وگرم حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے،شیریں  وتلخ مرحلوں  سے گزرتے ہوئے، موج ِ بلاخیز کے تیز وتند تھپیڑوں  سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اور بادِ مخالف کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے انسانیت کی تعمیر، افراد کی تیاری اور تحفظ ِ دین کے لئے ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ان مداراس کی ابتداء صفہ ٔ  نبویﷺ سے ہوتی ہے اور آج تک وہ اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ مصروف ِ خدمات ہیں۔ بوریا نشینوں  کی خاموش لیکن انقلاب آفریں  خدمات کے اثرات و ثمرات کا ادارک کرتے ہوئے دوراندیش علامہ اقبالؒ نے پوری دردمندی سے کہا تھاکہ:’’ان مکتبوں  کو اسی حالت میں  رہنے دو، غریب مسلمانوں  کے بچوں  کوانہیں  مدارس میں  پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگامیں  انہیں  اپنی آنکھوں  سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں  کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگاجس طرح اندلس میں  مسلمانوں  کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں  اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں  ملتا، ہندوستان میں  بھی آگرہ کے تاجاور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں  کے آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں  ملے گا‘‘۔( دینی مدارس :ماضی، حال، مستقبل:69)حضرت مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں :’’اگر کسی ملک میں  دین تسلسل کے ساتھ او ر پائیدار طریقہ پر باقی رہ سکتا ہے تو وہ دینی تعلیم سے ہی باقی رہ سکتا ہے، ورنہ دیکھنے والوں  نے اس کا مشاہدہ کیا ہے، پڑھنے والوں  نے اس کا مطالعہ کیا ہے کہ جن علاقوں  میں  دینی تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا،وہاں بالکل اسلام ختم ہوگیا۔‘‘

 مدارس کی عظمت، اہمیت اور ان کی ذمہ داریوں  کو بہت سے علماء اور اکابر نے اپنی تقریر وتحریر میں  پیش کیااور فکر ودرد کے ساتھ ان کی عظمتوں  سے انسانوں  کو روشناس کروایا۔لیکن ماضی قریب میں  جس دردمندی اور جگر سوزی کے ساتھ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے دینی مدارس کے مقام کو، ان کی ذمہ داریوں  کو اور ان کی عظمتوں  کو اجاگر کیا ہے یقینا وہ بے مثال اور آپ کی انفرادی شان  ہے۔حضرت علی میاں  ندوی ؒ عالم ِ اسلام کی عظیم المرتبت شخصیت تھیں ، اللہ تعالی نے بہت سے میدانوں  میں  آپ سے گراں  قدر خدمات لی ہیں ، عرب وعجم میں  آپ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی، تصنیف وتالیف،تقریر وخطابت، دعوت وتبلیغ کے ذریعہ آپ نے عظیم کارنامے انجام دئیے۔آپ کا امتیاز تھا کہ ’’میں  جسے چھوتا گیا وہ جاوداں  بنتا گیا‘‘۔آپ نے خوابیدہ انسانوں  کو جگایا،مقام ومنصب سے غافل مسلمانوں  کو آگاہ کیا،مردہ دلوں  میں  نئی روح دوڑائی، توحید کی امانت کو انسانوں  تک پہنچانے کے لئے صبح وشام قربان کئے، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ کر خدا کا پیغام سنایا،آپ کی ان گنت خوبیوں  اور کمالات میں  ایک یہ بھی ہے آپ نے پورے درد وفکر کے ساتھ دینی مدارس کی اہمیت و عظمت کو بیان کیا،اور ملت ِ اسلامیہ کی خدمت، خدا کے دین کی نشرواشاعت میں  ان مدارس کی کیا ذمہ داریاں  ہیں  پورے جذبہ ٔ دروں  کے ساتھ پیش فرمایا۔آپ نے مختلف موقعوں  پر دینی مدارس پر نہایت بصیرت افروز روشنی ڈالی، خطابات میں  بہت کھل کر ان کی حقیقتوں  کو بیان کیا،تحریروں  میں  ان کے مقام ِ بلند کو بتایا،اس موضوع پر آپ کی بہت سی کتابیں  اور بیانات ہیں  جو اس وقت مختلف عنوانات سے چھپے ہوئے ہیں۔ اس تحریر میں  ہم حضرت علی میاں  ندوی ؒ کی ان تحریروں  اور تقریروں  کے چند اقتباسات بہت اختصارکے ساتھ پیش کریں  گے جن سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ اس مرد ِ درویش نے کس فکر مندی کے ساتھ ان مدارس کی اہمیت کو بیان کیا،اور ملت ِ اسلامیہ کی ضرورتوں  کی تکمیل میں  مدارس کیا کردار اداکرتے سکتے ہیں  ان کو واضح کیا۔

مدارس اور فکر ابوالحسن علی ندوی ؒ

   مدارس ِ اسلامیہ کے سلسلہ میں  حضرت علی میاں  ندوی ؒ کی جو فکر اور تصور تھا اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا عبد اللہ عباس ندوی ؒ لکھتے ہیں  کہ:حضرت سید ابوالحسن علی  ؒدینی مدارس کو اپنی آرزوؤں  اور تمناؤں  کا مرکز سمجھتے ہیں، آپ کے تصور میں  ’’مدرسہ ‘‘ مسلمانوں  کی بقاء اور اسلام کا آ ہنی قلعہ ہے۔ ،دارالعلوم ندوۃ العلماء، دارالعلوم دیوبند،جامعہ رحمانیہ مونگیرکے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے دل کی گہرائیوں  سے ’’مدرسہ ‘‘ کی عظمت کا اظہارکیاہے۔ ( میر کاروں  :199)حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ رقم طراز ہیں  :حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ ان بلند نگاہ، اصحاب ِ بصیرت مفکرین امت میں  تھے، جن کی نگاہوں  کے سامنے مدرسۃ الرسول ﷺ کا نقشہ ہمیشہ رہتا تھا،وہ مدرسوں  کو اسی نقش ِ قدم پر دیکھنا چاہتے تھے، وہ اسی کی یاد دلاتے تھے،وہ جب بھی علماء اور طلباء کو خطاب فرماتے تھے، تو اسی ماضی کی بازیافت اور اسی کی رہنمائی میں  مستقبل کی منصوبہ بندی کی دعوت دیتے تھے، مدارس اسلامیہ و جامعات میں  حضرت مولانا کی تقاریر سینکڑوں  نہیں  بلکہ ہزاروں  کی تعداد میں  ہوئیں ، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں  لگ بھگ نصف صدی کے عرصہ میں  ہر سال تعلیم کے آغاز اور اختتام پر ان کی کم از کم دو تقریریں  طلباء کے سامنے ضرورہوجایا کرتی تھیں ، ان میں  وہ اپنا دل کھول کر بلکہ کلیجہ نکال کر رکھ دیتے تھے، کتنے نوجوانوں  کے دلوں  میں  بلند عزائم کی قندیلیں  ان دردمندانہ خطابات نے روشن کردیں ، اللہ علیم وخبیر ہی جانتا ہے۔(مدارس اسلامیہ کا مقام اور کام :7)حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :حضرت مولانا کی نظر میں  یہ دینی مدارس ہی ہندوستان میں  دین کے تحفظ و بقاء کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ، مدارس کی اہمیت و افادیت پر حضرت مولانا نے اپنے بعض مضامین کامجموعہ اشاعت کے لئے دیا تو اس کانام ہی ’’دین کے قلعے ‘‘ رکھا۔ایک تقریر میں  فرمایا کہ ’’یہی مکاتب ہیں  جو ملت کی نوجوان نسل کو ایمان واسلام سے وابستہ رکھیں  گے۔( حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ :دعوت وفکر کے اہم پہلو:195)

مدارس ِ اسلامیہ کا مقام

 اب آئیے ایک دو اقتباسات حضرت علی میاں  ندوی ؒ کے ملاحظہ کرتے ہیں  جن میں  آپ کا نظریہ اور تصور صاف محسوس ہوگا۔ مدارس کی  عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں :’’جب ہندوستان میں  حکومت ِ مغلیہ کا چراغ گل ہو گیا،اور مسلمانوں  کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھوں  سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحب ِ فراست علماء نے جابجا اسلام کی شریعت وتہذیب کے قلعے تعمیر کردئیے، انھیں  قلعوں کا نام ’’عربی مدارس ‘‘ ہے اور آج اسلامی شریعت و تہذیب انھیں  قلعوں  میں  پناہ گزیں  ہے، اور اس کی ساری قوت و استحکام انھیں  قلعوں  پر موقوف ہیں۔ ‘‘ (اسلام کے قلعے :17)ایک جگہ فرماتے ہیں  :’’میں  مدرسہ کو نائبین رسول وخلافت ِ الہی کافرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ و بقا کا راستہ دکھانے والے افراد تیار کرنے والوں  کا ایک مرکز سمجھتا ہوں ، میں  مدرسہ کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتا ہوں۔ ۔۔جب دنیا میں  ہر حقیقت کا انکا رکیا جارہا ہو اور یہ کہا جارہا ہوکہ سوائے طاقت کے کوئی حقیقت ہے ہی نہیں ، جب دنیا میں  ڈنکے کی چوٹ پر کہا جارہا ہو کہ دنیا میں  صر ف ایک حقیقت زندہ ہے اور سب حقیقتیں  مرچکیں ، اخلاقیات مرچکے، صداقت مرچکی، عزت مرچکی، غیرت مرچکی، شرافت مرچکی، خودداری مرچکی، انسانیت مرچکی، صرف ایک حقیقت باقی ہے اور وہ نفع اٹھاناہے اور اپنا کام نکالنا ہے۔ وہ ہر قیمت پر عزت بیچ کر، شرافت بیچ کر، ضمیر بیچ کر، اصول بیچ کر، خودداری بیچ کر صرف چڑھتے سورج کا پجاری بننا ہے، اس وقت مدرسہ اٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے انسانیت مری نہیں  ہے، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ نقصان میں  نفع ہے، ہارجانے میں  جیت ہے،بھوک میں  وہ لذت ہے جو کھانے میں  نہیں ، اس وقت مدرسہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ذلت بعض مرتبہ وہ عزت ہے جو بڑی سے بڑی عزت میں  نہیں ، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت خدا کی طاقت ہے، سب سے بڑی صداقت حق کی صداقت ہے۔ ‘‘( مدرسہ کیا ہے؟18)ایک موقع پر حضرت ؒ نے فرمایا:’’حضرات!عربی مدارس کی طرف سے اگر میں  بولنے کا حق رکھتا ہوں  تو میں  ان سب کی طرف سے ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنے کے لئے تیار ہوں  کہ ان سب دینی مدارس کے وجود کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں  کو اور طالب علموں  کو پہلے اور ان کے ذریعہ دوسروں  کو یہ بتاتے رہیں  کہ علم کا دینے والا کون ہے ؟اور علم کا سکھانے والا کون ہے ؟اور ہماری حیثیت اس دنیا میں  کیا ہے؟ہم اس دنیا میں  سیاہ وسپید کے مالک نہیں  ہیں ، ہم اس دنیا کے کرتا دھرتا نہیں  ہیں ، خلیفۃ اللہ ( خدا کے نائب ) اور اس کی طرف سے مامور ومحکوم ہیں۔ ‘‘(مدارس ِ اسلامیہ :اہمیت وضرورت او رمقاصد:101)یہ صرف دو تین اقتباسات ہم نے ذکر کئے، حضرت علی میاں  ؒ کی ایسی بے شمار تقریریں  اور تحریریں  جن میں  مدارس کا مقام ومرتبہ خوب نمایاں  دکھائی دیتا ہے، اور بلاشبہ حضرت علی میاں  ؒ نے جس خوبصورتی اور دلسوزی کے ساتھ مدارس کے مقام ومرتبہ کو دنیا والوں  کے سامنے پیش کیا یہ صرف آپ ہی کا امتیاز رہا ہے۔

مدارس کی ذمہ داریاں

 دینی مدارس کی ذمہ داریاں  بہت سی ہیں ، اور آج بھی انسانیت ان تربیت گاہوں  کی طرف نگاہیں  بلند کی ہوئی ہیں  کہ یہیں  سے ان کے دلوں  کی تسکین کا سامان ملے گا،وہ افراد ملیں  گے جن کے ذریعہ اندھیروں  میں  روشنی بکھرے گی، تاریکیوں  میں  اجالا ہوگا،بے لوث اور بے غرض انسانیت کے خادم تیار ہوں  گے، ملک ومعاشرہ اور عالم کو صحیح رخ پر تعمیر کرنے والے افراد فراہم ہوں  گے،بے چینی وبے قراری کے عالم میں  نسخہ ٔ نبوی کو ہاتھوں  میں  تھامے راحتوں  کی دولت لٹانے والے، بدامنی اور انتشار کے زمانے میں  امن ومحبت کے پیکر یہیں  سے آئیں  گے۔مفکر اسلام حضرت ابوالحسن ندوی ؒ جیسے زمانہ شناس، مفکر ومدبر اور جہاں  دیدہ عالم ربانی جب ان مدارس کی ذمہ دایوں کو بیان فرماتے ہیں  تواپنا دل کا پورا درد پیش فرماتے ہیں ، حضرت علی میاں  ندوی ؒ نے بہت کھل کر اور بہت دردمندی کے ساتھ اہل ِ مدارس کو آگاہ کیا کہ مدارس کی کیا گراں  اوراہم ذمہ داریاں  ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا:’’میں  مدرسہ کو سب سے بڑھ کر مستحکم، طاقت ور،زندگی کی صلاحیت رکھنے والا، اور حرکت ونمود سے لبریز سمجھتا ہوں ، اس کا ایک سرا نبوت ِ محمدی سے ملا ہوا ہے، دوسرا سرا اس زندگی سے، وہ نبوت ِ محمدی کے چشمہ ٔ حیواں  سے پانی لیتا ہے، اور زندگی کے ان کشت زاروں  مین ڈالتا ہے، وہ اپنا کام کرنا چھوڑدے تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیں  اور انسانیت مرجھانے لگے۔ ۔۔مدرسہ سے بڑھ کر دنیا میں  کون سا زندہ متحرک اور مصروف ادارہ ہوسکتا ہے، زندگی کے مسائل بے شمار، زندگی کے تغیرات بے شمار، زندگی کی ضرورتیں  بے شمار،زندگی کی غلطیاں  بے شمار،زندگی کی لغزشیں  بے شمار،زندگی کے فریب بے شمار،زندگی کے رہزن بے شمار،زندگی کی تمنائیں  بے شمار،زندگی کے حوصلے بے شمار،مدرسہ جب زندگی کی رہنمائی اور دست گیری کا ذمہ لیا ہے تو اب فرصت کہاں ؟دنیا میں  ہر ادارہ، ہر مرکز، ہر فرد کو راحت اور فراغت کا حق ہے، اس کو اپنے کام سے چھٹی مل سکتی ہے، مگر مدرسہ کو چھٹی نہیں ، دنیا میں  ہر مسافر کے لئے آرام ہے، لیکن اس مسافر کے لئے راحت حرام ہے، اگر زندگی میں  ٹھہراؤ ہو،سکون اور وقوف ہو، تو حرج نہیں  کہ مدرسہ بھی چلتے چلتے دم لے لے، لیکن جب زندگی رواں  دواں  ہے تو مدرسہ میں  جمود اور تعطل کی گنجائش کہاں  ہے؟اس کو قدم قدم پر زندگی کا جائزہ لینا ہے، بدلتے حالات میں  احکام دینے ہیں ، نئے نئے فتنوں  کا مقابلہ کرنا ہے، بہکے ہوئے قدموں  کو راستے پر لگانا ہے، ڈگمگاتے ہوئے پیروں  کو جمانا ہے، وہ زندگی سے پیچھے رہ جائے یا تھک کر بیٹھ جائے، یاکسی منزل پر قیام کرلے، یا اس کو کوئی مقام خوش آجائے، تو زندگی کی رفاقت اور قیادت کون کرے؟سرود ِ ازلی اور پیغام ِ محمدی اسے کون سنائے، مدرسہ کا تعطل، قیادت سے کنارہ کشی، کسی منزل پر قیام، خودکشی کا مرادف اور انسانیت کے ساتھ بے وفائی کا ہم معنی ہے، اور کوئی خود شناس، اور فرض آشنا مدرسہ اس کا تصور نہیں کرسکتا۔‘‘( پاجا سراغ ِ زندگی :91)مدارس میں  جو ذوقِ علمی میں  کمی آرہی ہے اور مزاج میں  محدودیت پیدا ہورہی ہے اس کے ازالہ کے لئے حضرت مفکر اسلام ؒ  فرماتے ہیں :’’ضرورت ہے کہ خاص توجہ اور تربیت سے طلبہ میں  علمی ذوق پیدا کیاجائے، نصاب کے سوا طلبہ کو اچھا اسلامی لٹریچر دکھایا جائے، اور ان ائمہ اور مفکرین اسلام کی تصانیف کا ذوق پیدا کیا جائے جن کی کتابوں  میں  اسلام کی صحیح روح ملتی ہے، علم واجتہاد کے چشمے ابلتے ہیں ، اور اسلام کی بنیادیں  قلب ودماغ میں مستحکم ہوتی ہیں ۔ مثلا ً امام ابن جوزی ؒ، امام غزالی ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ، امام ابن قیم ؒ، حضرت مجدد سرہندیؒ،شیخ الاسلام شاہ ولی اللہ دہلوی  ؒ۔کتابوں  کا صحیح انتخاب اور ان کی صحیح ترتیب کے متعلق مشورہ مدرسین کے اہم فرائض میں  سے ہے اور ذہنی اور مذہبی تربیت کے لئے نہایت ضروری ہے، عربی مدارس اسلامی ثقافت کے اصلی مرکز ہیں ، اسلام کے مستند ماضی کے اہم اشخاص سے واقف ہونا، ان کے مراتب کو پہنچاننا، ان کی خدمتوں  سے واقف ہونا اور اعلی مجتہدانہ اسلامی تصنیفات سے روشناس ہونا تعلیم کا اہم جزوہے۔‘‘(مدارس:اہمیت وضرورت اورمقاصد:38)

آخری بات

    یقینا اس وقت بڑی عجیب صورت ِ حال ہے، ایک طرف دن بدن مدارس کے مقام ومرتبہ کوکم تر سمجھنے کامزاج عام ہوتے جارہا ہے، ان کو بوجھ تصور کیا جارہا ہے،اور ناقدری کا سلوک اور حقارت کی نگاہوں  سے برتاؤ کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف مدارس کی جو عظیم ذمہ داریاں  ہیں  ان کو بھی بحسن وخوبی اداکرنے کے سلسلہ میں  لاپرواہی برتی جارہی ہے،اور حالات وزمانہ کے تقاضوں  کو پوراکرنے کے لئے وہ سعی اور کوشش نہیں  کی جارہی ہے جو کسی زمانہ میں  ہمارے ان مدارس اور ان کے عظیم بانیان کا امتیاز رہا۔ایسا بھی بالکل نہیں  ہے کہ اب مدارس کی فضا ؤں  میں  بالکل سناٹا چھایا ہوا ہے یا سکوت طاری ہے، الحمدللہ اب بھی مدارس قائم ہیں  اور ان کوششوں  میں  لگے ہوئے ہیں  لیکن وہ عظیم ترین فکریں  جو مفکرین اور صاحب ِ بصیرت ذمہ داران نے دی تھیں  ان کی ادائیگی کو پوری فکر مندی سے پوراکرنے کے شدید تقاضے درپیش ہے۔کمیوں  کو دور کرتے ہوئے اور جھول کو ہٹاتے ہوئے مدارس کے نظام کو مستحکم کرنے اور ملت کے لئے قیمتی افراد کا سرمایہ پیش کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے، افراد سازی کے میدان میں  بہت زبردست انحطاط اس وقت آیا ہوا ہے، چناں  چہ اسی لئے مفکر اسلام حضرت ابوالحسن علی ندوی ؒ کی ان تحریروں  کے چند اقتباسات کو بہت اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا تاکہ ایک ولولہ ٔ تازہ حاصل ہو اور اس عظیم مفکر کی نہایت چشم کشا باتیں حوصلوں  کو بلند کریں۔ اور جولوگ مدارس کی افادیت واہمیت کے منکر ہیں  ان کو یہ حقیقت سمجھ میں  آئے کہ مدارس کا وجود مسلمانوں  کے لئے نعمت ہے، اور اس سے ہمارا ایمان، تہذیب وثقافت کا تحفظ وابستہ ہے۔ اوران حضرات کے لئے ایک پیغام ہے کہ مدارس کو اسی نہج اور اصول پر چلایا جائے کہ جس پر چل کر انسانوں  کی توقعات پوری ہوتی ہوں  اور ان کی امیدیں  بر آتی ہوں۔ کیوں  کہ مدارس صرف عمارات کانام نہیں  ہے، اور نہ ہی خوش نما ودیدہ زیب بنگلے مدارس کی پہنچا ن ہیں  بلکہ مدارس ان افراد کی تیاری کے مراکز ہیں  جو دین و شریعت کے بے لوث وبے غرض خادم اور توحید وسنت کے علم بردار ہوتے ہیں ، مادیت کی چکاچوند اور ظاہر پرستی کی دھوم دھام سے سے بے پروا ہوکر اسلام کی ضوفشانی میں  مصروف رہتے ہیں۔ مدارس کی سرزمین ابتدا ہی سے رزخیر رہی ہے،اور اس خاک سے اڑنے والے ذروں  نے ہر دور میں  عالم کو روشن ومنور کیا ہے، آج بھی ایسے بے شمار لعل وگوہر اس میں  پوشیدہ ہیں  جنہیں  نکال پیش کرنے کی ضرورت ہے۔آخر میں  مفکر اسلام حضرت علی میاں  ندوی ؒ کے یہ فکر انگیز کلمات ملاحظہ کیجیے :ایک جگہ آپ نے فرمایا:’’ان مدارس کی خصوصیت ہے معرفت ِ الہی پیدا کرنا،اخلاص پیداکرنا،ایمان واحتساب کی کیفیت پیدا کرنا،اور شریعت کی معرفت، شریعت کی صحیح ترجمانی کی صلاحیت پیداکرنا،اور پھر آخر میں  یہ بات کہتا ہوں  کہ کردار سازی جو اس وقت دنیا کی اہم ترین،انسانیت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔