کیرالا میں اُردو تعلیم

کے۔ پی۔ شمس الدین ترورکاڈ

ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کیرالا جیسی غیر اُردو ریاست میں اُردو کے لیے نسبتاً سازگار ماحول رہا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کیرالا میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ اسکولوں میں اُردو تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اُردو اساتذہ تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کیرالا میں آزادی سے قبل ہی اسکولی سطح پر اُردو کی تعلیم شروع ہو چکی تھی اور اُردو کی تعلیم کی جڑیں مضبوط ہو ہی رہی تھیں کہ ملک کو تقسیم سے دو چار ہونا پڑا۔ ۱۹۴۷؁ء کے بعد دیگر ریاستوں کی طرح کیرالا میں بھی اُردو کو بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑا اور اس صورت حال میں یہاں اُردو کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

آزادی کے بعد کیرالا میں گنتی کے چند اسکولوں میں اُردو کی تعلیم دی جاتی تھی۔ کالی کٹ کے جے۔ ڈی۔ ٹی۔ اسلام ہائی اسکول، تلاشیری کے بی۔ ای۔ ایم۔ ہائی اسکول، مبارک ہائی اسکول، سینٹ جوزف ہائی اسکول، کوچین کے حاجی عیسیٰ حاجی موسیٰ ہائی اسکول اور کاسرکوڈ کے ہندوستانی اسکول میں اُردو تعلیم کی سہولت مہیا تھی۔ کنّور کے میونسپل ہائی اسکول میں بھی اُردو تعلیم کی سہولت تھی لیکن وہاں کے اُردو معلم ابوبکر منشی فاضل کے اچانک انتقال کے بعد وہاں اُردو کی جائیداد خالی ہوگئی جس کی وجہ سے اس جائیداد کو ہندی بھی بدل دیا گیا۔ اس وقت سارے کیرالا میں اُردو کا کوئی سندیافتہ موجود نہ تھا۔ یہی حال کاسرکوڈ مسلم ہائی اسکول کا بھی ہوا۔ وہاں کے معلم کے سبکدوش ہونے کے بعد اُردو خاتمہ ہوگیا۔

اُردو تعلیم اسکول کی سطح پر عام کرنے کے لیے سیّد محمد سرورؔ، ولاپٹنم عبداللہ، اسحق محمد فقیر جیسی شخصیتوں نے بڑی محنت کی اور اُردو کی بقا اور فروغ کے لیے تحریکیں چلائیں۔  ۱۹۵۸ ؁ء میں سرورؔ صاحب اور ان کے رفقاء نے  ’انجمن اُردو اشاعت‘  قائم کی۔ ۱۹۶۲ ؁ء میں ولاپٹنم عبداللہ نے  ’اُردو پرچار سبھا‘  کی بنیاد ڈالی۔ ۱۹۷۰ ؁ء میں اسحق محمد فقیر نے انجمن اصلاح اللسان کی تشکیل نو کی۔ ۱۹۷۲ ؁ء میں کے۔ ٹی۔ سی۔ بیران نے  ’اُردو پرچار سمیتی‘  قائم کی۔ ان تمام انجمنوں نے مشترکہ محاذ بنا کر حکومت سے اُردو تعلیم کو عام کرنے کا مطالبہ کیا اور اسکولوں میں اُردو تعلیم کی سہولت کے لیے مسلسل تحریکیں چلائیں۔

۱۹۶۸ ؁ء میں یہاں عام انتخابات ہوئے۔ جب حکومت بنی تو اس میں مسلم لیگ بھی شریک رہی۔ مسلم لیگ کے دو وزراء احمد کری کل اور سی۔ ایچ۔ محمد کویا کابینہ میں تھے۔ وزیر تعلیم کا قلمدان سی۔ ایچ۔ محمد کویا کے ہاتھوں میں تھا۔ سید محمد سرورؔ اور احمد کری کل کے قریبی مراسم تھے۔ احمد کری کل کے وزیر بننے پر سرورؔ صاحب نے تروننتاپورم جاکر احمد کری کل سے اُردو زبان اور تعلیم کی بقا اور فروغ کے لیے کوششیں کرنے کی درخواست کی۔

احمد کری کل اور سی۔ ایچ۔ محمد کویا نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرکے اُردو لوئیر اور ہائیر امتحانات کا اعلان کیا اور سرکاری فرمان جاری کرایا۔ اس کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔

سرکار کی طرف سے اُردو امتحانوں کے لیے جو سہ رکنی نصابی کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں سرور صاحب، برنن کالج کے اُردو استاد شاکر صاحب اور فاروق کالج کے محمد ابراہیم صاحب شامل تھے۔ اس کمیٹی کے تیارکردہ نصاب کے مطابق اُردو لوئیر اور ہائیر امتحانات کا آغاز ہوا۔ کافی تعداد میں نو جوانوں نے ان میں شریک ہوکر کامیابی حاصل کی۔

اسکولوں میں اُردو تعلیم کے لیے تحریک مسلسل جاری رہی جس کے نتیجے میں  ۷۳۔ ۱۹۷۲ ؁ء میں کئی سرکاری، نیم سرکاری (امدادی) اسکولوں میں اُردو کی تعلیم شروع ہوئی۔ پانچویں جماعت میں اختیاری مضمون کی حیثیت سے اُردو پڑھنے والے طلبہ کی تعداد اگر پچاس ہے تو ایک اُردو معلم کا تقرر کرنے کی اجازت تھی۔ بعد میں یہ تیس طلبہ کے لیے کردی گئیں۔ اس وقت ایک اُردو معلم کی جائیداد کے لیے صرف بارہ طلبہ کافی ہیں۔ یہاں اُردو معلم کو بھی دیگر اساتذہ کے برابر حکومت سے تنخواہ ملتی ہے۔ پبلک سرویس کمیشن کے ذریعے اُردو اساتذہ کا تقرر ہوتا ہے۔

اُردو اساتذہ کے مسائل اور پریشانیوں کو دور کرنے اور حل کرنے کے لیے سید محمد سرورؔ، اسحق محمد فقیر، کے۔ ٹی۔ سی۔ بیران جیسے لوگوں کی کاوشوں سے  ’کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن‘  کا قیام عمل میں آیا۔ اسکولی سطح پر اُردو زبان ترقی کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں کئی طرح کے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ مادری زبان کے طور پر ملیالم استعمال کرنے والے طلبہ کو ہی نہیں بلکہ اساتذہ کو بھی مادری زبان اُردو نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسائل درپیش ہونے لگے۔ کسی بھی زبان سے ہوبہو ترجمہ کرکے بولنے پر زبان کی ساخت بگڑتی ہی ہے بعض اوقات مفہوم بھی بدل جاتا ہے۔ ملیالی طلبہ کو اُردو سکھانے میں یہی خاص دشواری پیش آتی تھی۔ مثال کے طور پر اُردو میں دوستوں سے خوشی کے موقع پر کہتے ہیں  ’’چلیے بھئی اس بات پر چائے پلائیے‘‘  یا  ’’شربت پلائیے‘‘، ’’منہ میٹھا کرائیے‘‘، اس بات کو ملیالم میں ’’چائے خرید کر دیجئے‘‘  یا  ’’میٹھائی خرید کر دیجیے‘‘ کہتے ہیں۔ زبان کی ساخت یا بول چال کی زبان سے ناواقف اساتذہ ملیالم والی بات ہی اُردو میں ترجمہ کرکے کہتے ہیں اور زبان کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔

کیرالا کے اسکولوں میں جس زمانے میں اُردو تعلیم کا آغاز ہوا اس وقت ریاستی تعلیمی بورڑ کی ترتیب دی ہوئی کوئی اُردو درسی کتاب موجود نہیں تھی۔ کیرالا میں آندھرا پردیش اور تامل ناڈو کی اُردو درسی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ آندھر ا پردیش یا تامل ناڈو کی پہلی سے پانچویں تک کی کتابیں کیرالا میں پانچویں سے دسویں تک پڑھائی جاتی تھی۔ اس وجہ سے بھی اساتذہ اور طلبہ کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیوں کہ یہ درسی کتابیں اُردو مادری زبان والوں کے لیے تیار کی گئی تھیں۔  ۱۹۸۰ ؁ء کے بعد کیرالا میں اُردو درسی کتابیں تیار کی جانے لگیں۔ اس وقت مسئلہ یہ تھا کہ کیرالا میں اُردو کا کوئی ماہر لسانیات نہ تھا۔ اس لیے دوسری ریاستوں سے ماہرین زبان وتعلیم مدعو کیا جاتا تھا۔ کیرالا میں پہلی مرتبہ آندھرا پردیش اُردو اکیڈمی کی نگرانی میں اُردو درسی کتابیں تیار کی گئی تھیں۔  ۱۹۸۵ ؁ء کے بعد ہر پانچ سال پر یہاں کتابیں تبدیل کی جاتی ہیں۔ اس کی ذمہ داری کیرالا کے ایس۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ پر ہے جو کہ پہلے ایس۔ آئی۔ ای۔ (اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ایس۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ کے اُردو ریسرچ آفیسر کے زیر نگرانی میں اُردو کے ماہرین اساتذہ کا انتخاب کرکے ورکشاپ منعقد کیا جاتا ہے۔ مسلسل گفت و شنید اور بحث و مباحثے اور ورکشاپ منعقد کرنے کے بعد درسی کتاب تیار کی جاتی ہے۔ اس طرح کے ورکشاپوں کی نگرانی کے لیے ملک کے مختلف ماہرین لسانیات کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

کیرالا کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کو مد نظر رکھتے ہوئے درسی کتابیں تیار کرنے پر کچھ حد تک پریشانی ختم ہوئی لیکن محض کتابیں تیار کر لینے سے تمام مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ طلبہ کو عملی طور پر اس کا درس دینے کا مسئلہ ہنوز برقرار رہا۔

اس کے لیے بھی ایس۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ اور ڈی۔ پی۔ آئی۔ (ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن) نے اساتذہ کے لیے ان سرویس کورس شروع کیے۔ ان کورسوں میں غیر اُردو داں طلبہ کے سامنے اسباق پیش کرنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔ ٹیچر ٹریننگ کورس سے اساتذہ کو بے حد فائدہ پہنچا اور کافی حد تک اساتذہ جو اپنے آپ کو غیر اُردو داں  سمجھتے تھے اس احساس کمتری سے آزاد ہونے لگے۔

اس وقت کیرالا میں اسکولی سطح پر اُردو تعلیم کی جڑ کافی مضبوط ہو چکی ہے۔ کیرالا کے  ۷۶۸,۱۱؍  اسکولوں میں (پہلی سے دسویں جماعت تک) سے  ۵۷۷,۱؍  اسکولوں میں (اپر پرائمری اور ہائی اسکول) اُردو کی تعلیم بھی دی جارہی ہے ان میں پرائمری سطح پر  ۱۲۶۱؍ اسکول، اور ہائی اسکول سطح پر  ۳۷۷؍ اسکولوں میں اُردو پہلی زبان (First Language) کی حیثیت سے پڑھائی جا رہی ہے۔ (ان میں پرائمری سے منسلک ہائی اسکولوں کی تعداد  ۱۸۴؍ ہے) کیرالا کے تروننتاپورم اور پتنم تٹھا ضلعوں کے علاوہ باقی بارہ اضلاع میں اُردو اسکولی سطح پر پڑھائی جارہی ہے۔ سب سے زیادہ ضلع ملاپرم اورکنّور میں طلبہ اُردو پڑھتے ہیں۔ پوری ریاست میں پانچویں سے دسویں تک اُردو پڑھنے والے کل طلبہ کی تعداد  ۱۸۶,۱۰,ا؍ ہے اور اُردو پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد  ۶۳۷,۱؍ ہے۔ ان کے علاوہ تقریباً ۱۰۰ ؍ ایسے اُردو کے اساتذہ بھی ہیں جو عارضی طور پر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہاں کے اُردو اساتذہ میں چالیس فی صد ایسے اساتذہ ہے جو غیر مسلم ہیں۔ کیرالا کے اسکولوں میں اُردو تعلیم کی صورت حال ضلعی سطح پر مندرجہ ذیل میں پیش ہے:

تروننتاپورم:

 کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۸۹۶

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکولوں کی تعداد:    ایک بھی نہیں

    کولّم:

  کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۸۶۱

 اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۱

  اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم والے اسکول:  ۹

  ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲

  (ان میں دو ہائی اسکول اپرپرائمری سے ملحق ہیں )

  اُردو پڑھنے والے کل طلبہ کی تعداد:  ۳۵۸

 اُردو اساتذہ کی تعداد:  ۱۱

 پتنم تٹھا:

کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۶۹۶

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ایک بھی نہیں

 آلاپوژہ:

   کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۷۲۲

   اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۳

 اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت  والے اسکول: ۱

   ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲

   (ان میں ایک ہائی اسکول اپر پرائمری سے ملحق ہے)

  کوٹایم:

   کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۸۵۷

 اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۶

  اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۵

 ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱

  (ان میں چودہ ہائی اسکول پرائمری سے ملحق ہیں )

اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :    ۳۸۶

 اُردو اساتذہ کی تعداد:   ۶

 اڈکی:

 کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۴۵۳

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲

  اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲

 اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :    ۷۸

  اُردو اساتذہ کی تعداد:    ۲

ایرناکلم:

 کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۹۱۰

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۸

  اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۶

 ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲

(ان میں اپر پرائمری سے ملحق اسکولوں کی تعداد  دو  ہیں )

  اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :  ۴۶۸

 اُردو اساتذہ کی تعداد:   ۸

ترشور:

 کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۹۲۵

 اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۴۳

  اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۱۱

   ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۴۵

(ان میں گیارہ ہائی اسکول اپر پرائمری سے ملحق ہیں )

  اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :  ۶۲۴,۳

  اُردو اساتذہ کی تعداد:        ۱۵۵

 پالاکاڈ:

کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۹۰۳

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۹۴

 اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۵۸

 ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۴۳

(ان میں پانچ ہائی اسکول پرائمری سے ملحق ہیں )

  اُردو پڑھنے والے کل طلبہ : ۱۴۳,۸

  اُردو اساتذہ کی تعداد:        ۲۰۱

 ملاپرم:

کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۱۳۲۸

 اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۴۶۸

  اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۳۴۶

  ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۳۸

(ان میں ایک سو چوبیس ہائی اسکول پرائمری سے ملحق ہیں )

   اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :   ۲۳۶,۵۶

   اُردو اساتذہ کی تعداد:        ۴۸۳

 کالی کٹ (کوژی کوڈ):

  کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۱۱۹۸

   اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲۸۰

   اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲۲۳

  ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۶۴

  (ان میں بارہ ہائی اسکول پرائمری سے ملحق ہیں )

  اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :   ۵۶۳,۱۴

اُردو اساتذہ کی تعداد:        ۲۸۷

   وائناڈ:

کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۲۷۲

 اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۷۲

 اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۶۱

  ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۴

(ان میں پانچ ہائی اسکول پرائمری سے ملحق ہیں )

 اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :        ۳۴۲,۴

 اُردو اساتذہ کی تعداد:        ۷۵

کنّور:

 کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۱۲۴۰

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۳۱۶

 اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۲۷۷

 ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۵۳

  (ان میں چودہ ہائی اسکول پرائمری سے ملحق ہیں )

 اُردو پڑھنے والے کل طلبہ :  ۷۲۶,۱۶

اُردو اساتذہ کی تعداد:   ۳۳۰

  کاسرکوڈ:

 کل اسکول (پہلی سے دسویں تک): ۵۰۷

  اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۷۴

 اپرپرائمری سطح پر اُردو تعلیم والے اسکول:    ۶۲

 پرائمری سطح پر اُردو تعلیم والے اسکول: ۱

  ہائی اسکول سطح پر اُردو تعلیم کی سہولت والے اسکول: ۱۳

 (ان میں سات ہائی اسکول اپرپرائمری سے ملحق ہیں )

 اُردو پڑھنے والے کل طلبہ کی تعداد:  ۱۶۴,۵

  اُردو اساتذہ کی تعداد: ۷۶

کیرالا میں غیر سرکاری یا غیر امدادی اسکولوں کی کل تعداد ۵۳۱ ؍ہے جن میں آٹھ اسکول ایسے ہیں جہاں اُردو کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایسے نجی اسکولوں کے اساتذہ کا حکومت سے کوئی سرکار نہیں ہوتا ہے۔ ان کی تنخواہ بھی انتظامیہ کے ذمے ہوتی ہے۔

کیرالا میں تعلیمی سال  ۰۶۔ ۲۰۰۵ ؁ء میں دسویں جماعت کے امتحان میں شرکت کرنے والے طلبہ کی تعداد ۹۵۳,۳۶,۵؍ ہے۔ ان میں بارہ ہزار دو سو اکتیس (۲۳۱,۱۲) طلبہ ایسے ہیں جو first language کی حیثیت سے اُردو پڑھتے ہیں۔ اُردو تدریس کے سلسلے میں پیش آنے والی دقتوں کو دور کرنے کے لیے ایس۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ کیرالا نے ہر جماعت کی درسی کتاب کے ساتھ ساتھ رہنمائی کتاب Teachers’ Hand Book بھی شائع کی ہے۔ ہینڈ بُک سے کچھ حد تک تو پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں لیکن ایک کمی رہ جاتی ہے وہ ہے ماحول۔ کیرالا کے اُردو اساتذہ کے لیے اُردو علاقوں میں تربیتی کورس منعقد کیا جائے تو بلا شبہ یہ بے حد فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اُردو ماحول سے زیادہ بہتر طریقے سے تدریسی خدمات ادا کر سکیں گے۔

اُردو زبان سے دلچسپی میں اضافہ کرنے کے لیے مشاعرہ، قوالی، غزل وغیرہ کے پروگرام منعقد کرنا چاہیے۔ کیرالا میں اُردو اخبار یا رسالے کی کمی بھی طلبہ اور اساتذہ کو کھٹکتی ہے۔ کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن کا ترجمان سہ ماہی  ’اُردو بلیٹن‘  ضرور شائع ہوتا ہے لیکن یہ ستر فی صد ملیالم اور تیس فی صد اُردو زبان میں ہوتا ہے۔ ایس۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ کیرالا کے اُردو ریسرچ آفیسر این۔ محی الدین کُٹی کے زیر نگرانی منعقد کردہ ٹریننگ کورس میں اُردو قلمی جریدے بھی تیار کیے جاتے ہیں جس سے بھی اساتذہ کو کافی فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن یہ بہت محدود پیمانے پر ہے۔ کیرالا میں اگر اُردو اکادمی قائم کی جائے تو کچھ حد تک مذکورہ مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت کیرالا نے اُردو اکادمی قائم کرنے کے لیے پیش رفت شروع کردی ہے۔ اس سلسلے میں وزیرِ تعلیم ای۔ ٹی۔ محمد بشیر صاحب نے کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن اور انجمن ترقی اُردو کیرالا کے کارکناں (ٹی۔ محمد، احمد کُٹی کلاتھل، کے۔ شوکت علی، این۔ محی الدین کُٹی، عبدالرحمن کُٹی، کے۔ پی۔ شمس الدین) سے گفت وشنید کرکے ایک سہ رکنی ٹاسک فورس (ڈاکٹر ایم۔ سلیمان مولوی، این۔ محی الدین کُٹی، ٹی۔ محمد) تشکیل دی گئی اور جلد از جلد حکومت اکادمی سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ سہ رکنی کمیٹی نے حکومت کو رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اب محبان اُردو ’اُردو اکادمی‘  کے اعلان کے منتظر ہیں۔

کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی اُردو (کیرالا) بھی اُردو تعلیم کی ترقی و ترویج کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ انجمن کے صدر ایم۔ پی۔ عبدالصمد صمدانی کی کاوشوں سے کیرالا میں اُردو کا شوق و ذوق کافی بڑھا ہے۔

اُردو اساتذہ کے لیے کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن، انجمن ترقی اُردو‘  ریاستی کونسل برائے تعلیم و تربیت، ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن، قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، ہندوستانی زبانوں کا مرکزی ادارہ  (Central Institute of Indian Languages)، اُردو تدریسی اور تحقیقی مرکز، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن جیسے ادارے وقتاً فوقتاً سیمنار اور تربیتی کورس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ اس سے اساتذہ کو کافی حد تک فائدہ پہنچا ہے اور طلبہ بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ مذکورہ ادارے کیرالا میں اگر مزید ادبی اور تعلیمی پروگرام منعقد کریں تو بلاشبہ اساتذہ کو بھی فائدہ ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ طلبہ بھی اُردو تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔