کینیڈین صدر جسٹن ٹروڈو کی رواداری اور مسلم قوم: ایک تقابلی جائزہ

یاسر محمود

آج کل ماہ رمضان کے تعلق سے کینیڈین صدر جسٹن ٹروڈو کی عالم اسلام کے نام ”سلام علیکم” کیساتھ "رمضان مبارک” کی تہنیتی تقریر اور انکے روادارانہ، احترام انسانیت اور خصوصا مسلمانوں کے تعلق سے تکریم و تعظیم پر مبنی متعدد کارناموں کو مختلف مسلم سوشل گروپس اور سائیٹس پر بہت زیادہ شیئر کیا جارہا ہے اور اسکو رواداری، احترام انسانیت، مذہبی ہم آہنگ اور برداشت کی علامت قرار دیا جارہا ہے اور عالمی امن و سلامتی کیلئے ‘مسٹر ٹروڈو’ جیسے مثالی عالمی رہنمائوں اور ملکی سربراہوں کی ضرورت پر مسلم حلقوں میں بہت زور دیا جارہا ہے۔

مسٹر ٹروڈو کی بین المذاھب ہم آہنگی، احترام انسانیت، رواداری، اپنی عوام کے ایک طبقہ کے مذہبی اعتقادات کا احترام وغیرہ کی یہ ایک مثال نہیں ہے بلکہ Truedea کی اس جیسی بہت سے مثالیں ہیں ، اور خود سابق صدر امریکہ مسٹر اوبامہ کی اس جیسی کافی مثالیں ہیں جنکا تعلق انکے اپنی عوام کے ایک طبقہ مذہب اسلام کے ماننے والوں کے احترام میں بطور صدر کئے گئے اقدامات اور فیصلوں سے ہے۔ جیسے عیدین کی سرکاری چھٹی کا اعلان وغیرہ۔ قابل غور بات یہ ہیکہ جو لوگ اسکو ایک اچھی اور انسانی کوشش قرار دیرہے ہیں وہی لوگ خود اپنے قومی حکمرانوں و مذہبی قیادت کے حیرت انگیز طور پر اسکے یکسر مخالف منفی، قومی نفرت، قومی و مذہبی تعصب اور تصادم کی بنیاد پر اقدامات، اعمال، بیانات اور کوششوں پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اسکی فخریہ تائید کرتے ہیں ۔ یہ عجیب قسم کا دوہرا اور منافقانہ رویہ (dual attitude) ہے۔

چنانچہ اس سب کو دیکھ کر مجھے برونائی کا 2014 میں اسلامی شریعہ قانون پاس کرنا اور 2015 میں کرسمس کے موقع پر 24 دسمبر 2015 کو یہ سرکاری اعلان کرنا کہ اگر کسی مسلمان نے کرسمس کے کسی پروگرام میں شرکت کی تو اسے بیس ہزار ڈالر کا جرمانہ اور پانچ سال جیل کی سزا ہوگی۔۔۔۔یاد آگیا۔ اسی طرح اسی سال 13 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا ویلنٹائن ڈے پر یہ عدالتی حکم یاد آگیا کہ اس کو کوئی نہیں منا سکتا اور کوئی بھی دوکاندار یا تاجر بازار میں اس دن سے متعلق کوئی چیز نہیں بیچ سکتا۔ جبکہ عرب ممالک میں دیگر مذاہب ہی کیا خود اسلام کے دیگر فرقوں کے اعمال اور مراسم کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں ۔ بلکہ اگر کوئی الگ مسلم فرقہ ہی کسی قسم کی غیر حکومتی مذہبی رسم ادا کرتا ہے تو اسے سخت قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ حتی کہ ابھی 2012 میں عمرہ پر آئے ایک مصری سپریم کورٹ کے اعلی وکیل کو جدہ ایئر پورٹ پر اسلئے گرفتار کرکے توہین بادشاہ کے جرم میں 80 کوڑے مارنے اور تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ انہوں قاہرہ میں ایک عوامی مجمع سے خطاب کے دوران سعودی عرب میں طویل مدت سے قید مصری لوگوں پر نہ کوئی کیس لگانے، نہ چارجشیٹ داخل کرنے اور نہ جیل سے رہا کرنے پر براہ راست سعودی بادشاہ عبد اللہ کو اسکا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اسی طرح 2015 میں عمرہ پر گئے پاکستانی شخص زید حامد کو مدینہ منورہ سے دوران عمرہ گرفتار کرکے 100 کوڑے اور تین سال جیل کی سزا سنائی گئی۔ جن پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کے ٹی-وی چینلز پر احادیث کی اکابر اور (ہمارے) اسلاف سے اختلاف کرتے ہوئے من مانی تشریح کی اور حکومت سعودی عرب پر تنقید کی۔

اسی طرح 2016 میں شیعہ مذہبی عالم شیخ النمر کو بحرینی مظاہرین کی حمایت میں سعودی عرب پر تنقید کرنے پر بغاوت کے قانون کے تحت گرفتار کرکے سزائے موت دی گئی۔ ابھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مردان یونیورسٹی میں مذہبی عدم برداشت کی بنیاد پر ہی مشعال خان کو یونیورسٹی انتظامیہ اور دو ہزار طالب علموں نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے سر عام قتل کیا۔ اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاسی مخالفین اور عسکری اداروں کے کرپشن کیخلاف لکھرہے وقاص گوریا، سلمان حیدر، خرم ذکی، ایاز نظامی جیسے متعدد فیسک نوجوانوں کو آئی-ایس-آئی نے اغوا کرکے غائب کردیا۔ جبکہ اسلام آباد یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان حیدر کو صرف اس لئے اٹھایا گیا کیونکہ انہوں نے "میں بھی کافر تو بھی کافر” نام کی نظم لکھی تھی۔ اس میں وقاص گوریہ ہالینڈ میں جاب سے چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تھے۔ اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عسکری اداروں فوج و آئی-ایس-آئی کی جانب سے مذہبی و جہادی تجارت اور مذہب و جہاد کے سیاسی استعمال اور بڑی تعداد میں عوامی ضرورتوں کے پروڈکٹس بنانے والی فوجی کمپنیوں کے بزنس کے خلاف لکھنے والے، بولنے والے حتی کہ نو عمر فیس بک پر لکھنے والے لڑکوں کو توہین مذہب کے نام پر قتل اور اغوا کرکے غائب کیا جارہا ہے۔ صرف 17-2016 میں ہی ایسے سو سے زائد واقعات ہوچکے ہیں ۔ یہ تو اسلامی شرعی نظام پر قائم سعودی عرب و برونائی اور اسلامی جمہوری نظام پر قائم پاکستان کی مثالیں تھیں ۔ دوسری جانب لبرلزم کیجانب تیزی سے بڑھ رہے مسلم ملک بنگلہ دیش کی حالت یہ ہیکہ ان چار سالوں میں سینکڑوں آزاد بلاگرز کو غائب کیا جا چکا ہے جبکہ ایک بڑی تعداد میں رائٹرز شوٹ کرکے قتل کئے گئے ہیں ۔ اگر اسی قسم کی ‘مسلم قومی روش’ ہندوستان میں موجودہ سرکار "مودی حکومت” اپنے سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کیساتھ اپنانے لگے تو شاید آدھی کے قریب مسلم آبادی ختم ہوجائے۔

    ذرا اس سب سے بھی کینیڈین صدر مسٹر ٹروڈو اور سابق صدر-امریکہ اوبامہ کا تقابل فرمائیں اور جائزہ لیں تاکہ ہمیں عالمی امن و سلامتی کی کیجارہی کوششوں میں اپنی حقیقی اوقات کا اندازہ ہو اور امن و سلامتی کے کھوکھلے اور منافقانہ دعووں کی حقیقت واضح ہو اور قومی افضلیت کا سحر ٹوٹے۔

کیا مسلم قوم، ممالک اور معاشرہ کسی بھی قسم کی برائی کو بدلنے، روکنے یا اصلاح کرنے کے لئے ذہنی، شعوری، علمی، سائنٹیفک اور کائونسلنگ جیسی فطری کوششوں کی صلاحیت سی کلی محروم ہے؟ اور اسکی اہلیت ہی نہیں رکھتے…؟ اور انکے نزدیک برائی اور غلط کا صرف ایک پیمانہ+ایک ہی حل رہ گیا ہے:

1- برائی وہ ہے جو غیر مسلم کریں ، غلط وہ ہے جو غیر مسلم اپنائیں ، گناہ وہ ہے جو غیر مسلم کریں اور مسلمانوں کو ہر اس چیز سے بچنا ہے اور اسکی مخالفت کرنی ہے جو غیر مسلم کریں

2- کسی بھی برائی، غلطی یا گناہ کا حل صرف دیگر اقوام و معاشروں سے تصادم، ٹکرائو، انکی مخالفت اور انکے ساتھ نفرت کی بنیاد پر ہی کیا جائے

زمینی حقیقت یہ ہیکہ اگر دیگر اقوام و معاشروں کیساتھ مستقل تصادم کا ماحول ہر محاذ سے ختم کردیا جائے تو یہ سارا مولوی/عربی اسلام اور نوے فیصد علماء، جماعتوں ، اداروں ، مدرسوں ، تحریکوں ، تنظیموں اور جلسوں و جریدوں اور اردو/فارسی/عربی اخباروں وغیرہ سب کا کاروبار اور کام بند ہوجائیگا اور یکلخت سب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائینگے اور کرنے کیلئے کوئی کام ہی باقی نہیں رہیگا۔ اور اگر کھل کر کہدیا جائے تو مولویت کا ایجاد کردہ غیر قرآنی/غیر فطری/غیر انسانی محض "قومی اسلام” یکلخت زمیں بوس ہوجائیگا اور کرنے کیلئے کچھ بچیگا ہی نہیں ۔

حیرت ہیکہ ہم وہ قوم ہیں جس قوم میں کھانا کھاتے میں بولنے کا حکم یہ کہتے ہوئے دیا جاتا ہیکہ یہودی قوم (غیر مسلم) چونکہ خاموش رہتے ہیں اسلئے تم بولا کرو، عورتوں کو دو چوٹی باندھنے کا حکم یہودی عورتوں کے ایک چوٹی باندھنے کے مقابلے پر دیا جاتا ہے، بچوں کے بال کی شکل انگریزوں کے مقابلہ پر مقرر کی جاتی ہے اور مدرسوں و مذہبی تعلیمی اداروں حتی کہ مسلم سماج میں بڑے بال یا ڈیزائن و مختلف شیپ کے یہ کہتے ہوئے رکھنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور قابل نفرت و کریہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ ”انگریزوں کا طریقہ” ہے۔ یہ سب معمولی چیزوں کی مثالیں ہیں ورنہ زندگی کے شعبوں میں جتنا آگے بڑھتے جائیں اکثر احکامات، رواج اور اعمال کی یہی قومی تصادماتی و قومی نفرت کی بنیاد ملیگی۔

فی الواقع اس مصنوعی بنیادوں پر قائم اصول و اقدار، نظریہ و شعور سے یکسر نابلد و ناواقف "قوم” اور اسکے تاجر سربراہوں ، قیادت و علماء کا وجود و بقا (existence and survival) دیگر اقوام کی مخالفت میں ہے اور انکے ساتھ مستقل تصادم کے ماحول میں ہے ورنہ انکے پاس اصولی اور تعمیری و تخلیقی طور سے کرنے کیلئے کچھ ہے ہی نہیں ۔

اس طرح سے اس اندھی، گونگی، بہری (صم-بکم-عمی) دوکان کو ایک ہزار سال سے چلایا جا رہا ہے۔ اگر دیگر اقوام و معاشروں کیساتھ مستقل تصادم کا ماحول عربوں اور تاجر مذہبی قیادت ‘طبقہ علماء’ نے قائم نہ رکھا ہوتا تو یہ کب کی برہنہ ہوکر اپنی حقیقیت کیساتھ سامنے آجاتی اور ختم ہوجاتی۔ اور پھر اصول و اقدار و نظریہ و شعور جنم لیتا اور تخلیقی و ارتقائی ماحول زندہ ہوتا۔

واقعہ یہ ہیکہ اس عربی/قومی اسلام کی جان طوطے کیطرح مستقل قومی تصادم کے ماحول میں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔