کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں!

عالم نقوی

ہفتہ وحدت کی ان تاریخوں میں آج (اتوار ۱۳ ربیع الا ول کو ) ادارہ تحقیق  و تصنیف اسلامی  نبی نگر علی گڑھ کی مسجد میں ایک منفرد پروگرام  منعقدہوا جس میں ’’۔وَرَفَعنالَک ذِکرَک۔ ‘‘ پر مولانا کمال اختر قاسمی کی عارفانہ  تذکیر    کے بعد ’’سیرت رسول ﷺ میں عصری سوالات کی جستجو‘‘ اور’’ دعوت نبوی کی حکیمانہ جہات‘‘ کے  معنی خیز موضوعات پر ڈاکٹر محمد  ذکی کرمانی، مولانا محمد طارق قاسمی ندوی  اور اَشہَد جمال ندوی کی مؤدَّتِ رسول ﷺ   سے سرشار،عصری معنویت سے بھر پور  اورقرآنی بصیرت  سے  مملو  تقاریر ہوئیں۔ دو گھنٹے کے مقررہ وقت میں مکمل ہوجانے والا یہ برنامج کئی کئی گھنٹوں کے طویل اور تھکا دینے والے پروگراموں سے  کہیں بہتر ثابت ہوا ۔

اُمت کے موجودہ مسائل اور زوال کا سبب اگر قرآن اور اُسوَہِ حَسَنَہ سے دوری ہے تو اُن کا حل بھی  قیامت تک قرآن و سنت پر لفظاً او ر معناً  عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ قرآن کی تسلی اور  وعدہ  ہے کہ ’’ہمت نہ ہارو(دل شکستہ نہ ہو )  اور غم نہ کروتمہیں غالب رہوگے اگر۔ ۔تم سچے مؤمن بن جاؤ (آل عمران۔ ۱۳۹)‘‘

رخائن  و آسام سے یمن و فلسطین تک امت مسلمہ لاکھ زبون و خوار  اور طاقتور و ظالم  دشمنوں کا ہدف سہی لیکن ۔ ۔فَاِنَّ مَعَ ا لعُسرِ یُسرا ً۔ اِن َّمَعَ ا لعُسرِ یُسراً۔ ۔ کی دائمی تسلی اور آفاقی پیغام بھی اُسی قرآن میں موجود ہے۔ ضرورت صرف اتنی ہے ہم اُسے مہجور بنائے رکھنے کے اپنے مذموم  رویے کے بجائے فوری طور پر  اُسے اپنے دلوں میں اتارنے اور اپنے کردار میں ڈھالنے کا کام شروع کر دیں ! سورہ اَلَم نشرح کی ان دو آیتوں کے مطابق  اللہ سبحانہ تعالی کی حکمت یہ ہے ہر ایک ’’عُسر‘‘ کے ساتھ عین اُسی وقت ایک سے زائد، متعدد’’ یُسر‘‘  بھی بندے کے سامنے  موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت صرف  اُن کی شناخت اور بر وقت استعمال کی ہے۔ یعنی ضرورت اِس کی ہے کہ’  ہر ایک تنگی ‘اور’ہر ایک  پریشانی ‘کے ساتھ اُن  تمام ’’ایک سے زائد آسانیوں اور سہولتوں ‘‘ کی نہ صرف شناخت کی جائے بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے عطا کردہ اُن تمام مواقع کا بھر پور استعمال بھی کیا جائے۔ وہ عسر، تنگی، پریشانی اور مصیبت خواہ کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو، اگر ہم دل گرفتہ، پریشان اور مایوس ہونے کے بجائے اُن آسانیوں کی تلاش اور اِستعمال میں اپنا وقت صرف کریں جو رحیم و کریم آقا نے عین اُسی وقت ہمیں فراہم کر رکھی ہوتی ہیں، تو ہم  خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے کہ اللہ کا کوئی کام بے سبب اور بے حکمت نہیں ہوتا!

قرآن کریم نے امر با لمعروف اور نہی عن ا لمنکر یعنی نیکی کاحکم دینے اور برائی سے روکنے یعنی دین فطرت کی طرف بلانے کی ذمہ داری سے اُمت کی کسی فرد کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا ہے البتہ اس دعوت کے لیے نبی کریم ﷺکی طرح مدعو کے لیے داعی کے دل میں ’’ خیر خواہی کا جذبہ‘‘ ہونا  لازمی ہے اور  طریقہ کار  بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ بہر حال و بہر صورت  ’’موعظہ حسنہ اور جدال احسن‘‘ پر مبنی  ہو۔سختی، کٹ حجتی اور زور زبر دستی ہر گز نہیں۔ لیکن اِن سب سے پہلے جو بنیادی شرط ہے وہ اسلام میں خود پورے کا پورا داخل ہونے اور نبی کریم ﷺ کے اُسوہ حسنہ پر عمل ہے۔ یہ وہ شرط ہے جس کے عملی مظاہرے لیے  ختمی مرتبت ﷺ کو اعلان نبوت سے قبل ایک دو نہیں، دو چار یا دس بیس بھی نہیں پورے چالیس سال کا وقت دیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مکے کا کوئی  ایک فرد بھی  ایسانہ تھا جو اُنہیں ’صادق اور امین ‘ نہ سمجھتا ہو!لہٰذا موجودہ حالات  کتنے ہی خراب اور   بظاہر مایوس کن سہی، مسلمانوں کے سنبھلنے اور پھر سے غلبہ حاصل کرنے کے امکانات بھی کم نہیں ہیں۔ مایوسی قوائے عمل کو شل کرتی ہے تو ’امید ‘متحرک اور باعمل رکھتی ہے !

 اللہ سبحانہ تعالی ٰ کا یہ وعدہ بھی اُسی قرآن میں موجود ہے کہ ’’اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے اُن پر احسان کریں اور اُنہیں لوگوں کا پیشوا  بنائیں اور (اپنی ) زمین کا وارث قرار دیں (سورہ قصص۔ ۵)‘‘

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ توحید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے !

تبصرے بند ہیں۔